اباسین کے کنارے ستارے ڈوبا نہیں کرتے


’’ہم سب‘‘ میں فرنود عالم صاحب کا کالم ’’اباسین کے کنارے ڈوبتا ستارہ‘‘ پڑھا۔ بہت عمدہ اور موثر تحریر ہے۔ اس میں نام نہاد تعلیم یافتہ اور مہذب انسانوں کا المیہ بڑی خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ پرانے وقتوں میں لوگوں میں کوئی تعصب نہیں ہوتا تھا۔ وہ بلا رنگ ، نسل و مذہب سب کو انسان سمجھتے تھے اور انھیں انسان ہی کی حیثیت سے عزت اور احترام دیتے تھے۔ فرنود صاحب کے کالم میں چوں کہ شانگلہ کا تذکرہ ہے اور انھوں نے وہاں کے مکینوں کے سکھ برادری سے بدلتے رویے کی بات کی ہے تو میں اس کالم کے ذریعے زیر بحث موضوع پر کچھ حقائق پیش کرنا چاہتا ہوں۔

ضلع شانگلہ ریاستِ سوات کا حصہ تھا اور 28 جولائی 1969ء میں ریاست کا پاکستان میں ایک ضلع کی حیثیت سے ادغام کے بعد یہ ضلع سوات میں ایک سب ڈویژن کا درجہ رکھتا تھا۔ جون 1995ء میں اسے پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں الگ ضلع کی حیثیت دی گئی لیکن انتظامی طور پر علاحدگی کے باجود شانگلہ کے لوگ اب بھی خود کو سوات کا حصہ سمجھتے ہیں اور سوات کے لوگ بھی انھیں اپنے آپ سے الگ نہیں گردانتے۔

چکیسر ضلع شانگلہ کی ایک خوب صورت وادی ہے۔ وہاں کے لوگ بہت مہمان نواز اور وضعدار ہیں۔ چکیسر میں صدیوں سے سکھ برادری رہتی چلی آ رہی ہے۔ اس کے علاوہ مینگورہ، بری کوٹ اور ضلع بونیر میں بھی سکھوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ ضلع بونیر بھی ریاستِ سوات کا حصہ تھا اور ریاست کے خاتمہ کے بعد بونیر بھی ضلع سوات میں ایک سب ڈویژن کی حیثیت سے شامل تھا۔ تحریک انصاف کے صوبائی اسمبلی کے رکن سورن سنگھ کا تعلق بھی ضلع بونیر سے تھا جنھیں بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا۔ لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ سکھ اور ہندو برادری سوات میں صدیوں اور شاید ہزاروں سال سے رہائش پزیر چلی آ رہی ہے۔ سوات کی قدیم تاریخ میں ہندو شاہی کی وسیع و عریض سلطنت کا تذکرہ موجود ہے اور ظاہر ہے سکھ مذہب بذاتِ خود کوئی اتنا قدیم مذہب نہیں ہے۔ بیشتر ہندو خاندانوں نے اگرچہ بعد ازاں سوات سے ہندوستان ہجرت کرلی تھی لیکن سکھوں کی ایک بڑی تعداد اب بھی سوات، بونیر اور شانگلہ میں امن اور آشتی سے رہ رہی ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن کے ان علاقوں میں سکھ اور ہندو برادری کو کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ وہ یہاں اجنبی ہیں یا انھیں کسی مسلمان سے کوئی خطرہ ہے۔ کالج میں ایف اے اور بی اے میں میرے کئی سکھ ہم جماعت تھے جن کے ساتھ میرے بہت اچھے تعلقات تھے۔ رادھی شام کے نام سے ہمارے ایک پروفیسر ہمیں پڑھاتے تھے لیکن کبھی ہم نے انھیں یہ احساس نہیں دیا تھا کہ وہ مسلمان نہیں ہیں۔ مجھے یاد ہے اسکول کے زمانے میں مسلمان طالب علموں کی نسبت سکھ اور ہندو طالب علم اسلامیات میں ہم سے زیادہ نمبر حاصل کرتے تھے۔

مینگورہ میں سکھ خاندان کے بچے بڑے ذہین ہوتے تھے۔ ان میں زیادہ تر ڈاکٹر اور انجنیئر بن جاتے تھے۔ اس وقت بھی مینگورہ میں چلڈرن سپیشلسٹ ڈاکٹروں میں ڈاکٹر گیان پرکاش بڑے مشہور ہیں۔ ان کے کلینک (جس میں بچوں کا ایک چھوٹا سا اسپتال بھی قائم ہے)، میں مریضوں کا بے پناہ ہجوم ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی فیس دوسرے ڈاکٹروں کی نسبت بہت کم ہے اور وہ مریضوں کا معائنہ بھی خصوصی توجہ سے کرتے ہیں۔ دوسری بار بچوں کا معائنہ کرنے پر فیس بھی نہیں لیتے۔ اس کے علاوہ قدرت نے ان کے ہاتھوں میں شِفا بھی رکھی ہے، اس لیے دور دراز سے مریض ان کے کلینک پہ آتے ہیں۔ ڈاکٹر گیان پرکاش نے مذاہب کا گہرا مطالعہ کر رکھا ہے اور وہ مذاہبِ عالم کے بارے میں ایک مخصوص سوچ اور زاویہ نظر رکھتے ہیں۔ میرے ایک قریبی دوست کی ان کے کلینک سے متصل کلینیکل لیبارٹری ہے۔ وہ مجھے بتاتے ہیں کہ سوات میں طالبانائزیشن کے دوران کسی نے ان سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ کو کوئی خطرہ تو نہیں ہے اور کہیں آپ ہندوستان شفٹ تو نہیں ہو رہے ہیں؟ انھوں نے جواب میں کہا کہ ’’ہم تو سوات کے اصل باشندے ہیں۔ ہمارے اباو اجداد یہاں صدیوں سے ہی نہیں بلکہ ہزاروں سال سے رہتے چلے آئے ہیں۔ ہم کیوں یہاں سے جائیں گے۔‘‘ ان کا مزید کہنا یہ تھا کہ ’’یوسف زئی تو سوات میں پانچ سو سال سے آباد ہیں، وہ اس سرزمین کے اصل باشندے بھی نہیں ہیں۔ ہم ہی یہاں کے اصل باسی ہیں۔‘‘

سوات میں طالبانائزیشن کے دوران سوات اور اہلِ سوات ایک بڑی تباہی سے دوچار ہوئے تھے۔ ہزاروں بے گناہ انسان اپنی قیمتی جانوں سے محروم ہوئے۔ سیکڑوں نجی اور سرکاری املاک کو بارود سے اڑایا گیا۔ طالبان نے پولیس اور سرکاری ملازمین کو ذبح کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ سواتی طالبان نے سکھ اور عیسائی برادری کو ذرا بھر نقصان نہیں پہنچایا ہے۔ سوات میں عیسائی برادری کی بھی ایک بڑی تعداد رہائش پزیر ہے۔ ملا فضل اللہ کے ایف ایم ریڈیو پر سول سوسائٹی کے متحرک لوگوں کو دھمکیاں دی جاتی تھیں، ان کی ٹارگٹ کلنگ (جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں کوئی خفیہ ہاتھ ملوث ہے) کی جاتی تھی لیکن سکھ اور عیسائی برادری کو کبھی دھمکی تک نہیں دی گئی تھی۔ ان برادریوں نے سوات شورش کے دوران کبھی خوف محسوس نہیں کیا تھا، اس لیے کسی نے بھی طالبان کی وجہ سے نقل مکانی نہیں کی تھی۔

یہاں ریاستی دور کا ایک واقعہ تحریر کرنے کے بعد اپنا کالم سمیٹوں گا۔ 14 اگست 1947ء کو جب پاکستان قائم ہوا تو پاکستان سے ہندو اور سکھ بڑی تعداد میں ہندوستان ہجرت کرنے لگے۔ ان کی دیکھا دیکھی ریاستِ سوات کے ہندوؤں اور سکھوں نے بھی رختِ سفر باندھنا شروع کردیا۔ ریاست کے حکمران میاں گل عبدالودود (المعروف بادشاہ صاحب) کو جب علم ہوا تو وہ خود ان کے پاس چلے گئے اور ان سے پوچھا کہ ’’کیا کسی نے آپ لوگوں کو کچھ کہا ہے جو آپ یہاں سے کوچ کر رہے ہیں؟‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں لیکن ہم اس خوف کی وجہ سے ہندوستان جا رہے ہیں کہ دونوں جانب سے بڑی خوں ریزی ہو رہی ہے، ایسا نہ ہو کہ یہاں کے لوگ ہندوستان میں مسلمانوں کے قتل عام پر مشتعل ہوجائیں اور ہمیں کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کریں۔‘‘ بادشاہ صاحب نے انھیں کہا کہ ’’آپ اس مٹی کے باشندے ہیں، ہم سے کوئی الگ لوگ نہیں ہیں، آپ کہیں نہیں جائیں گے۔ کوئی آپ کا بال تک بیکا نہیں کرسکتا۔ میں آپ سب کو سلامتی کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ اس کے بعد سکھوں اور ہندوؤں نے ہندوستان جانے کا فیصلہ واپس لے لیا۔ تو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ سوات، بونیر یا شانگلہ میں کبھی کسی نے سکھوں کو اجنبی نظر سے نہیں دیکھا ہے۔ ہمیشہ انھیں اس مٹی کا ناگزیر حصہ سمجھا ہے اور کبھی انھیں یہ احساس نہیں ہونے دیا ہے کہ وہ کوئی غیر لوگ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).