مذہب سے بیزاری، مسلک سے وفاداری


اگر آپ ذرا دیر کو مسلم دنیا کو ایک جسم تصور کر لیں اور مختلف ممالک کی مسلم آبادی کو اس کے اعضا مان لیں تو آپ یہ کہنے کے لئے حق بجانب ہوں گے کہ اس جسم کے بیشتر اعضا بیماریوں میں گرفتار ہیں۔ الگ الگ اعضا میں پیدا ان خرابیوں نے پورے جسم کو ایک مرض میں مبتلا کر دیا ہے اور اگر ان نقائص کا علاج نہ ہوا تو جسم کو لاحق یہ مرض، لاعلاج روگ بھی بن سکتا ہے۔ اب ایک ایک کرکے نظر ڈالئے کہ جسم کے کون کون سے اعضا مرض میں مبتلا ہیں۔ عراق اور شام کو جنگ کا کینسر بری طرح کھا رہا ہے اور اگر عنقریب تدبر کے دھاگے اور امن کے مرہم سے ان کی ٹانکہ پٹی نہ ہوئی تو ان اعضا کو کاٹنے کی نوبت بھی آ سکتی ہے یا پھر ممکن ہے کہ مرض اس حد کو پہنچ جائے کہ یہ اعضا خود ہی بے کار ہو جائیں۔ پاکستان کو مسلکی تشدد کی ٹی بی ہو چکی ہے جس کے علاج کے لئے ضروری ہے کہ مستقل دوا چلے لیکن پاکستان کا معاملہ یہ ہے جہاں دو چار دھسکے کم ہوئے اور سانس پھولنا رکا، مریض یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ وہ شفایاب ہو گیا اس لئے دوا چھوڑ دیتا ہے اور بدپرہیزی کرتے ہوئے مسلکی جہاد کا سالن کھانا پھر سے شروع کر ڈالتا ہے۔ سعودی عرب کو تکفیریت کا بخار چڑھا ہوا ہے جس کا علاج اتحاد بین المسلمین کی گولیاں ہیں لیکن وہ گولیاں جس میڈیکل سٹور پر ملتی ہیں وہاں جانے کے لئے اعتدال کے گھوڑے پر سوار ہونا ہوگا اور فی الحال اس نسل کا گھوڑا عرب میں نہیں پایا جاتا۔ افغانستان ابھی برسوں چلی جنگ کی مار سے ملے زخم بھرنے کے بعد بستر سے اٹھنے کی کوشش میں ہی ہے کہ بار بار پاکستان جیسے تیماردار اسے کھینچ کھانچ کر واپس بستر پر لٹا رہے ہیں۔ مصر کا معاملہ یہ ہے کہ اس کا عوامی انقلاب کا آپریشن ہوا تھا اور بہت ممکن تھا کہ مریض کو آرام آ جاتا لیکن اچانک سعودی عرب سرجن کا دماغ پھر گیا اور اس نے کچے ٹانکے ہی کھول دیئے۔ بحرین کو ازلی حکمرانی کا مالیخولیا ہو گیا ہے۔ عراق سے لے کر یمن تک اور پاکستان سے لے کر افریقہ تک داعش کے سنپولے سرسراتے پھر رہے ہیں اور ہر سپیرا کہہ رہا ہے کہ یہ میری پوٹلی سے نہیں نکلے ہیں۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں بس اتنا سمجھ لیجئے کہ اگر خانہ جنگی، مسلکی دہشت گردی اور مسلمانوں کے ذریعے اپنے کلمہ گو بھائیوں کے سر اتارنے کا سلسلہ اسی رفتار سے جاری رہا تو قیامت کے دن صور اسرافیل سے مرنے کے لئے کوئی مسلمان باقی ہی نہیں بچے گا، سب کے سب پہلے ہی مر کر عالم برزخ میں ہونگے۔ اب ذرا یہیں رک کر یہ سمجھئے کہ اس خونریزی کا اصل سبب کیا ہے؟ اس مارا ماری کی جڑ میں ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے مسلمانوں کا انتشار، ایک دوسرے مسالک پر عدم اعتماد اور مذہب کے بجائے مسلک سے وفاداری۔ انتشار کا عالم یہ ہے کہ عالم اسلام پہلے ہی سعودی اور ایرانی دو خیموں میں بٹ چکا ہے۔ شام ایرانی خیمے میں گھسا ہوا ہے جبکہ درجنوں عرب ممالک سعودی عرب کے جھنڈے تلے اکٹھا ہیں۔حالات یہ ہیں کہ کسی بھی مسلمان ملک کو ان میں سے کسی ایک ڈیرے میں بہرحال پناہ لینی ہی ہے اور اگر کوئی غیر جانبدار رہنا بھی چاہے تو یار دوست اسے دھکے دے کر کسی ڈیرے میں گھسا دیتے ہیں۔

ایک دوسرے مسالک پر عدم اعتماد اس قدر ہے کہ جس طرف ایک مسلک جاتا ہے دوسرا مسلک آنکھ بند کرکے اس کی مخالف سمت چلنا شروع کر دیتا ہے۔ شام میں باغیوں کی حمایت سعودی عرب کر رہا ہے تو سلفی حضرات کے نزدیک شامی حکومت واجب القتل ہے اور اگر بحرین کی اپوزیشن کا ایران ہم نوا ہے تو شیعہ وہاں کی حکومت کو گوارا کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ ایسا ممکن نہیں کہ کوئی بھی کلمہ گو عراق، شام اور بحرین کے قضیے کو مسلک کی عینک اتار کر دیکھ لے۔

ویسے تو ہر ایک مسلمان ہونے کا دعویدار ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہر ایک کو مذہب کے بجائے اپنا مسلک زیادہ پیارا ہے۔ یہاں کوئی سنی مسلمان ہے، کوئی بریلوی مسلمان ہے، کوئی دیوبندی مسلمان ہے، کوئی اہل حدیث مسلمان ہے البتہ صرف مسلمان کوئی نہیں ہے۔ مسلک سے وفاداری کا یہ عالم ہے کہ اپنے ہم مسلک کے علاوہ باقی سب کو حقارت سے دیکھنا اور گمراہ سمجھنا عمومی وتیرہ بن گیا ہے۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنے والی بات کبھی کبھار فیشن کے طور پر دہرا دی جاتی ہے لیکن سب نے اپنے اپنے مسلک کی رسی بن لی ہے جسے وہ مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ جہاں انتشار اور ایک دوسرے کا سر توڑنے کی خواہشیں اس شدت سے انگڑائیاں لیتی ہوں وہاں اتحاد کی بات کون سوچے اور ملت کے وسیع تر مفاد کی فکر کون کرے؟۔ مسلمانوں کے ساتھ مصیبت دوہری ہے، اول تو یہ قوم تعلیمی میدان میں کوئی قابل ذکر کارنامہ انجام دینے سے معذور ہے اور اس پہ طرہ یہ ہے کہ آپس میں کٹ مرنے کی چاہت دل میں خوب اچھل کود مچا رہی ہے۔ سعودی عرب اور ایران جیسے ممالک جن کی دنیا کے الگ الگ حصوں میں اچھی خاصی فالوونگ ہے وہ ایک دوسرے کا اثر و رسوخ محدود کرنے میں ہی ساری توانائیاں کھپا رہے ہیں؟۔

ایسا نہیں ہے کہ دنیا میں کسی اور وقت پر اب سے پہلے ایسا کڑا وقت نہیں پڑا۔ بہت سی اقوام ایسی ایسی دشواریوں میں گرفتار ہوئیں جہاں سے ان کے مٹ جانے تک کا اندیشہ ہونے لگا لیکن وہ سب اقوام بحران سے نکل آئیں۔ ان سب کے بحران سے نکلنے کی ایک وجہ تھی اور وہ یہ کہ ان اقوام میں متحد ہوکر خود کو دوبارہ کھڑا کرنے کا جذبہ تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمن قوم پٹی اور پھر سے کھڑی ہوئی، دوسری جنگ عظیم میں جاپان پٹا اور پھر کھڑا ہوا، یہودی نازیوں کے ہاتھوں پٹے اور پھر سے کھڑے ہوئے لیکن عالم اسلام کا معاملہ یہ ہے کہ پٹ پٹا کر ادھ مری پڑی اس قوم کو فکر اس بات کی نہیں ہے کہ کیسے ایک دوسرے کو سہارا دے کر کھڑا کیا جائے بلکہ ساری طاقت جمع کرکے کوشش اس بات کی ہورہی ہے کہ ہمارے آس پاس والا بھی کوئی ہمت کرکے کھڑا نہ ہو سکے، جیسے ہی کوئی کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے زخمی پڑا کوئی اور اسے کھینچ کر پھر سے گرا دیتا ہے۔ ایسے میں انجام کیا ہوگا، سمجھ لیجئے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter