ایک غریب پشتون بچہ اور چند بھوکے لوگ


منگل کی رات ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ پتہ نہیں کیوں میں گھومتا گھامتا یونیورسٹی آف مینیجمنٹ ٹیکنالوجی (یو ایم ٹی) پہنچ گیا۔ وہاں نہایت محبت کرنے والے احمد سہیل ہوتے ہیں جو کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر مجھے سکالر سمجھ بیٹھے تھے اور وہاں ہونے والی تین روزہ بین المذاہب ہم آہنگی کے متعلق ایک کانفرنس میں بلا بیٹھے۔ دیوؤں کے درمیان ایک بونے کا بھلا کیا کام؟

رات نو بجے کے تقریب ختم ہونے پر باہر نکلا تو ایک چار پانچ سال کا نہایت خوبصورت سا پٹھان بچہ ایک چھوٹا سا کولر ہاتھ میں تھامے یونیورسٹی کے گیٹ کے باہر کھڑا تھا۔ کہنے لگا کہ ’ساب انڈا کھائے گا؟‘

میں خلاف معمول اس وقت نہایت نیک نیک سا محسوس کر رہا تھا اور حاضرین سے انڈے ٹماٹر وغیرہ کھانے کا موڈ نہیں تھا۔ انکار کر دیا۔ وہ بچہ کچھ مایوس سا ہو کر واپس پلٹا تو دل کو کچھ ہوا، اسے بلایا۔ کچھ پیسے دیے اور کہا کہ ان پیسوں کے انڈے اس گیٹ سے نکلنے والے اپنی پسند کے سٹوڈنٹس کو کھلا دو۔

وہ بہت خوش ہوا۔ گیٹ کی طرف گیا۔ وہاں کچھ دیر رک کر سوچتا رہا اور پھر واپس پلٹا۔ پوچھنے لگا کہ سٹوڈنٹ کو ہی کھلانا ہے یا جس کو مرضی کھلا دوں؟

میں نے کہا جسے مرضی کھلا دو۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے لگا کہ اس کا دماغ نہایت تیزی سے کچھ سوچ رہا ہے۔

پوچھنے لگا کہ اگر شکل سے کوئی آدمی غریب یا بھوکا لگ رہا ہو تو اسے بھی کھلا دوں؟

میں نے کہا کہ ہاں کھلا دو۔

اس کی آنکھیں یکدم چمک گئیں۔ اس کے چہرے پر خوشی بکھر گئی۔ کہنے لگا کہ اللہ بہت ثواب دے گا تمہیں۔

میں اداس ہو گیا۔ کاش اتنے اچھے دل اور دماغ والا یہ بچہ آج اپنے گھر میں ہوتا اور اس طرح روزی کمانے پر مجبور ہونے کی بجائے کسی سکول میں تعلیم حاصل کر رہا ہوتا۔ پتہ نہیں کیسی کیسی غربت اور بھوک دیکھ رکھی ہو گی اس نے اس عمر میں ہی در بدر ہوتے ہوئے۔

ہمارا سب سے زیادہ فوکس تعلیم پر ہونا چاہیے۔ ایسے بچے ہی ہمارا سرمایہ ہیں جو کہ انسانیت سے محبت کرتے ہیں۔ کاش ہم انہیں اپنا سرمایہ سمجھ پائیں۔

یہ تصویر اس بچے کی تو نہیں ہے مگر وہ ایسا سا ہی تھا۔ بس کچھ زیادہ خوبصورت اور کچھ زیادہ معصوم۔ یو ایم ٹی کی فیکلٹی اور طلبہ سے درخواست ہے کہ انڈا کھانے کو دل چاہے یا نہ چاہے، اس سے انڈا ضرور خریدیں۔ پھر کبھی بھوک لگ ہی جائے گی۔ ورنہ اسے پیسے دے کر کسی غریب کو کھلانے کا کہہ دیں۔ شاید ایک کی بجائے دو غریبوں کا بھلا ہو جائے گا۔ شاید آپ کی اس مدد سے یہ دن کے وقت سکول جانے کے قابل ہو جائے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar