گڈ لبرل اور بیڈ لبرل


ایک آدمی فوج میں سپاہی بھرتی ہو گیا، چاند ماری کرنا تھی، سارے جوان اسلحہ لے کر نشانے لگا رہے تھے وہ آرام سے لیٹا ہوا تھا۔ افسر اس کے پاس گیا، پوچھا بھئی کیا مسئلہ ہے، تمہیں نہیں معلوم تم یہاں کیا کرنے آئے ہو؟ موندی ہوئی آنکھوں سے اوپر دیکھا، کہنے لگا، صیب، دھپ لگسی تے آپے ٹھس کرسی (صیب، دھوپ لگے گی تو گرم ہو کر خود ہی چلے گی)۔ یہ قصہ جن لوگوں کے بارے میں پھیلایا گیا اور جنہیں کاہل یا صرف ہاتو مشہور کیا گیا وہ گزشتہ پچاس ساٹھ برس کی تاریخ میں ہر قدم پر اپنی حریت پسندی ثابت کر چکے ہیں۔ آج یہ لطیفہ کسی کے منہ پر نہیں ہے لوگ انہیں فریڈم فائٹر کا لقب دیتے ہیں۔

ہمیں ہمارے ٹھپے مار جاتے ہیں۔ ایک شخص پٹھان ہے، اب ہتھیار اس کا زیور ہو گیا۔ اس کی بے جا بہادری، اس کا لڑنا بھڑنا، روایات پر جان دینا، ہر وہ فضول کام جس کا ٹھپہ پٹھانوں پر لگا دیا گیا ہے سمجھا جاتا ہے کہ وہ اس نے کرنے ہی کرنے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر وہ اس سب سے بھاگنا بھی چاہے گا تو اسے بزدلی، نامردی، دال خوری اور چوڑیاں پہننے کے طعنے دئیے جائیں گے۔ ایک سے ایک سلجھے ہوئے لوگ پٹھانوں میں نظر آئیں گے، دیدہ زیب کپڑے پہنے، بہترین ادبی و شاعرانہ ذوق رکھنے والے، کامیاب کاروباری، شفیق استاد، بہترین ڈاکٹر، بااخلاق عالم لیکن اگر ٹھپہ مارکہ ذہنیت والے دوست ان سے ملے نہیں تو ان کا ذہن کسی بھی پٹھان بھائی کی وہی لڑاکا اور جنگجو قسم کی سٹیریو ٹائپ تصویر بنائے گا۔

پنجابیوں میں سکھوں کے بے شمار لطیفے ہم نے مشہور کیے، سوئی پر سوئی چڑھنا اور ان کا دماغ الٹ جانا، ہر وقت بے وقوف بنے رہنا، بے تحاشا الکوحلک ہونا اور نہ جانے کیا کیا کچھ، اب صورت حال ایسی ہے کہ غلطی سے کوئی سکھ سجن کہیں نظر آ جائیں تو لوگ انہیں ایسے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں جیسے ابھی وہ یہاں کھڑے ہو جگت بازی شروع کر دیں گے حالانکہ سکھ بھی عین ویسے ہی ذی روح ہیں جیسے ہم سب ہیں، ان کے بھی موڈ ہوتے ہیں، مزاج اتار چڑھاو¿ کا شکار ہوتا ہے۔ اس سب کے باوجود سنجیدہ سکھ یا اچھا اور کامیاب بزنس مین سکھ کسی کو ہضم نہیں ہو گا۔ سکھوں کی خوب صورت ڈریسنگ، اس سے میچ کرتی ان کی پگڑیاں اور ٹائیاں، ان کا خوش مزاج ہونا، اچھا کاروباری فہم رکھنا، یہ سب دنیا میں مشہور ہے، لیکن ہم ابھی تک سکھوں کے لطیفوں میں اٹکے ہوئے ہیں۔ ایک اردو والے کا دماغ ایک نارمل سکھ کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا اور یہیں سے اس ٹھپے بازی کا عروج شروع ہوتا ہے۔

لوگوں پر مہر لگانا اور انہیں کسی بھی خانے میں پھینک دینا وہ رویہ ہے جو آخر کار انسانیت کی شکست کا سبب بنتا ہے۔ جیسے ہر بنگالی بھوکا نہیں ہوتا، ہر پنجابی ڈھگا نہیں ہوتا، ہر سکھ بے وقوف نہیں ہوتا، ہر سندھی پیر فقیر کو ماننے والا نہیں ہوتا، ہر پٹھان جنگجو نہیں ہوتا، ہر بلوچ الگ نہیں ہونا چاہتا، ویسے ہی ہر انسان انتہا پسند دائیں یا شدت پسند بائیں بازو سے نہیں ہو سکتا۔ چند افراد کو دیکھ کر ہم پوری قوم پر ٹھپا لگا دیتے ہیں۔

ایک خود ساختہ تعریف مقرر ہو گئی کہ جو بایاں بازو ہے وہ ملحد ہے اور جو دایاں بازو ہے وہ مذہب پسند ہے اور اس کے بعد الحاد الحاد کا کھیل شروع ہوا یا طالبان طالبان کے آوازے کسے گئے۔ ایک مولوی ہوا، ایک دہریہ ہوا، ایک نیچری ہوا، ایک لبرل ہوا، ایک اسلامسٹ ہوا، ایک سیکیولر ہوا اور سب کو پانچ چھ موٹے موٹے خانوں میں بانٹ کر عقل ایک سائیڈ پر ہو گئی۔حالانکہ اگر غور کیا جائے تو بائیں اور دائیں بازو میں بہت سی قدریں مشترک ہیں، مل کر بھی رہا جا سکتا ہے۔

ہر امن پسند مذہب یہی کہتا ہے کہ اپنے دین کو مت چھوڑو اور دوسروں سے چھیڑ چھاڑ مت کرو، یہی لبرل بھی چاہتے ہیں۔ ایک لبرل بھی عین اتنا ہی مذہب پسند ہو سکتا ہے جتنا کوئی عام دائیں بازو والا ہے۔ لبرل ازم آزادی اظہار اور مساوات پر زور دیتا ہے، مذہب بھی یہی سکھاتا ہے۔ بائیں بازو والے انسان دوستی کا دعوی کرتے ہیں، مذہبی لوگ بھی یہی سکھاتے ہیں۔

وہ حقوق العباد کی بات کرتے ہیں کہ اس سے زیادہ پوچھ تاچھ روز قیامت کسی بات پر نہیں۔ یہاں تک کہ جس کا حق مارا گیا ہو گا یا جس انسان سے زیادتی کی گئی ہو گی اگر اس سے معافی ملے گی تو خدا بخشے گا ورنہ گناہ گار رہیں گے۔ یہی سب چیزوں کی تلقین انسانیت پسند کے یہاں بھی کی جاتی ہے، بلکہ ہر دو انسان اپنا مواخذہ خود اپنی اخلاقیات اور ضمیر کے تحت بھی کر سکتے ہیں۔

دایاں بازو ریاست کو کسی بھی ایک مذہب کے تابع رکھنے پر زور دیتا ہے بائیں والے کہتے ہیں کہ ریاست کا مخصوص مذہب کوئی نہیں ہوتا لوگوں کا ہوتا ہے، مملکت تمام مذاہب کے ماننے والوں کا برابر خیال رکھتی ہے، بس یہ فرق ہے۔ مذہب بھی ویسے تو اپنی جگہ عالمگیریت کا دعوی کرتا ہے، کسی ایک خطے تک محدود ہونے کی بات نہیں کرتا۔

سیکولر لوگ مساوات کا پرچار کرتے ہیں تو مذہب بھی کالے اور گورے یا عربی و غیر عربی میں کوئی فرق نہیں کرتا، فضیلت کی بنیاد یہاں پرہیز گاری اور انسان دوستی ہے تو وہاں اچھا عمل اور انسانیت ہے۔ اسی طرح لبرل اگر خود کلمہ پڑھتا ہے تو وہ کسی دوسرے کو ہرگز کافر یا غیر مسلم ہونے کا طعنہ نہیں دے گا، مذہب بھی رواداری اور باہمی احترام سکھاتا ہے۔ سیکولر چاردیواری کے احترام پر یقین رکھتا ہے، مذہبی سوچ بھی یہی سکھاتی ہے۔ بایاں بازو سائنس اور جدید طریقہ زندگی کے اصولوں پر زور دیتا ہے، دنیا بھر کے مذہب پسند بھی وہی سب چاہتے ہیں اور زندگی کی دوڑ میں کامیابی کے لیے بخوبی شریک ہوتے ہیں۔ مذہب شاگرد پیشہ (خدمت گار، ملازمین) سے بہترین سلوک پر زور دیتا ہے، فقیروں تک کو ڈانٹنے پھٹکارنے کا حکم نہیں، لبرل بھی ایسے ہی اچھے اخلاق پر زور دیتا ہے۔ مذہب علم حاصل کرنے پر زور دیتا ہے، لبرل بھی یہی کہتے ہیں۔

رواداری کا عنصر قدیم ترین مذاہب کی مشترک قدر ہے۔ اسی رواداری، برداشت، انسان دوستی، بھائی چارے کو جدید دنیا لبرل ازم کا نام دیتی ہے۔ انتہا پسند ذہن ہر دو جگہ موجود ہیں اور وہ زمانے کا دستور ہے، جو اپنی بات ہر صورت منوائے اور دوسروں کی بات سننے تک کا روادار نہ ہو تو وہ انتہا پسند ہے، اور ایسے بہت سے ہیں۔

ہمارے خطہ شروع سے مقبولیت پسند سیاست کا گڑھ رہا ہے۔ مختلف راہنماو¿ں نے سیاسی رائے عامہ اپنے حق میں ہموار رکھنے کے لیے مذہب کا استعمال کیا اور خوب کیا۔ وہ بھٹو ہوں یا ضیا، دونوں کے ادوار میں نصابی جوڑ توڑ اپنے عروج پر رہے، جو آواز اٹھاتا اسے باطل کی آواز یا طاغوتی کہہ کر دبا دیا جاتا اس سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ وقت کے ساتھ ساتھ دانشور یا لبرل جیسے لفظ باقاعدہ طنزیہ طور پر کہے جانے لگے اور جو بھی نعرہ لگاتا کہ سب کا بھلا سب کی خیر اسے فقیری عطا ہونے کی بجائے لبرل کی عرفیت بخشی جانے لگی اور یہ روایتی ٹھپے بازی آج کل تو ایسی زوروں پر ہے کہ جس سے کوئی بھی حساب چکتا کرنا ہو اسے لبرل کہیے، سیکولر کہیے اور دور کھڑے ہو کر تماشا دیکھیے۔

سادہ ترین الفاظ میں ایک لبرل اپنی ذاتی زندگی کے عقائد صرف اپنے آپ سے منسلک سمجھتا ہے۔ وہ پریشان نہیں ہوتا کہ دوسرے لوگ کس مسلک سے ہیں، وہ کیا عبادت کرتے ہیں، کیسا لباس پہنتے ہیں، ان کی خواتین حجاب کرتی ہیں یا پردہ کرتی ہیں، ان کے ڈاڑھیاں ہیں یا کلین شیوڈ ہیں، دوسروں کے بچے انگریزی بولتے ہیں یا اردو، وہ کسی بھی فرقے یا مذہب سے ہو سکتا ہے بس صلح کل، رواداری، امن، پیار، محبت، بھائی چارے اور دوستی کا پرچارک ہوتا ہے۔ وہ اختلاف رائے کا احترام کرتا ہے اور ہتھیار اٹھانے کی بجائے بات چیت کے ذریعے مسائل کا حل چاہتا ہے، جتنی مرضی دشنام طرازی ہو جائے وہ انسانوں اور آزادی اظہار کی قدر کرتا ہے اور ہر انفرادی سچ کو برابر اہمیت دیتا ہے۔

تو بھئی قصہ مختصر گڈ لبرل اور بیڈ لبرل ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ لبرل ازم رواداری اور بقائے باہمی پر زور دیتا ہےاور مذہب بھی یہی تعلیم دیتا ہے۔
بشکریہ: روزنامہ دنیا

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain