حقانی نیٹ ورک بمقابلہ تحریک طالبان پاکستان


 امریکہ میں پاکستان کے سفیر اعزاز چوہدری نے واضح کیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک نہ تو پاکستان کا دوست ہے اور نہ ہی ہماری پراکسی۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس گروہ کی طرف سے کسی بھی قسم کے تشدد کے خلاف ہیں۔ اس طرح پاکستان کی طرف سے حقانی نیٹ ورک کے خلاف واضح اور دوٹوک موقف اختیار کیا گیا ہے۔ تاہم اس کی تصدیق پاکستانی افواج کے عملی اقدامات سے ہوگی۔ اس ماہ کے شروع میں امریکہ کی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے کانگریس کے ایک پینل کو بتایا تھا کہ پاک فوج نے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی ہے۔ پاک فوج نے ایسے اقدامات کئے ہیں جن سے ہمیں فائدہ ہوا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے پاک فوج کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔ حقانی نیٹ ورک کی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجودگی طویل عرصہ سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تنازعہ کا سبب بنی رہی ہے۔ اسی طرح افغانستان بھی پاکستان پر یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ ان عناصر کی سرپرستی کرتا ہے جو افغان سرزمین پر دہشت گرد حملوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ پاکستان نے اگرچہ ہمیشہ امریکی اور افغان الزامات کی تردید کی ہے لیکن ہر تھوڑے وقفے کے بعد اسی قسم کے الزامات دوبارہ سامنے آنے لگتے ہیں۔ خاص طور سے افغانستان میں کوئی بڑا سانحہ رونما ہونے پر پاکستان کی طرف انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ یہ صورت حال اس علاقے میں مسلسل کشیدگی اور بد اعتمادی کی فضا پیدا کررہی ہے۔

اب ایک اعلیٰ پاکستانی سفارت کار کی طرف سے حقانی نیٹ ورک سے لاتعلقی کا اعلان ایک اہم پیش رفت ہے۔ خاص طور سے جب امریکی فوجی ذرائع بھی اس بیان کی تصدیق کر رہے ہیں تو اس کے قابل اعتبار ہونے کا یقین کیا جا سکتا ہے۔ تاہم ماضی میں پاکستان دہشت گردی کے خاتمہ اور افغان عسکری گروہوں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ملے جلے اشارے دیتا رہا ہے۔ یعنی بعض مواقع پر بعض عناصر کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان اب مسلح گروہوں کی سرپرستی سے لاتعلق ہو چکا ہے لیکن پھر اس قسم کی خبریں سامنے آتی ہیں کہ یہ روابط بھی بحال ہیں اور پاکستان کسی نہ کسی طور سے افغانستان میں سرگرم گروہوں کی معاونت بھی کرتا ہے۔ اس قسم کی غیر واضح حکمت عملی کی وجہ سے ہی پاکستان کے ارادوں کے بارے میں شبہات اور بے یقینی پیدا ہوتی رہی ہے۔ اسی غیر واضح صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے واشنگٹن میں پاکستان دشمن عناصر متحرک ہوتے ہیں اور امریکی سیاستدانوں پر پاکستان کی امداد بند کرنے اور اس کے خلاف کارروائی کرنے کے مطالبے سامنے آنے لگتے ہیں۔ اس امر میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ بھارت کی لابی عام طور سے اس قسم کی تحریکوں کو ہوا دیتی ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ امریکی کانگریس میں پاکستان کی شہرت کو مزید داغدار کیا جائے۔ دوسری طرف امریکہ بھی پاکستان کی طرف سے کئے جانے والے مثبت اور اچھے اقدامات کو پس پشت ڈالتے ہوئے افغانستان میں صورتحال کی خرابی اور سیاسی ناکامیوں کی ساری ذمہ داری پاکستان پر عائد کرنا سہل راستہ سمجھتا رہا ہے۔

اسی قسم کی کوششوں کے نتیجے میں امریکی کانگریس میں ہر تھوڑے عرصے بعد پاکستان کے خلاف کوئی قرارداد یا قانون سازی کی تجویز سامنے لائی جاتی ہے جن میں پاکستان کو دہشت گردی کا سرپرست قرار دلوانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ امریکی کانگریس میں ایسی کوئی تجویز منظور ہونے سے پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے اور پاکستان کو بھارتی حکمرانوں کے خواب کے مطابق سفارتی سطح پر تنہا کروایا جا سکتا ہے۔ اس لئے واشنگٹن سے موصول ہونے والی ایسی خبریں تشویش سے سنی جاتی ہیں اور پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے سوالات سامنے آنے لگتے ہیں۔ دونوں ملک روایتی طور پر ایک دوسرے کے حلیف رہے ہیں اور پاکستان نے متعدد عالمی سرگرمیوں میں امریکہ کا ساتھ دیا ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران افغانستان میں سوویت افواج کے خلاف جہاد منظم کرنے کے علاوہ 9/11 کے بعد افغانستان میں امریکی کارروائی میں پاکستان کی حمایت اور اعانت امریکہ کےلئے بنیادی اہمیت کی حامل رہی ہے۔ اسی لئے پاکستان کو نیٹو ممالک کے بعد امریکہ کا قریب ترین حلیف قرار دیا جاتا ہے۔ ان گہرے تعلقات اور دونوں ملکوں کےلئے ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت کے باوجود امریکہ اور پاکستان میں بدگمانیاں اور شکایتیں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ اس لئے جب امریکہ کی طرف سے افغانستان میں متحرک گروہوں کے خلاف کارروائی کا تقاضہ کیا جاتا ہے تو پاکستان میں اسے امریکہ کا ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ قرار دیتے ہوئے سیاسی فضا ہموار کرنے والی قوتیں متحرک ہو جاتی ہیں۔ اور جب طالبان اور دیگر مسلح گروہ افغانستان میں مستعد ہوتے ہیں تو امریکہ اس کا الزام پاکستان پر ڈال کر خود اپنی غلطیوں کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان کو بہرحال زک پہنچانے کی شدید خواہش میں مبتلا نریندر مودی کی حکومت پاکستان کے خلاف بیان بازی اور پروپیگنڈا تیز کر دیتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کابل کے بھارت نواز سیاستدان پاکستان کے خلاف الزامات کا نیا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔

امریکہ نے پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کبھی غیر جانبدارانہ کردار ادا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ گزشتہ ایک دہائی سے امریکہ کی خواہش رہی ہے کہ افغانستان میں کوئی قابل عمل سیاسی حل تلاش کرکے وہ وہاں سے نکلنے کا راستہ ہموار کرسکے۔ اس کام میں امریکہ کو پاکستان کی اہمیت کا اندازہ ہے اور وہ اس کی ضرورت کو نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے پاکستان کے خلاف الزامات عائد کرنے کے باوجود امریکہ ہمیشہ تعلقات بحال رکھنے اور تعاون کو فروغ دینے کےلئے کام کرتا ہے۔ البتہ پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات کی بنیاد اب افغانستان میں امن اور پائیدار سیاسی حل کی تلاش تک محدود ہو چکی ہے۔ عالمی سیاست اور علاقے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے سبب بھارت اب امریکی توجہ کا محور و مطلوب ہے۔ اس کی ایک وجہ بھارت کی منڈیاں ہیں۔ اس کے علاوہ بحر ہند میں بھارتی بندرگاہوں کی وجہ سے امریکہ چین کے ساتھ محاذ آرائی میں بھارت کو اہم فریق کے طور پر تسلیم کرنے لگا ہے۔ اس دوران پاکستان اور چین کے تعلقات میں وسعت پیدا ہوئی ہے اور پاک چین راہداری منصوبہ کی وجہ سے اب چین کے علاوہ روس ، ایران اور وسطی ایشیا کے متعدد ممالک پاکستان کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔

بدنصیبی کی بات ہے کہ بھارت نے اس علاقے میں رونما ہونے والی ان تبدیلیوں اور ان سے پیدا ہونے والے اقتصادی مواقع سے استفادہ کرنے کی بجائے، شروع سے سی پیک کی مخالفت کرنے اور پاکستان کو کمزور و پریشان کرنے کی پالیسی پر عمل کیا ہے۔ اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ بھارت افغان حکومتوں اور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ اپنے تعلقات کو پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کےلئے استعمال کرتا رہا ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بھارتی اداروں نے افغانستان کے راستے پاکستان میں تخریب کاری اور تشدد کی کارروائیوں کو منظم کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ پاک فوج کے آپریشن کے بعد تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ عناصر افغانستان کی طرف کوچ کرگئے تھے۔ وہاں پر وہ براہ راست بھارتی ایجنسیوں کی دسترس میں ہیں اور افغان ایجنسی بھی اس حوالے سے بھارت کا پورا ساتھ دے رہی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں پاکستان میں ہونے والے بیشتر دہشت گرد حملے افغانستان میں موجود عناصر کی سرپرستی میں ہوئے ہیں۔ ان عناصر کو بھارت کی بالواسطہ حمایت حاصل رہتی ہے۔ اسی طرح بھارتی ایجنسیوں نے بلوچستان اور کراچی میں حالات خراب کرنے کےلئے بھی اپنے ایجنٹوں اور سہولت کاروں کا نیٹ ورک تیار کیا ہے۔ اس طرح ایک طرف بھارت اور دوسری طرف افغانستان پاکستان کےلئے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بنتے رہے ہیں۔ پاکستان نے اس حوالے سے افغانستان اور امریکہ کی توجہ مبذول کروانے اور تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ افغان حکومت تو خیر بھارتی احسانات کے بدلے بھارت کی کٹھ پتلی کا رول ادا کر رہی ہے۔ لیکن امریکہ نے بھی بھارت کے ساتھ وابستہ مفادات کی وجہ سے کبھی کھل کر بھارت کو متنبہ کرنے یا پاکستان پر دباؤ کم کروانے کےلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔

ان حالات میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان بداعتمادی کا رشتہ یک طرفہ نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ دو طرفہ ہے۔ پاکستان اندرون ملک دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لئے سرگرم ہے لیکن اپنے ملک میں حالات پر قابو پانے کے باوجود جب ہمسایہ ملک صورتحال کو خراب کرنے میں کردار ادا کرتا ہے تو مشکل پیدا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فروری کے دوران پاکستان میں ہونے والے متعدد دہشت گرد حملوں کے بعد پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحد کو ایک ماہ سے زائد عرصہ تک بند رکھا تھا۔ اگرچہ پاکستان کو یہ خبر تھی کہ یہ اقدام مسئلہ کا حل نہیں ہے لیکن افغانستان کی طرف سے بے قاعدگیوں کا جواب دینے کےلئے پاکستانی حکام نے یہ انتہائی قدم اٹھانا ضروری سمجھا۔ بالآخر وزیراعظم نواز شریف نے افغانستان کے ساتھ خیر سگالی کے اظہار کےلئے سرحدیں کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ افغانستان کو یہ باور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ اپنے ملک میں قیام امن اور حالات بہتر بنانے کےلئے پاکستان کا تعاون چاہتا ہے تو اسے بھارت کو اپنی سرزمین پر پاکستان دشمن سرگرمیوں کی اجازت دینے سے گریز کرنا ہوگا۔ اسی طرح امریکہ کو بھی یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان کی طرف سے حقانی نیٹ ورک یا دیگر گروہوں کے خلاف پائیدار تعاون اسی صورت میں حاصل کیا جا سکتا ہے جب اس کے بدلے میں پاکستان کو یہ یقین دلایا جا سکے کہ افغان علاقوں میں پاکستان دشمن عناصر کا قلع قمع کیا جائے گا۔

امریکہ میں پاکستان کے سفیر اعزاز چوہدری نے اس حوالے سے بجا طور پر یہ کہا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرکے دہشت گرد عناصر کے ارادوں کو ناکام بنانا چاہئے۔ جب تک ان اہم ہمسایہ ملکوں کی حکومتیں تخریبی عناصر کی کارروائیوں کو بہانہ بنا کر باہمی تعلقات خراب کرتی رہیں گی، اس خطے میں امن کی امید کرنا مشکل رہے گا۔ امریکہ ، بھارت کے ساتھ دوستی کے نئے دور میں جو مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے، ان کی تکمیل کےلئے بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کا ماحول بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ بصورت دیگر ماضی کی طرح الزام تراشی یا دباؤ کے ہتھکنڈے بدستور ناکافی رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali