فرقہ وارانہ فساد کیوں ہوتے ہیں؟


فرقے تو پہلے بھی تھے، فساد اب کیوں ہوتے ہیں؟ تقسیم سے قبل لکھنو کے ہندووں نے تعزیہ کی راہ روکی تو ہندوستان میں اہل تشیع کے سب سے بڑے مخالف مولانا منظور نعمانیؒ یہ کہتے ہوئے ان کے ساتھ تھے کہ انہیں شیعہ نہیں, مسلمان ہونے کی وجہ  سے روکا گیا ہے،امرتسر میں سکھوں نے یہی وطیرہ اپنایا اور کہا کہ تعزیہ گزارنے کی خاطر ہم اپنے مقدس برگد کے درخت کی شاخیں نہیں کاٹنے دیں گے، شرارت کی خاطر امیر شریعت سید عطا ء اللہ شاہ بخاریؒ کو ثالث قرار دے دیا۔ ان کا فیصلہ تھا جلوس اسی راستے سے گزرے گا جہاں سے گزرتا آیا ہے، سکھوں نے فیصلہ ماننے سے انکار کیا تو خود جلوس کے آگے گتکا کھیلتے ہوئے چل پڑے۔ یہ الگ بات ان کے ساتھیوں نے جلوس کے پہنچنے سے پہلے زمین کھود کر سلوپ بنا دی اور شاخیں کاٹنے کی نوبت نہ آئی ۔ مگر دونوں واقعات میں دیوبندی اکابر چاہتے تو انتقاماً تماشا دیکھ سکتے تھے، الزام بھی ان پر نہ آتا ۔اب ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ لاشیں ہی آخری حل کیوں سمجھی جاتی ہیں؟ یہ راز آج مولانا محمد احمد لدھیانوی کی میڈیا سے گپ شپ میں کھلا اور ان کی زبانی اور بھی حیرت انگیز لگا ۔ سوال تھا کہ جھنگ میں پہلے ہر وقت فساد کی فضا رہی اب وہاں ایسا نہیں، امن ہے اورگزرے الیکشن میں تو شیعہ آبادیوں سے بھی مسرور کو ووٹ پڑا۔ یہ معجزہ کیسے ہوا؟

بتایا گیا کہ” چار برس قبل یکم محرم کو احرار پارک جھنگ میں کانفرنس تھی دوسرے گلی سے اہل تشیع کا بہت بڑا جلوس گزر رہا تھا، حالات سوئی کی نوک پر تھے ۔اچانک ایک لڑکا بھاگتا ہوا آیا، اس کے سر ماتھے اور بازووں سے خون ٹپک رہا تھا، شور مچادیا کہ شیعوں نے مارا ہے ۔ قریب تھا کہ مشتعل ہجوم جلوس کی طرف بڑھتا کہ منتظمین نے سختی سےاعلان کردیا کہ کوئی نہیں اٹھے گا، اور اس لڑکے کو پکڑ کر سٹیج پر لایا جائے، نیا تماشہ یہ ہوا کہ لڑکا بھاگ نکلا، پکڑا تو کوئی زخم نہیں تھا، خون بھی جعلی تھا”، پولیس تھانے لے گئی اور جلسہ ختم ہونے سے بھی پہلے مقامی ایم این اے کے کارندے رہا کروا کر لے گئے مگر شہر فسادات سے بچ گیا ۔

اگلے ہی برس اچانک ایک کتا شہر میں نمودار ہوا، جس کے جسم پر ایک مقدس شخصیت کا نام درج تھا، گستاخی کی صریح حرکت نے عوام کو آگ بگولا کردیا۔ اوپر سے ایک کیبل نیٹ ورک نے خبر اٹھا دی، لوگ جلوس کی شکل اہل تشیع کے محلہ کی جانب بڑھنا چاہتے تھے کہ قیادت میدان میں آگئی لوگوں نے بات سننے سے انکار کر دیا، جھگڑا ہوا، الزام لگے مگر جلوس نہیں بننے دیا گیا۔ انکوائری ہوئی تو لکھنے والا بھی مل گیا، جس نے لکھوایا اور جہاں لکھا گیا سب بے نقاب ہوگئے، یہ واردات بھی اسی حکومتی رکن قومی اسمبلی کے ڈیرے کی تخلیق تھی ۔ ووٹر شہر میں ترقیاتی کام مانگتے تھے، انہیں دوسری جانب لگانے کا یہی راستہ وہ برسوں سے استعمال کرتے آئےتھے۔ چند روز بعد ہی شہر کے ایک چوک میں لگے فلیکس کو آگ لگا دی گئی جس پر سیدنا امام حسینؓ کا اسم گرامی لکھا ہوا تھا، افواہ سازوں نے اہل تشیع کو مشتعل کرنا چاہا مگر ان کی قیادت بھی کتے والے واقعے اور اس کی حقیقت سے آگاہ تھی، وہاں بھی جوش کے راستے میں ہوش والے آئے اور معاملہ تحقیقات میں چلا گیا۔ شہر میں شیعہ اور سنی عوام نے اس توہین کے خلاف الگ الگ جلوس نکالے مگر فساد کا خواب پورا نہ ہوسکا۔ بعد میں راز کھلا کہ یہ بھی اسی ڈیرے سے برامد ہونے والا منصوبہ تھا ۔

مولانا لدھیانوی تو صرف اسی پر خاموش ہوجاتے ہیں مگر پولیس اور دیگر تحقیقاتی اداروں کی فائلز دیکھ لیں، راز کھل جائے گا کہ مولانا حق نواز جھنگوی جن کے قتل کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کا نہ صرف درازہ کھلا بلکہ اسے جواز بنا کر دہشت گردوں کے لشکر تخلیق پائے۔ اس قتل کی وجہ بھی مذہبی نہیں سیاسی تھی جس میں ان کا ہم مسلک سیاسی ڈیرہ ماسٹر مائنڈ کے طور پر ملوث رہا،کیونکہ وہ الیکشن میں خطرہ بن گئے تھے ۔ رکن قومی اسمبلی ایثار قاسمی کے قتل پر شہر کئی روز تک فسادات سے سلگتا رہا یہ بھی سیاسی واردات تھی، فرقہ وارانہ نہیں۔

 ہلا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا ؟ یا کچھ لوگ اپنے مفادات میں انسانیت کے مقام سے اتنا نیچے گر جاتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اسمبلی کی ایک سیٹ کی خاطر دہائیوں کے لئے ملک کو فرقہ وارانہ قتل وغارت میں دھکیلنے والے ہاتھ بھی کیا دہشت گرد نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).