جب امریکہ میں شراب پر پابندی لگی ۔۔۔


کیا آپ کو معلوم ہے کہ بیسویں صدی میں امریکہ بھر میں شراب پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور اس کی خرید و فروخت غیر قانونی قرار پائی تھی؟

انیسویں صدی سے ہی امریکی خواتین کی شکایات میں اضافہ ہونے لگا تھا کہ پینے کے بعد مرد اپنے آپے میں نہیں رہتے اور اپنی بیویوں کے ساتھ مار پیٹ شروع کر دیتے ہیں۔ امریکی چرچ کو بھی شکایت تھی کہ لوگ فسق و فجور میں مبتلا ہیں اور نیکیوں کی طرف راغب نہیں ہیں اس لئے چرچ کی بجائے شراب خانوں میں جانا پسند کرتے ہیں۔ ان دونوں نے مل کر شراب پر پابندی کی مہم چلانا شروع کر دی جو آہستہ آہستہ طاقت پکڑتی گئی۔ چرچ کو یقین تھا کہ ملک کی غربت، تشدد اور دوسرے سماجی مسائل کا باعث شراب ہے۔ کسانوں نے بھی اعلی اخلاقی اقدار کے تحفظ کی خاطر اس پابندی کی حمایت کی۔

مارچ 1917 میں کانگریس میں شراب پر پابندیوں کے حامیوں کی تعداد بڑھ گئی اور ایک بھاری اکثریت سے آئینی ترمیم منظور کی گئی جس کے تحت شراب پر پابندی لگائی گئی۔ امریکہ کی یہ اٹھارہویں آئینی ترمیم جنوری 1919 میں مطلوبہ تعداد میں ریاستوں نے منظور کر لی اور ایک برس بعد یہ نافذ العمل ہو گئی۔

ایک قانون بنایا گیا جس کی رو سے شراب کی تیاری، فروخت اور نقل و حمل کو عمومی طور پر غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ ہاں پینے پلانے پر پابندی نہیں لگائی گئی۔ قانون میں بعض استثنیات دی گئی تھیں۔ جیسا کہ طبی یا مذہبی مقاصد کے لئے شراب استعمال کی جا سکتی تھی۔ سائنسی مقاصد وغیرہ کے لئے بھی الکوحل استعمال کی جا سکتی تھی۔ اسی طرح کی چند استثنیات تھیں۔

امیر حضرات نے آئینی ترمیم منظور ہونے اور نافذ ہونے کے درمیان کے ایک برس سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور بڑی تعداد میں اپنے گودام بھر لئے۔ ان کے علاوہ جرائم پیشہ گروہوں نے بھی یہی کیا۔ حتی کہ اس وقت کے امریکی صدر وڈ رو ولسن نے بھی وائٹ ہاؤس میں شراب کا ذخیرہ کیا جو کہ 1921 میں ان کے وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے پر ان کی ذاتی اقامت گاہ لے جایا گیا۔ ان کی جگہ وارن ہارڈنگ صدر بنے اور شراب کے اپنے ذخیرے سمیت وائٹ ہاؤس میں منتقل ہو گئے۔

الکوحل کی غیر قانونی تجارت میں خونریزی کا عنصر بھی سامنے آیا۔ مشہور ترین امریکی گینگسٹر ایلکپون الکوحل کی تجارت سے بہت امیر ہوا۔ شراب کی روک تھام کے لئے پولیس بہت کم تھی۔ جو تھی اسے یہ مافیا خرید لیتی تھی۔ عوام اس مافیا سے ہمدردی رکھتے تھے اور اس کی مدد کرتے تھے۔ سیاستدان بھی اس کی سرپرستی کیا کرتے تھے۔ ڈیٹرائٹ میں شراب نوشی کے ایک اڈے پر چھاپہ پڑا تو پولیس چیف، شہر کا میئر اور مقامی رکن کانگریس بھی پکڑے جانے والوں میں شامل تھے۔ ڈاکٹروں نے طبی مقاصد کے لئے الکوحل کے نسخے بیچنے کا دھندا شروع کر دیا اور خوب ہاتھ رنگے۔

اسی اثنا میں دنیا ایک بڑی کساد بازاری کا شکار ہو چکی تھی اور امریکہ بھی اس کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ حکومتی آمدنی کم ہوتی جا رہی تھی اور شراب کی غیر قانونی تجارت کرنے والے گروہ دولت میں کھیل رہے تھے۔ جو کسان ایک زمانے میں شراب پر پابندی کے حامی تھے، اب اپنی فصلوں کے نہ بکنے کے سبب شراب پر سے پابندی ہٹانے کے حامی بن چکے تھے کیونکہ مکئی کی فصل کا ایک نمایاں حصہ شراب بنانے کے لئے استعمال ہوا کرتا تھا۔ حتی کہ چرچ بھی شراب پر پابندی کی حمایت سے دستبردار ہونے لگا تھا۔

کانگریس کے 1930 کے انتخابات سے چند ہفتے قبل ایک مشہور غیر قانونی شراب فروش جارج کیسیڈی نے واشنگٹن پوسٹ میں صفحہ اول پر شائع کیے گئے مضامین میں اعتراف کیا کہ وہ پچھلے دس برس سے اراکین کانگریس کو شراب سپلائی کر رہا ہے اور اس کے اندازے کے مطابق 80 فیصد اراکین کانگریس شراب پیتے ہیں۔

شراب نوشی کے حامی اراکین کانگریس ان انتخابات میں بھاری اکثریت میں جیت گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ شراب پر پابندی سے جرائم کم نہیں ہو رہے ہیں بلکہ ان میں الٹا اضافہ ہو رہا ہے اور طاقت ور جرائم پیشہ مافیا اس کی فروخت کو دھندا بنا چکی ہے۔

بالآخر دسمبر 1933 میں اکیسویں آئینی ترمیم نافذ العمل ہوئی جس کا مقصد اٹھارہویں آئینی ترمیم کو واپس لے کر شراب پر سے وفاقی آئینی پابندی ختم کرنا تھا۔

یوں امریکہ ایک مرتبہ پھر شرابی ہو گیا۔ شراب کی فروخت سے حاصل ہونے والا پیسہ جرائم پیشہ گروہوں کی جگہ حکومت کی جیب میں جانے لگا۔ سب پرانی تنخواہ پر کام کرنے لگے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar