کشمیر کی آزادی ۔۔۔۔ ادھورا خواب


لیری کولن اپنی کتاب “آدھی رات کی آزادی”میں برصغیرکی تقسیم کی تاریخ کوایک خطرناک سانحہ قرار دیتی ہے۔ کیونکہ پاکستان اور بھارت تو آج دنیا ک نقشے پر دو آزاد ممالک ہےمگرکشمیر کا مسئلہ تاحال حل نہیں ہو سکا۔ کشمیر کے عوام آج تک انصاف کی طلب اورآزادی کے خواب اپنے آنکھوں میں سجائے اپنی تقدیر کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ زمین پرموجود اس جنّت میں عوام کی آواز کو گولیوں اور خونریزی کے ذریعے دبایا جاتا ہے۔ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر تمام ریاستی اداروں نے چپ سادھ لی ہے۔ کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو 65 سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا لیکن اب تک اس کو روکا نہیں جا سکا۔

بھارت اور پاکستان اب تک کشمیر کے لئے ایک دوسرے سے کئی جنگیں لڑچکےہیں۔ جب حکومت برطانیہ نے برصغیر کی تقسیم کا اعلان کیا تو کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے بغیر رائے عامہ کے، فوجی امداد اور تعاون کے بدلے میں 26 اکتوبر 1947 کو بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کا اعلان کیا۔ کشمیرمیں %77 آبادی مسلمانوں کی ہے، جو مسلم ریاست پاکستان ک ساتھ الحاق کا مطالبہ کرتی رہی۔ بھارت اور پاکستان میں کشمیر پر جنگ زور پکڑنے لگی تو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد منظور کی جس کے تحت بھارت اور پاکستان کو اپنی فوجیں کشمیر سے باہر نکالنا تھیں۔ لیکن بھارت نے وادی کشمیر سے اس کی واپسی کو مسترد کر دیا اوراس کے بعد سے کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان فساد کی ایک بہت بڑی وجہ بن گیا ہے۔

کشمیر میں بھارتی افواج کے بڑھتے ہوئے مظالم کئی بے گناہ انسانوں کی جان لے چکے ہے۔ اگر ہم اقوام متحدہ کے قوانین پرایک نظرڈالیں تو ان کے اصولوں کے مطابق:

1 ۔ تمام انسان آزاد اور حقوق و عزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوتے ہیں۔ اور بھائی چارے کے جذبے کے تحت سب کوایک دوسرے سےبہتر سلوک کرنا چاہئے۔

 2 ۔ ہرانسان کو آزادی سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے۔

3 ۔ کسی کوبھی تشدد یا، ظالمانہ، غیرانسانی سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جا سکتا۔

سوال تو میرا یہ ہے کہ انسانی حقوق کے یہ ادارے کشمیرمیں انسانی حقوق اور ان کی عزت کی حفاظت کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوسکے ہے ؟ دراصل کشمیر میں انسانی حقوق کے ساتھ جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ اب بدترین شکل اختیار کر چکا ہے۔ آزادی کے خواب دیکنے والی یہ ریاست آج بھی آزادی کے حصول کے لئے کوشاں ہیں۔

وزیراعظم نواز شریف نےاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ” 1947 سے لے کر اب تک کشمیر کا مسئلہ حل طلب ہے۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قردادوں کا نفاذ ممکن نہ بنایا جا سکا۔ کشمیر کی نسلو ں نے ٹوٹے ہوئے وعدے اور سفاکانہ جبر دیکھا ہے۔ 10000 سے زیادہ کشمیری خودارادیت کے لئے جدوجہد میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ اقوام متحدہ کی مسلسل ناکامی ہے”۔

کشمیری رہنماؤں نے اس طویل تنازعے کے حل کے لئے ایک آزاد اور منصفانہ رائے شماری کا مطالبہ کیا۔ اصل میں، تنازعہ کو حل کرنے کے ایک قرارداد کے طور پر رائے شماری کواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے تجویز کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ، پہلے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے کشمیر کے عوام کو رائے شماری اورحق خودارادیت کے ذریعے ان کی قسمت کا انتخاب کرنے کا حق دینے کا وعدہ کیا لیکن وہ وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تقریبا 70 سال کے بعد بھی کشمیر کا تنازع حل نہ ہو سکا۔

کشمیرکی آزادی ایک پیچیدہ مسئلہ ہے اور جس حد تک میرا خیال ہے پاکستان اور بھارت اس بات پرسمجوتہ کرنے کو بالکل تیار نہیں ہیں ۔

کشمیر کے مسلے کو حل کرنے ک لئے چند تجاویز مندرجہ ذیل ہے :

1۔ بھارت اور پاکستان کو اس مسئلے کا عبوری حل تلاش کرنا چاہئے اس مسئلے کا حل صرف مشترکہ اور باہمی رضا سے ممکن ہے۔

2۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں پہل کرنی چاہئے۔

 3۔ پاکستان کو اپنی کشمیری مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے اور ان کی حق کے لئے عالمی سطح پر ان کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنی چاہئے۔

4۔ اس مسئلے کا بہترین حل بہترین حل آئین 370 کا نفاذ ہے جو ریاستی خود مختاری کی اجازت دیتا ہے۔ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے کا حق ملنا چاہئے۔

5۔ بھارت کشمیرسے اپنی افواج کا بڑا حصہ واپس نکال لے، اور اقوام متحدہ کے مبصرین اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کے اصولوں کی پاسداری کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).