صحافت کی دبنگ عورتیں – مکمل کالم


مہمل سرفراز ایک دبنگ خاتون صحافی ہیں، اکثر سر پر صافہ باندھ کر ٹی وی پروگراموں میں شرکت کرتی ہیں، یہ صافہ اب ایک طرح سے ان کا ’انتخابی نشان‘ بن چکا ہے۔ اگلے روز انہوں نے اپنے ٹویٹر کھاتے سے نمونے کے چند تبصروں کا عکس سکرین شاٹ شیئر کیا جو ان کے بارے میں کچھ لوگوں نے ٹویٹ کیے تھے۔ یہ تبصرے نہیں تھے ننگی گالیاں تھیں، بلکہ اس سے بھی آگے کی کوئی چیز۔ جو زبان ان تبصروں میں استعمال کی گئی تھی اسے بیان کرنا کسی شریف آدمی تو کیا کسی بدمعاش کے لیے بھی ممکن نہیں کہ بدمعاشوں کی بھی کچھ نہ کچھ اخلاقیات ہوتی ہیں۔

ایسا ہی کچھ عاصمہ شیرازی کے ساتھ بھی ہو چکا ہے، یہ نڈر عورت ان گنتی کے چند لوگوں میں شامل ہے جو طالبان کے عروج کے زمانے میں ڈنکے کی چوٹ پر حق سچ کی بات کیا کرتی تھی، اس ایوارڈ یافتہ خاتون صحافی نے بھی گزشتہ کچھ برسوں میں سوشل میڈیا پرنہ صرف غلیظ ترین مہم کا سامنا کیا بلکہ عاصمہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملیں۔ عاصمہ شیرازی نے ان حالات میں کیسے کام کیا، یہ تفصیل انہیں ایک لیکچر کی صورت میں ویڈیو بنا کر یو ٹیوب پر چڑھا دینی چاہیے تاکہ صحافی بننے کے خواہش مند لڑکے لڑکیاں یہ جان سکیں کہ سچ بولنے کی کیا قیمت چکانی پڑتی ہے۔

ٹرولنگ جدید زمانے کی ایک اصطلاح ہے، تاحال اس کا اردو متبادل تلاش نہیں کیا جا سکا، انگریزی لغت میں اس کا مطلب ہے سوشل میڈیا پر جانتے بوجھتے ہوئے اشتعال انگیز، غیر متعلقہ اور توہین آمیز مواد چڑھانا جس سے کسی کی ذلت، دل آزاری اور رسوائی مقصود ہو اور اسے ہراساں کیا جا سکے۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ٹرولنگ کی جاتی ہے اور اپنے مخالف نقطہ نظر والے صحافیوں اور سماجی کارکنوں اور نامور لوگوں کو بکاؤ مال، لفافہ، غدار، بد قماش، غیر ملکی ایجنٹ اور اس نوع کے دیگر خطابات سے نوازا جاتا ہے اور اس ضمن میں مرد و زن کی تخصیص نہیں کی جاتی۔ کھرے اور ایماندار مرد صحافی بھی ٹرولنگ کا شکار ہو رہے ہیں اور بلاشبہ ان جی دار صحافیوں کا حوصلہ قابل ستائش ہے۔ مگر خواتین صحافیوں کی ٹرولنگ ایک بالکل دوسری سطح کی چیز ہے، اس کا کوئی مقابلہ اس گالم گلوچ اور الزام تراشی سے نہیں کیا جا سکتا جو مردوں کے ساتھ ہوتی ہے۔

یہ درست ہے کہ بعض اوقات مردوں کو بھی گالی دیتے وقت ان کی ماؤں بہنوں کو ہی رگیدا جاتا ہے جو کہ ظاہر ہے ناقابل برداشت بات ہے مگر ایک لمحے کو ذرا اس عورت کا تصور کریں جس نے بہت جوکھم سے مردوں کے اس معاشرے میں اپنا مقام بنایا ہے اور اب وہ کسی ٹی وی پروگرام میں اینکر پرسن ہے، کسی ویب سائٹ پر کالم لکھتی ہے یا پھر انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہے جو فی زمانہ کسی جہاد سے کم نہیں اور بڑے بڑے طرم خان مرد بھی اس کی ہمت نہیں رکھتے۔ ایسی دبنگ خاتون کا حوصلہ توڑنے کے لیے اسے سوشل میڈیا پر غلیظ ترین ٹرولنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے، ببانگ دہل آن لائن قتل اور عصمت دری کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جو کسی فورم پر پڑھ کر سنائے نہیں جا سکتے۔

پارلیمان کی انسانی حقوق کی کمیٹی میں جب یہ خواتین پیش ہوئیں تو کوشش کی گئی کہ ان خواتین کے خلاف جو ٹویٹس کی جاتی ہیں وہ پڑھ کر سنائی جائیں مگر کسی عورت تو کیا مرد کی بھی ہمت نہیں ہوئی اور وہاں موجود کچھ لوگوں کی آنکھوں میں تو آنسو آ گئے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ آج کل کے اس دور میں حق سچ کا علم مردوں سے زیادہ ان خواتین میں بلند کر رکھا ہے، ہر معاملے پر یہ بغیر کسی لگی لپٹی کے اپنی دو ٹوک رائے دیتی ہیں۔ آپ ان سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر ان کی حریت کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔

اس ضمن میں جو چند نام اس وقت میرے ذہن میں آرہے ہیں ان میں ریما عمر، بے نظیر شاہ، ندا کرمانی، آئمہ کھوسہ، ایمان مزاری، غریدہ فاروقی، عائشہ بخش، ثنا بچا، نذرانہ یوسفزئی وغیرہ شامل ہیں ( ممکن ہے کوئی نام سہواً رہ گیا ہو اس کی معذرت ) ، ان میں سے زیادہ تر سے میرا کوئی تعارف ہے اور نہ ملاقات، میری رائے ان کے نظریات کی بنیاد پر قائم ہوئی ہے، کچھ سے مجھے اختلاف بھی ہے مگر وہ بات اہم نہیں، اہم ان خواتین کا اپنے نظریات کے ساتھ کھڑے ہونا ہے۔

یہ خواتین بیچاری روتی پیٹتی انسانی حقوق کی کمیٹی سے واپس آئیں تو انہیں اس قسم کے مذمتی بیانات سننے کو ملے کہ گالیاں دینا بری بات ہے، کسی کو جنسی طور ہراساں نہیں کیا جانا چاہیے، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں لیکن۔ ۔ ۔ اس لیکن کے بعد بات وہی کہ اگر آپ لوگ جھوٹ بولیں گی اور جعلی خبریں پھیلائیں گی تو پھر لوگ تو گالیاں دیں گے۔ انگریزی میں اسے
Blaming the victim
کہتے ہیں یعنی مظلوم کو دوش دینا، مثلاً نیکر اور ٹی شرٹ میں پھرنے والی لڑکی کا ریپ ہوا، برا ہوا مگر اسے نیکر نہیں پہننی چاہیے تھی۔ بندہ پوچھے یہاں ریپ تو چھ چھ سال کی بچیوں کا بھی ہوتا ہے تو کیا ان کے فراک جذبات کو برانگیختہ کرتے ہیں؟ یہ ایک بیمار ذہنیت ہے اور اس میں پڑھے لکھے اور ان پڑھ کی کوئی تخصیص نہیں۔ ٹرولنگ میں غلیظ زبان استعمال کرنے والوں کا اگر پروفائل دیکھا جائے تو ان میں سے کوئی بینکر نکلتا ہے تو کوئی برطانیہ میں آئی ٹی کا ماہر، کسی نے ڈی پی میں کلمہ طیبہ لکھا ہوتا ہے تو کوئی سبز پرچم لپیٹ کر بیٹھا ہوتا ہے۔ تاہم ایک بات البتہ ان سب میں مشترک ہوتی ہے۔ ۔ ۔ یہ سب سنی لیون کے پرستار ضرور نکلتے ہیں۔

یہ مسئلہ بے حد گمبھیر ہے اور اس کا حل آسان نہیں کیونکہ ٹویٹر، یو ٹیوب، فیس بک، گوگل وغیرہ کی اظہار رائے کی پالیسی بہت اس ضمن میں خاصی مبہم اور غیر واضح ہے، اچھی خاصی گالم گلوچ پر بھی یہ کمپنیاں کھاتہ بند نہیں کرتیں تا وقتیکہ آپ انہیں یہ ثبوت نہ فراہم کریں کہ آپ کی جان کر خطرہ ہے۔ اسی طرح جھوٹی الزام تراشیوں کی بھی کھلی چھٹی ہے، کسی سوشل میڈیا کمپنی نے اس ضمن میں کوئی سد باب نہیں کر رکھا۔ مجھے تو یہ بھی شک ہے کہ ان کمپنیوں کو اردو میں لکھی گئی یہ گندی گالیاں سمجھ ہی نہیں آتی ہوں گی۔

اس لیے حل صرف یہ ہے کہ ان کمپنیوں کو ایک مشترکہ قانونی نوٹس بھیجا جائے جس اس معاملے کی سنگینی کو اجاگر کر کے ان کمپنیوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ شاید کسی کو یہ بات دیوانے کا خواب لگے مگر جن ممالک میں یہ کمپنیاں کام کرتی ہیں وہاں اس قسم کے قوانین بے حد سخت ہیں اور عین ممکن ہے کہ یہ کمپنیاں اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو یہ بات کسی انقلاب سے کم نہیں ہوگی۔

ہم مرد باتیں تو بہت بڑی بڑی کرتے ہیں اور اپنی مردانگی کے دعوے بھی کرتے ہیں مگر ہم میں سے شاید ہی کسی میں اتنی ہمت ہو جتنی ان عورتوں نے دکھائی ہے۔ جو ذہنی اذیت ان عورتوں کو دی گئی ہے وہ اچھے بھلے بندے کا دماغ مفلوج کرنے اور اسے ڈپریشن میں دھکیلنے کے لیے کافی ہے مگر یہ عورتیں نہ جانے کس مٹی کی بنی ہیں، آج بھی ان کے حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی اور وہ پہلے کی طرح اپنے نظریے پر قائم ہیں۔ اصل میں تو یہ عورتیں دبنگ ہیں، ہم تو بس یونہی ہیں ’شامل واجا‘ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada