پشتون معاشرہ۔۔۔ ستارے ابھی اتنے بھی نہیں ڈوبے


 بھائی فرنود عالم سے راہ و رسم قلم کتاب تک ہی محدود تھی۔ ذرا اور تاریخ ٹٹولی تو یہ بھی پتہ چلا کہ ہم نہ سہی ہمارے اباو اجداد پڑوسی تھے۔ مزید یہ کہ ہمارے قبیلے بھی ایک ہی نکلے۔ بھائی نے اج اباسین کے کنارے کےعنوان سے “ہم سب “میں مضمون لکھا، اپنی قلم کی کاٹ سے ان کی اس تحریر نے بڑے دل گردے رکھنے والے قارئین کو بھی رلایا ہوگا۔ زرین خان کا ایک خیالی کردار اور اس کے ساتھ ایک سکھ اور اس کی بیوی کی کہانی جو اباسین کے کنارے آباد تھے

پھر اس کہانی میں متمدن اور غیر متمدن معاشروں کا موازنہ کر کے ایک جذباتی انداز میں بیان کیا گیا ہے

اس حوالے سے بھائی فرنود عالم کے اس مضمون میں کچھ نکتات ایسے ہیں جن کی وضاحت کرنا انتہائی ضروری ہے۔۔۔ طالب علمی کے زمانے میں کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی کے افسانے پڑھا کرتا تھا۔ انڈیا کی تقسیم کے بعد اردو میں جو ادب تخلیق ہوا وہ اگر ایک طرف اردو کےلئے ایک زرین دور کہا جاسکتا ہے تو دوسری طرف ان کہانیوں میں جو درد، کرب، انسانیت سوز کردار، اور روتی چیختی سسکتی انسانیت کا نوحہ جس طرح تخلیق ہوا وہ اپنی مثال اپ ہے۔ مین اج بھی “کھول دو “کی سکینہ نہیں بھول پاتا، مجھے اج بھی واہگہ بارڈر پر مرتے ہوئے” ٹوبہ ٹیگ سنگھ” کا وہ پاگل سردار سونے نہیں دیتا۔ ۔ اردو ادب کی ان شاہکار کہانیوں سے جب فراغت ملی تو اپنی مادری زبان پشتو کے فکشن ادب کی طرف آیا۔ ۔ میری حیرانی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ کہ جب میں دیکھا یہاں تو ان فسادات پہ کچھ لکھا ہی نہیں گیا ہے۔

بہرحال میرا تجسس بڑھتا گیا اور آخر میں اس نتیجے پہ پہنچا کہ پشتوں علاقوں میں ایسے واقعات ہوئے ہی نہیں تھے جو اس طرح کی ادب کی تخلیق کا سبب بنتے۔

خدائی خدمتگار تحریک کی منتخب حکومت تھی جب بٹوارہ ہورہا تھا۔ باچا خان نے تمام خدائی خدمتگاروں کو بلا کے اس بات پہ متفق کیا کہ یہاں رہنے والے سکھ ہندو سب ہمارے بھائی ہیں ان کا خیال رکھنا ہمارا قومی اور انسانی فریضہ ہے۔ اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ ایسا کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔ بھائی فرنود کے اس بات سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ بٹوارے کے بعد جس طرح اقلیت اور اکثریت، ہندو سکھ مسلمان کے تصور کو سرکار کی پشت پناہی کی موجودگی میں توقیت دی گئی، جس سے معاشرے میں تشدد کو ہوا دی گئی، اس حد تک تو اتفاق کیا جاسکتا ہے مگر اس حوالے سے پشتون علاقے کی مثال دینا، میرے خیال بالکل درست نہیں۔ اس وقت ریاست سوات ( سوات، شانگلہ، بونیر اور اباسین کوہستان ) ایک خود مختار ریاست تھی۔ تقسیم ہند سے پیدا ہونے والی آگ جب کشمیر تک پہنچی تو کشمیر میں ( جو اج کل پاکستان کے ساتھ ہے اور مسلم اکثرتی علاقہ تھا ) میں بسنے والے ہندو اور سکھ برداری کے لوگوں کی زندگی اجیرن ہوئی تو انھوں نے سوات کے اس وقت کے والی میاں گل عبدالودود سے پناہ طلب کی

والی سوات نے انھیں نہ صرف پناہ دی بلکہ تمام علاقوں میں رہنے کی اجازت دی۔ پشتون سوسائٹی نے اپنی تمام تر ایک مضبوط اور توانا سسٹم جیسے پشتون ولی کہا جاتا ہے، اس کے اصولوں کے تحت ان مظلوم لوگوں کو اپنے گلے سے لگایا اور انھیں برابر کے شہری کی حیثیت سے قبول کیا۔۔۔ اور اج تک یہ لوگ ہمارے ساتھ بھائوں کی طرح رہے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ بھی ہے کہ اج تک ان لوگوں کے جس طرح انگریزی میں miniority اور اردو میں اقلیت کا لفظ مستعمل ہے پشتو میں ایسا کوئی لفظ نہیں۔ میں نے لاکھ ڈھونڈا مگر ان کےلئے پشتو میں ایسا کوئی لفظ اج تک استعمال نہیں ہوا۔

میں ذاتی طور پہ شانگلہ کا رہنے والا ہوں۔ طب کے شعبے سے وابستہ ہو۔ پچھلے دو ماہ سے میں جس ہسپتال میں کام کرتا ہوں وہاں میرے ساتھ تین لوگ سکھ برادری کے بھی ہے۔ ایک ڈاکٹر دیو انند ہے۔ میں اور ڈاکٹر دیو انند ایک ہی روم میں رہتے ہیں۔ ہم برتن تو چھوڑے تولیہ تک شیئر کرتے ہیں۔ ہمارا مشترکہ دوست ڈاکٹر اشتیاق جب ہمیں کھانے کی دعوت دیتا ہے تو وہ اس بات کا ضرور خیال رکھتا ہے کہ کھانے میں گھر میں پکا ہوا بڑا گوشت نہیں لاتے۔ تاکہ دیو انند کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ اس کے علاوہ ایک میڈیکل ٹکنشین سورج پرتاب سنگھ گاوں چکیسر کا وہ مشہور پرکٹشنرز ہے کہ ہم اٹھ ڈاکٹروں کے ہوتے ہوئے بھی وہ روزانہ سو سے دو سو مریضوں کا علاج کرتے ہیں کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوا ہے کہ ہماری موجودگی میں بھی ان کا پوچھنے مریض آجاتے ہیں۔ میں کہتا ہوں او بھائی میں چیک کرلیتا ہوں۔ ۔ اگے سے جواب ملتا ہے کہ نہیں نہیں سورج کے ہاتھ میں اللہ نے شفا رکھی ہے۔ تیسرا بندہ دیا رام ہے ایک دن میں نے ان سے ان کے نام کے معانی پوچھ لیے تو انھوں نے ہنستے ہوئے کہا ڈاکٹر صاحب اس کے معنی ہے عطا اللہ۔ ۔ ۔ میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا عطا اللہ تو عربی ہے پشتو میں، تو میں اب اپ کو خدائے ورکڑے ( اللہ کا دیا ہوا ) کہوں گا۔

اب جاتے ہیں ذرا سوات شہر کی طرف، سوات کا سب سے مشہور ماہر اطفال ڈاکٹر گیان پرکاش بھی اسی برادری سے ہے۔ سوات کے سب سے مشہور ماہر امراض جلد ڈاکٹر جگت لعل ہے۔ سوات کا سب سے مشہور پتھالوجسٹ ڈاکٹر امرت لعل ہے۔ عرض یہ ہے کہ اگر ان کو دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا تو اج یہ اتنے بڑے عہدوں پہ کیوں کر فائز ہوتے۔۔۔

فرنود بھائی کے اس مضمون میں ایک اور بات جس پر مجھے بحیثیت پشتون تحفظات ہیں وہ یہ کہ انھوں متمدن اور غیر متمدن معاشروں کے موازنے کےلئے کراچی اور تورغر اور شانگلہ کا انتخاب کیا ہے۔۔ سب سے پہلے تو یہ بات کہ تمدن ہے کیا۔۔۔ کیا فرنود بھائی بڑے بڑے بلڈنگ، ہوٹلز، پکی سڑکیں، کاٹن اور جینز کی پتلونوں کو تمدن کہتے ہیں اور اس کے مقابلے میں شانگلہ کے فلک پوش پہاڑ، کسی حد تک ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، لوگوں کی سادہ زندگی انھیں غیر متمدن لگتی ہے۔۔۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں لوگوں کی زندگی میں سکون، محبت۔، پیار مہمان نوازی اور سب سے بڑھ کر امن ہو وہ کسی طرح سے بھی غیر متمدن اور غیر مذہب نہیں ہوسکتا۔ وہاں کسی ہندو، کسی سکھ کا قتل کبھی نہیں ہوا۔۔۔ اس کے برعکس بقول ان کے متمدن معاشروں میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ دوسری بات یہ ہے کہ پڑھنے لکھنے سے بے شک ان کی طرز زندگی اور معاشرت میں فرق آیا ہوگا۔ مگر اتنا فرق نہیں آیا کہ خدانخواستہ کبھی شانگلہ سوات کے کسی گاوں میں کسی نوجوان نے کسی ہندو، سکھ کی بیٹی کو اغوا کرکے زبردستی مسلمان کیا ہو۔

اور جاتے جاتے ایک واقعہ سناتا چلوں۔

ڈاکٹر نور الحیات جو اسی گاوں کا رہنا والا ہے۔ آجکل نواز شریف کڈنی ہسپتال میں بحیثیت ما ہر امراض گردہ مثانہ ( یورالوجسٹ ) ڈیوٹی پہ مامور ہے ان کے پڑوس میں گلزاری لعل سنگھ رہتے ہیں۔ گلزاری لعل سنگھ کے پر دادا کے وقت سے یہ خاندان یہیں رہتے چلے آئے ہیں۔ ڈاکٹر نور نے بتایا کہ جب بقرعید آتی ہے تو ہماری روایت ہے کہ ہم گائے اور بھینس زبح نہیں کرتے بلکہ دنبے اور بکرا بکری کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ اپنے پڑوسی گلزاری لعل سنگھ کی فیملی کو اپنی خوشیوں میں شریک کرسکے اور یہ روایت میرے پر دادا کے زمانے کی ہے۔ ساتھ جب کبھی بڑے گوشت کےلئے جانور بطور صدقہ یا خیرات زبح کرتے ہیں تو میری والدہ سب سے پہلے ان کےلئے کوئی مرغی پکا دیتی ہے جب تک ان کے گھر مرغی نہیں جاتی ہم اس وقت تک بڑے گوشت کو ہاتھ تک نہیں لگاتے۔۔۔۔

پشتون معاشرہ جتنا اج سے ستر سال پہلے بٹوارے کے وقت متمدن تھا اتنا ہی اج متمدن ہے اور مذہبی ہم آہنگی کی اس طرح کی مثالیں پورے پاکستان میں کہیں نہیں ملتیں۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).