پلاسٹک کا سپاہی، کاغذ کا گھوڑا ، کچھ درد، کچھ خواب


غالباَ پانچویں جماعت میں تھا۔ اسکول میں سردیوں کی چھٹیاں تھیں۔ چھٹیاں گزارنے کے لئے نانا کے گھر سے بہتر کیا مقام ہو سکتا تھا۔ صبح جب نانا کام کے لئے نکلتے تو نانی سے چھپا کر مجھے پانچ روپے کا ایک نوٹ پکڑاتے اور میری طرف آنکھ مار کر نانی سے کہتے، جب دھوپ تیز ہو جائے تو تورو کو پانچ روپے دے دینا۔ دس روپے اس زمانے میں عیاشی ہوا کرتے تھے۔ اس دن نانی کو صبح ہی صبح کسی کے گھر تیمارداری کے لئے جانا پڑا۔ میدان خالی دیکھ کر میں منفی درجہ حرارت میں گھر سے نکل آیا اور سیدھا کڑکی ماما کے گھرکی راہ لی۔ کڑکی ماما اسی سال کا بوڑھا تھا۔ اپنے گھر میں اپنی بڈھی کے ساتھ اکیلا رہتا تھا۔ بڑا بیٹا کسی زمانے میں ہندوستان مزدوری کرنے گیا تھا۔ عرصے تک خبر نہ تھی۔ پھر ایک دن اطلاع آئی کہ کسی ہندوستانی جیل میں شک کی بنا کر بند کر دیا گیا ہے۔ کڑکی ماما کی روزی روٹی اس کے چھرے والی بندوق پر منحصر تھی۔ گاﺅں میں ایک ہی آدمی تھا جس کے پاس چھرے والی بندوق تھی۔ روپے کے بارہ چھرے ملتے تھے اور ساتھ میں پلاسٹک سے بنے ہوئے چند سپاہی جو ایک تختے پر ایستادہ تھے۔

کڑکی ماما کے لہجے میں ہر وقت تلخی رہتی تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ بیٹے کی جدائی نے ماما کو اتنا تلخ بنا دیا۔ کڑکی ماما کے گھر پہنچا تو ماما نے کہا ابھی تو سورج بھی نہیں نکلا، بعد میں آنا۔ میں نے کہا بعد میں نانی نہیں چھوڑیں گی۔ کڑکی ماما نے کمرے میں تختہ سیدھا کیا اور مجھے بندوق اور چھرے تھما دئیے۔ دو چھرے چلا نے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ کمرے میں لالٹین کی کم روشنی میں نشانہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ ماما سے کہا کہ مجھے تختہ باہر لگوا دیں۔ ماما نے جھاڑا کہ یہ وقت دیکھو، یہ سردی دیکھو اور تمہاری فرمائشیں دیکھو۔ جاﺅ نہیں نکالتا۔ اتنے میں ماما کی بیگم نے میری جانب ایک پلاسٹک کا سپاہی اچھالا اور کہا، جاﺅ باہر اسے زمین پرکھڑا کر کے نشانہ بازی کرو۔ میں باہر آیا۔ پلاسٹک کے سپاہی کو زمین پر کھڑا کر کے اس کا نشانہ لینے لگا۔ چار دفعہ کوشش کرنے کے بعد ایک چھرا سپاہی کی ٹانگ پر لگا اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی۔ میں نے مٹی کی ایک چھوٹی سی ڈھیری بنائی اور سپاہی کو ناف تک اس میں دھنس دیا۔ مزید چھرے چلائے۔ تھوڑی دیر بعد ماما کمرے سے باہر نکلے۔ میں نے اور چھرے مانگے تو ان کی نظر سپاہی پر پڑ گئی۔ پوچھا یہ مٹی میں کیوں دھنسایا ہوا ہے۔ میں نے خوشی خوشی بتایا کہ میں نے اس کی ایک ٹانگ توڑ دی ہے ۔ کڑکی ماما آگ بگولہ ہو گئے کہ سپاہی کی ٹانگ کیوں توڑی؟ تمہیں معلوم بھی ہے کہ ایک سپاہی پانچ روپے کا آتا ہے؟ طویل جھگڑے کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ کڑکی ماما نے میرے چار روپے واپس کرنے یا مزید چھرے دینے سے انکار کیا ۔ ٹوٹی ٹانگ والا سپاہی میری طرف اچھال کر کہا کہ شام کو ایک روپیہ مزید لے کر آﺅں ورنہ آئندہ بندوق نہیں ملے گی۔

میں ٹوٹی ٹانگ والا سپاہی ہاتھ میں پکڑ کر اداس قدموں سے گھر پہنچا۔ رونی سی صورت بنا کر نانی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ ابھی کہانی شروع ہی کی تھی کہ نانی نے مزید ڈانٹنا شروع کر دیا ۔ اس سردی میں بغیر کوٹ جرسی کے باہر کیوں گئے تھے۔ آئندہ اس طرح گھر سے نکلے تو تمہاری خیر نہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ غالباَ سردی کی وجہ سے شام تک بخار نے آ لیا۔ رات کے کسی پہر آنکھ کھلی تو نانا جی سو رہے تھے۔ کمرے کے کونے میں رکھی ٹیبل نما پرلالٹین کی دھیمی لو روشن تھی۔ میرے ہاتھ پلاسٹک کا لنگڑا سپاہی پسینے سے شرابور تھا۔

 بخار میں hallucination ایک عام بات ہے۔ hallucination کو غالباََ ہذیان کہتے ہیں۔ میں نے ہذیان میںسپاہی کو ٹیبل پر کھڑا کرنے کی کوشش کی مگر سپاہی ایک ٹانگ پر کھڑا نہیںرہ سکتا تھا۔ بہت دیر بعد خیال آیا کہ مجھے اپنی جیب میں موجود چیونگ گم چپا کر اس میں سپاہی کھڑا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپاہج سپاہی کو مجبوراَ چپچپائے دلدل میں کھڑا ہو نا پڑا۔ اس کا سایہ لالٹین کی روشنی میں چار گنا بڑا لگ رہا تھا۔ سایہ دیکھ کر خیال آیا کہ اس سپاہی کے لئے ایک گھوڑا بھی ہونا چاہیے۔ میں نے کونے میں پڑے بستے سے ایک کاپی نکال کر اس میں سے ایک ورق پھاڑا اور اس سے گھوڑا بنانے کی جستجو میں لگ گیا۔ کافی محنت کے بعدٹیڑھا میڑھا سا ایک گھوڑا بنانے میں کامیاب ہوا۔ سپاہی کو گھوڑے پر بٹھانے کا عمل بھی چیونگم کی مدد سے طے ہوا۔ اب سپاہی کو لڑنا چاہیے تھا مگر سپاہی لڑ نہیں رہا تھا۔ میں نے کاپی سے ایک اور ورق پھاڑا۔ اس پر کچھ لکیریں ڈال کر ایک میدان جنگ کا ایک نقشہ تخلیق کیا۔ کاغذ کے ایک کونے پر پلاسٹک کا لنگڑا سپاہی گھوڑے سمیت کھڑا کر دیا مگر سپاہی لڑ نہیں رہا تھا۔ میں جھنجھلا گیا۔ میں نے سپاہی کو دھکا لگانے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں میرا ہاتھ لالٹین پر جا لگا۔ لالٹین گر کر بجھ گئی۔ نانا جی اٹھے۔ مجھے اندھیرے میں آواز دی کہ میں کیا کر رہا ہوں؟ میں نے کہا کھیل رہا تھا اور لالٹین گر گئی۔ نانا جی نے ماچس جلائی۔ میرے قریب آکر لالٹین جلائی۔ میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا جو شاید ابھی بھی گرم تھا۔ نانا جی میرے پاس بیٹھ گئے۔ بہت پیار سے پوچھا کہ اس وقت کیا کھیل رہے تھے۔ میں نے سپاہی سے لے کر گھوڑے اور میدان جنگ تک کی ساری داستان سنا دی۔ نانا جی مسکرائے۔ کہنے لگے، تورو! دیکھو یہ سپاہی کتنا مجبور ہے۔ اس کی ایک ٹانگ کٹ چکی ہے اور تم اسے زبردستی لڑانے پر تلے ہوئے ہو؟ بیٹا سپاہی ہمیشہ لڑنے کے لئے نہیں ہوتا۔ میں نے پوچھا تو پھر کس لئے ہوتا ہے؟ نانا جی بہت دیر تک سوچتے رہے۔ پھر بولے، سپاہی بھی تو ہمارے جیسا انسان ہوتا ہے۔ اسے بھی ہنسنے، مسکرانے اور کھیلنے کا حق ہے۔ صبح میرے ساتھ باغ چلنا۔ ہم تالاب سے نکلنے والی نالی کے پاس بیٹھیں گے۔ وہاں کاغذ کی ایک کشتی بنائیں گے۔ اس میں سپاہی کو بٹھا کر پانی میں چھوڑ دیں گے۔ میں مان گیا۔ پھر جانے کب نیند نے آلیا۔

صبح آنکھ کھلی تو نانا کام پرجا چکے تھے۔ اگلے دن تک مجھے سپاہی کی کہانی بھول بھال گئی۔ وقت نے بہت ساری کروٹیں لیں۔ نانا جی نہیں رہے۔ میں بڑا ہوا۔ میں نے پڑھا کہ البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا، جنگ بوڑھے آدمی شروع کرتے ہیں مگر لڑتے جوان ہیں۔ میں نے پڑھا، امریکی صدر ہربرٹ ہوور نے کہا تھا، یہ بوڑھے لوگ ہیں جو جنگ کا اعلان کرتے ہیں مگر مرتے اس میں جوان ہیں۔ مشہور مورخ جارج میک گرون نے کہا تھا، میں تنگ آ چکا ہوں ان بوڑھوں سے جو جنگ کا خواب دیکھتے ہیں تاکہ اس میں جوان مر سکیں۔ مجھے احساس ہوا کہ جنگ کا نقشہ سپاہی نہیں پھیلاتا۔ سپاہی بس لڑتا ہے اور لڑائی کے دوران اس کی ٹانگیں کٹتی ہیں، بازو بے کار ہوتے ہیں، آنکھیں ضائع ہوتی ہیں اور کسی جرنیل کے سینے پر چند تمغے جھلملاتے ہیں۔

مجھے اپنے سپاہی کی کہانی پھر سے لکھنی ہے۔ اس وقت مگر دیس میں مارو مارو کی آواز ہے۔ بندوق صرف سپاہی کے ہاتھ میں نہیں عام انسانوں کے ہاتھ میں بھی ہے۔ انسانی لہو سے زمین کا چہرہ سرخ ہے۔ رنج و الم کی ناتمام داستانیں ہیں۔ سرحد انسانوں کی پہچان کے لئے صرف لکیر نہیں ہے۔ اس لکیر پر کسی ماورائی نظریاتی سرحد کی باڑ قائم جس کی کیلوں نے انسانی لباس کو تار تار کر رکھا ہے۔ بیلجیئم اور نیدرلینڈ کی سرحد پر ایک کیفے ہے۔ اس کیفے کے ساتھ فٹ پاتھ پر چند پتھر ایک سیدھی لائن میں لگے جو بیلجیئم اور نیدرلینڈ کی سرحد کو تقسیم کرتے ہیں۔ کیفے کی کرسیاں آدھی نیدر لینڈ میں پڑھی ہوتی ہیں اور آدھی بیلجیئم میں۔ میں اپنے سپاہی کو کشتی میں نہ بٹھا سکا۔ میری خواہش ہے کہ زندگی کبھی موقع دے تو میں اسی کیفے کی کسی ٹیبل پر بیٹھ کر اپنے سپاہی کی کہانی لکھوں گا۔ ٹیبل پر سپاہی اپنی دونوں ٹانگوں کے ساتھ سلامت کھڑا ہو گا۔ جس کاغذ پر کہانی لکھنے کا آغاز ہو گا اس پر میدان جنگ کی لکیریں نہیں ہوں گی۔ بارود کی بدبو نہیں ہو گی۔ لہو کا رنگ نہیں ہو گا۔ سرحد پر کوئی باڑ ہمارے دامن میں الجھی نہیں ہو گی۔ ہم دونوں مل کر کاغذ پر زندگی کی ایک ایسی داستان رقم کریں گے جس میں انسان سے محبت کا درس ہو گا۔ کچھ ہنسی ہو۔ کچھ مسکراہٹ ہو۔ دعا کریں اس وقت تک میرے سپاہی کے کاندھے کسی کالے ٹرنک کے بوجھ سے ڈھلک نہ جائیں۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah