فکر عاصم بخشی، فلسفہ اور ایک ناکام عاشق


 کو ئی دن نہیں گزرتا جب یہ نہیں سوچتا کہ کہاں ہے، کس حال میں ہے۔ ہم کیا سے کیا ہو گئے؟ اس سوال کے جواب میں میرے کچھ مفروضات ہیں لیکن انھیں وسائل کی عدم موجودگی کی وجہ سے عقلی طور پر پرکھ نہیں سکتا۔ اور نتائج ہیں کہ اس وقت تک معلوم نہیں ہو سکتے جب تک پیش نہ آ جائیں۔ اسے اپنی بزدلی کہوں یا احتیاط کہ برے نتائج سے بہر صورت دور رہنا چاہتا ہوں۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میری کہانی جدید معاشرے کی بیش تر کہانیوں کی طرح یونہی مضحکہ خیز ثابت ہو گی۔ وہی جنّاتی دعوے ، وہی ملکوتی باتیں اور آخر کار جتھے دی کھوتی اوتھے آن کھلوتی!

میرا تعلق ایسے حلقے سے ہے جہاں مختلف افکار کی آپس میں گفت و شنید چلتی رہتی ہے۔ اور میرے ذہن میں ہمہ وقت کوئی نہ کوئی کھچڑی پکتی رہتی ہے۔ کبھی کبھار صحیح بن جاتی ہے، کبھی کبھار پھینکنی بھی پڑ جاتی ہے۔ میں ذہنی عیاش نہیں ہوں اس لیے جو سنتا ہوں سناتا بھی ہوں۔ معلوم ہوا کہ کچھ مفروضات کو Apriori Truths مانا جاتا ہے۔ میرے مرشَد چارلس پرس کا کہنا ہے کہ ایسے حقائق کا کلیةً قطعی، حتمی اور آفاقی ہونا امرِ محال ہے۔ یہ بات انھوں نے اس پسِ منظر میں کہی کہ استدلال کا بنیادی اصول یہی ہے کہ تحقیق کا راستہ نہ روکا جائے۔

تو ہوا یوں کہ ایک دن محترمہ سے جھگڑا ہوا اورمیں نے مسئلے کی تحقیق کرنا چاہی۔ میں نے پوچھا کہ تم ایسا کیوں کہہ رہی ہو؟ جواب آیا، میری مرضی میں جو کہوں۔ میں نے کہا کہ تم بہت سارے مفروضے قائم کیے ہوئے ہو۔ اس کا بھی جواب ویسا ہی آیا۔ اگلی بات پھر میں نے یہ رکھی کہ Apriori Truths کو بغیر کسی تنقید اور جانچ پڑتال کے درست نہیں مانا جا سکتا اور اس سے تحقیق کے راستے میں رکاوٹ آتی ہے لیکن ”یا رب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے زباں میری“۔ معلوم نہیں پرس یہ واقعہ سن کر تالی پیٹتے ہیں یا سر لیکن مجھے اس کے سوا کوئی طریقہ صلح کا نظر نہ آیا۔ ایک دن بہت سنجیدہ تھیں اور عشق کے موضوع پر لب کشائی کر رہی تھیں۔ ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر و تحریر سے معلوم ہوا کہ اس ’احسن البیان‘ کا منبع سوشل میڈیا، ٹی وی ڈرامے اور بدترین زیادتی کا شکار اردوشاعری ہے۔ مجھے عاشق صادق ہونے کا دعوی تو نہیں لیکن کچھ درجے میں اپنائیت ضرور ہے۔ اس لیے میں نے بھر پور تنقید کی کہ ان کہی کہائی، سنی سنائی باتوں کو عشق جیسی محکم حقیقت سے کچھ زیادہ واسطہ نہیں۔ پھر ایک دن انھوں نے شکایت کی کہ میں اپنے سر کے بالوں کا خیال نہیں رکھتا تو میں نے ارسطو کی Form اور Essenceکی بحث چھیڑ دی۔ کوئی لاکھ کہے کہ بات پھیرنا تو کوئی تم سے سیکھے لیکن اتنا میں کم از کم کہہ سکتا ہوں کہ میرا ایسا ارادہ نہ تھا۔ میرا کہنا بس اتنا تھا کہ سطح سے نیچے بھی ایک جہان بستا ہے۔ ساتھ ہی برملا ایک شعر بھی کہہ دیا کہ میری خشک فلسفہ آرائی سے ذرا دم لے لیں۔

ہم کو آپ سے نسبت کچھ یوں ہے

خار ہیں جیسے گل کو سنبھالے ہوئے

اس سے پہلے کہ میری نیم مبہم تحریر کو بالکل مبہم سمجھ لیا جائے، میں بات واضح کیے دیتا ہوں۔ محترم عاصم بخشی صاحب کے ’ہم سب‘ پر مضامین سے میں نے یہ سمجھا کہ تدریسی نظام میں ایک تعارف کی حد تک ہی سہی، فلسفے کی تعلیم ضروری ہے ورنہ سائنس کا بیڑہ غرق ہو جائے گا۔ میں ان کی بات کو آگے بڑھاﺅں گا کہ ایسا صرف سائنس کی بقا کے لیے ضروری نہیں بلکہ فرد اور معاشرے کی بقا کے لیے بھی ضروری ہے۔ میں کوئی مجرد بات نہیں کر رہا بلکہ تجربے کی بنیاد پر بات کر رہا ہوں کہ نوجوان نسل عشق میں، جو ایک مابعد الطبیعیاتی حقیقت ہونے میں خدا سے کسی طرح بھی کم نہیں، دلچسپی لیتی ہے۔ لیکن جب اس بارے میں کوئی خاطر خواہ ہدایات اپنے بڑوں سے نہیں پاتی تو پھر انھیں دقیانوسی عقائد کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتی ہے جو مار آستین کی طرح انسان کے خیالات کے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔ اور پھر جب سب کچھ نیست و نابود ہو جاتا ہے تو عشق کی حقیقت سے ہی انکار کر دیتی ہے بالکل ویسے ہی جیسے خدا کی ذات سے انکار کرنے والوں میں سے کچھ لوگ کر دیتے ہیں۔ یہ بظاہر چھوٹا بلکہ فضول سا مسئلہ ایک ایسی نسل کی آبیاری کر رہا ہے جس کا شیوہِ حیات ہی خودکشی بن گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ فلسفہ جو کہ میری طالب علمانہ رائے میں مابعد الطبیعیاتی حقائق سے منسلک عقائد کو پرکھنے کا ذریعہ ہے، اس کی تعلیم دی جائے اور عشق اور اس کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے حقائق کو اسی سنجیدگی اور تحمل سے سمجھا اور سمجھایا جائے جیسے ریاضی، کیمسٹری اور فزکس سمجھی اور سمجھائی جاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).