پاکستان کی آبی سفارت کاری!


سندھ طاس آبی معاہدے کے مستقل کمیشن کی 113ویں میٹنگ میں حاضری کیلئے بھارتی سرکار نے 20 تا 21مارچ ایک دس رکنی وفد پاکستان بھیجا جس کا واحد مقصد دنیا کو یہ دکھلانا تھا کہ بھارت اس معاہدے کی خلاف ورزی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ مئی 2015 سے بھارت اس کمیشن کی لازمی سالانہ ملاقاتوں میں شرکت سے انکاری رہا ہے۔ اس بار آیا تو سہی مگر مسئلہ سلجھانے نہیں، اسے جوں کا توں وہیں کھڑا رکھنے کے لئے!

بھارت اور پاکستان پانی پر دو مخالف حکمتِ عملیوں پر عمل پیرا ہیں۔ بھارت ایک طویل مگر مستقل پالیسی کے تحت پن بجلی کے منصوبوں کا جال بچھا رہا ہے۔ کبھی کبھار وہ اتنی دیا ضروردکھا دیتا ہے کہ پاکستان بھی ان منصوبوں کے ثمرات سے تھوڑا بہت مفید ہو جائے جبکہ پاکستان کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی بھی حکمتِ عملی نہیں! پانی پر سفارت کاری اس نے آبی انجینئرز پر چھوڑ رکھی ہے جو بیچارے صرف تکنیکی اعتراضات ہی اٹھا سکتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایک مربوط پالیسی ہو جو قطرے میں دجلہ دیکھ لے! پاکستان کو یہ اندیشہ ہے کہ بھارت کے آبی منصوبے بتدریج پاکستان کے حصے کا پانی کم کر دیں گے جبکہ اصل خطرہ دریائے سندھ کے پانی پر منحصر ماحولی نظام کی مکمل تباہی کا ہے جس کا ہمیں علم بھی ہے مگر پھر بھی انجان بنے بیٹھے ہیں!

ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک دو جہتی علاقائی آبی پالیسی بنائی جائے جس کے تحت پہلے تو چند دوست بنائے جائیں جو کہ پاکستان کی حمایت میں کھڑے ہوں، پھرپاکستان کی داخلی آبی سرمایہ کاری کو بین الاقوامی سفارت کاری کے ساتھ جوڑا جائے۔ ابھی تک ہماری آبی سفارت کاری کا محور محض سندھ طاس آبی معاہدے ہی رہا ہے۔ مانا کہ یہ ایک ایسا تزویراتی اثاثہ ہے جسے دونوں ہمسایوں کو بچانا چاہیے مگر پاکستان کے لئے تو یہ زندگی اور موت کا معاملہ ہے کیونکہ اسی سے غریب کی روٹی اور امیر کی عیاشی وابستہ ہے!

اس معاہدے کے تحت پاکستان کو لگ بھگ 127 ملین ایکڑ پانی ملتا ہے ۔ لیکن ہماری سوئی صرف اسی پر اٹکی ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہم دیگر تزویراتی اثاثوں کو پسِ پشت ڈال چکے ہیں۔ ہمارے دریاﺅں میں تقریباً ستر فیصد پانی گلیشئر ز کے پگھلنے سے آتا ہے۔ زراعت کیلئے ساٹھ فیصد تک زیر زمین پانی استعمال ہوتا ہے۔ اور بارش کا بیش بہا پانی خاص طور پر مون سون میں کہیں بھی ذخیرہ نہیں جاتا۔ اس کے علاوہ دریائے سندھ میں پندرہ فیصد پانی دریائے کابل سے آتا ہے لیکن اس پانی کو باقاعدہ طور پر حاصل کرنے کے لئے ہمارا افغان حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں۔ ان تمام باتوں کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے اگر خطے کی ایک باہمی آبی پالیسی ہو۔ ایسی آبی پالیسی جو کہ صرف سندھ طاس معاہدے کے ارد گرد ہی گھومے اور پانی کے دیگر ذرائع کو نظر انداز کر دے ملک کی سلامتی اور معیشت کے لئے زہر قاتل ہے!

پاکستان کی آبی پالیسی چار اہم نکات پر مشتمل ہونی چاہیے:

اول: پانی صرف بھارت اور پاکستان کا باہمی مسئلہ نہیں۔ دراصل بنگلہ دیش سے چین تک بھارت کے ہر ہمسایہ ملک کے ساتھ حل طلب آبی تنازعات ہیں۔ ایسے تمام ممالک پاکستان کے تجربے سے مفید ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور تمام ممالک کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو اجاگر کرنا چاہیے۔ بنگلہ دیش اور چین کے علاوہ بھوٹان اور نیپال کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے جو کہ با آوازِ بلند اس مسئلے کو بھارت کے ساتھ اٹھاتے رہتے ہیں۔ بھارت کی چال یہ ہے کہ پانی کے مسئلے پر چپ سادھ لی جائے اور اگر کوئی بہت شور مچائے تو اس سے علیحدگی میں نپٹا جائے۔ پانی کو خطے کا مسئلہ بنانا اس چال کا بہترین توڑ ہے۔

دوئم: بین السرحدی پانی پر سفارت کاری کرتے ہوئے خطے کے بالائی ممالک میں پانی پر سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے جہاں سے پانی بہہ کر ہم تک پہنچ رہا ہے ۔ پاکستان نے اس قسم کی کوئی سرمایہ کاری ابھی تک نہیں کی جس کی بدولت پانی آنے والے نسلوں کے لئے ذخیرہ کیا جا سکے۔ بھارت نے بھوٹان میں ایسی ہی سرمایہ کاری کی جس کے نتیجے میں تین پن بجلی گھر وجود میں آئے جن سے 1416 میگا واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ مزید تین منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں جن سے 2129 میگا واٹ بجلی حاصل ہو گی۔ کچھ اس طرح کی سرمایہ کاری پاکستان دریائے کابل پر کر سکتا ہے۔ فی الوقت افغانستان میں 13 چھوٹے ڈیم زیرِ تعمیر ہیں ۔ پاکستان اگر چاہے تو ایک یا دو ڈیمز کو جزوی یا مکمل طور پر تعمیر کر سکتا ہے ۔ اس طرح فاٹا اور خیبر پختونخواہ کے علاقے توانائی میں خود کفیل ہو سکتے ہیں اور پاکستان افغانستان کو ساتھ لے کر چل سکتا ہے۔ اس ضمن میں عالمی بینک سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ اگر پاکستان نے اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا تو خطے سے باہرکئی قوتیں اس بہتی گنگا میں چھلانگ لگانے کے لئے تیا ر ہیں! ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھنے سے نقصان صرف پاکستان کا ہی ہونا ہے۔ افغانستان جیسے بالائی علاقے میں آبی سرمایہ کاری پاکستان کے مفاد میں ہے۔ ایسا کرنے سے افغان عوام کی زندگی میں سدھار آئے گا اور پاکستان پر مہاجرین کا بوجھ کافی حد تک ختم ہو گا۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم خطے میں ایک آبی منڈی دریافت کریں جو کہ ہمارے پچھواڑے میں ہی موجود ہے۔

سوئم: اپنی سوچ اس حد تک محدود رکھنا کہ مون سون کی بارشیں ہوں گی تو آبی ذخائر بھر جائیں گے مسئلے کا حل نہیں۔ موسمیاتی تبدیلی خطے میں ہمالیہ سے ہندوکش اور خلیج بنگال سے بحرہ عرب تک نت نئے مسائل جنم دے رہی ہے جس کا نتیجہ غذائی قحط، وسیع پیمانے پر ہجرت، شدید موسم سیلاب، سوکھا اور گرمی کی شدید لہر کی صورت میں ہم بھگتنا شروع ہو گئے ہیں ۔ گھنگور گھٹائیں چھاتی جموں میں ہیں اور زیرِآب سیالکوٹ آ جاتا ہے۔ چڑھتا دریائے کابل ہے اور سیلاب کی زد میں نوشہرہ تہس نہس ہو جاتا ہے۔ بین السرحدی سیلاب موسمیاتی تبدیلی کا پیشِ خیمہ ہیں اور یہ پورے جنوبی ایشیا کو لے ڈوبیں گے! لہذا ایک رہنما کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان کو اس معاملے پر پیش رفت کرنی چاہیے۔ ایسا کرنے سے علاقائی تعاون اور تجارت کے نئے راستے کھل سکتے ہیں۔

چہارم: خطے کی آبی سفارت کاری کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے پاکستان کو اداروں میں بنیادی ڈھانچے تشکیل دینے کے لئے سرمایہ کاری کرنا ہو گی۔ اگر کسی ملک کی بقا بین السرحدی پانی پر ہو اوروہاں مرکز اور صوبوں کی سطح پر کوئی کل وقتی ادارے نہ ہوں، مزیدِ براں صوبے اور مرکز بنا کسی آبی پالیسی کے چل رہے ہو تو انجامِ گلستان کیا ہو گا! عارضی حل ڈھونڈنے کے بجائے ہمیں بین السرحدی پانی پر ایک عدد قومی کمیشن تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے جو الیکشن کمیشن کی طرح ایک آئینی ادارہ ہو۔ اس کمیشن کا کام بین السرحدی پانی سے جڑے تمام معاملات دیکھنا ہو گا بشمول سندھ طاس آبی معاہدہ۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنی عادتیں تبدیل کرنا ہونگی۔ ہم بہت شوق سے پانی ضائع کرتے ہیں۔ پانی ذخیرہ کرنے کے شعور سے ہماری قوم بالکل عاری ہے۔ ہمیں پانی جمع کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف سندھ طاس معاہدے کا راگ الاپ کر ہمیں جو ملے گا وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ سے بڑھ کر نہیں ہو گا۔

(یہ مضمون پچیس مارچ کو روز نامہ ڈان میں چھپا جسے’ ہم سب‘ کے لئے ترجمہ کیا ہمارے ساتھی محمد شہزاد نے۔ صاحب مضمون علی توقیر شیخ ایک جانے مانے ماہر ماحولیات ہونے کے علاوہ  Leadership for Environment And Development (LEAD) Pakistanکے سربراہ ہیں۔)

ترجمہ: محمد شہزاد

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).