گزرے برسوں کے پرندے، پرانی پتنگیں اور ایک خط


 اسلم ملک استاد محترم ہیں۔ یقیناً جب ان سے ملاقات ہوتی ہے تو بچپن کی کئی باتیں یاد آ جاتی ہیں۔ پھر میرے بڑے اور اکلوتے تایا جان جیسے ہیں۔ شکل ملتی سو ملتی ہے ۔ بہت سی عادتیں بھی ملتی ہیں۔ تایا جان کو بچپن میں کئی خط لکھے۔ دادی اماں لکھوایا کرتی تھیں۔ ان دنوں جہلم میں ہمارے گھرفون نہیں تھا۔ فون کو ہمارے گھر میں فضول خرچی سمجھا جاتا تھا۔ پانچ کلو آئل ایک مہینے میں مکمل استعمال کیا جاتا۔ یہاں تک کہ تاریخ یاد رکھی جاتی۔ ہر چیز کا استعمال دھیان سے کرنا ضروری تھی۔ یہاں تک کہ پانی بھی یہ دھیان رکھ کر استعمال کیا جاتا کہ صبح موٹر چلی ہے اب شام میں ہی چلے گی۔ ہر چیز بڑی سلیقے سے رکھی جاتی۔ برتن کھانے کے فوراً بعد دھلنے چاہئیں۔ اسی طرح کھانا اتنا ہی پلیٹ میں ڈالا جائے جتنا کہ بھوک ہے۔ کھانا بچنا نہیں چاہیے۔ وغیرہ وغیرہ۔ چٹھی لکھی جاتی وہ بھی ہر اتوار۔ جواب آئے یا نہ آئے ہر اتوار چٹھی لکھنی ضروری تھی۔ پہلے پہل میری لکھائی بہت خراب تھی۔ ابا نے بہت پیٹا۔ تختی لگوائی۔ سلیٹ پر لکھائی ٹھیک کرانے کی کئی کوششیں کی۔ ورک بک سے بار بار مشقیں کرائی۔ پر لکھائی ٹھیک ہونا تھی نہ ہوئی۔ پھر کلاس میں بھی اول آنے کا کوئی چلن نہیں تھا۔ ہمیشہ عمومی پاس ہوتی۔ اس پر ابا کی مزید ناراضی۔ کئی بار تنگ آ جاتی۔ کہ آخر میں کیوں صرف پاس ہوتی ہوں؟ مگر مجھے کبھی اول آنے کا شوق نہیں ہوا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ میرے بہت سارے سوال ہوتے جن کا جواب مجھے نہیں ملا کرتا تھا۔ تو میرا رفتہ رفتہ پڑھائی سے دل اُچاٹ ہونے لگتا۔ مجھے تب کہانیاں اچھی لگتی۔ اردو نصاب میں دی گئی کہانیوں اور مضامین کو ایک ہی دن میں نجانے کتنی بار پڑھا۔ مجھے یاد ہے” ٹوٹ بٹوٹ کے دو مرغے“ نظم یاد کی تھی۔ بلکہ اردو کی تمام نظمیں ازبر تھیں، کہانیاں یاد تھیں۔ یہاں تک کہ حرف بہ حرف جملہ با جملہ اور صفحہ در صفحہ یاد تھا۔ انگریزی کا بھی یہی حال تھا۔ ہاں البتہ ریاضی کمزور تھی۔ فارسی اور عربی اس سے بھی زیادہ کمزور، کھانا پکانا ویسے تو آتا تھا مگر بریانی کی جگہ پلاؤ بناتی تھی۔ باقی کوئی کام کہا بھی گیا تو یا تو یاد نہیں رہا ورنہ سستی آ گئی۔ لیکن سوال کبھی ختم ہوئے اور نہ ہونا تھے۔ ایک بار تایا ابا نے مجھے کہا کہ ککو یہ دنیا بس ایک ڈرامہ ہے۔ ہم سب اس ڈرامے کے کردار ہیں۔ بات دل کو چھو گئی۔ بہت بعد میں پتہ چلا کہ یہ تو شیکسپئیر کی نظم “seven stages of man”کا لب لباب تھا۔ اس وقت تایا ابا کی بات کا اثر یہ ہوا کہ خط لکھنے کر اپنی خدمات پیش کی جانے لگی۔ بس پھر کیا تھا۔ صرف خط لکھنے کے لئے اردو کے ہجے درست کئے۔ لکھائی پر توجہ دی۔ بلکہ کتابی الفاظ و شباہت پر توجہ دی۔ اور کئی بار دادی کے الفاظ پہلے رف عمل پھر اصل سے گزرتے۔ تب لیٹر باکس پرانے بازار میں رہتا تھا۔ اور دفتر کسی دور جگہ تھا۔ مجھے یاد ہے دو لیٹر باکس ہوتے تھے۔ ایک سرخ ایک نیلا۔ میں نے ہمیشہ سرخ والے میں خط پھینکے۔ کبھی کبھار نیلے والے ڈبے میں بھی خط ڈال دیا کرتی تھی۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب تایا ابا گورنمنٹ کوارٹرز کراچی کمپنی اسلام آباد رہتے تھے۔

ایک سائنس میگزین آیا کرتا تھا۔ لیٹر باکس بازار میں مدنی بک ڈبو کے باہر پڑا رہتا تھا۔ اور میں جب بھی خط ڈالنے بازار جاتی سائنس میگزین چرا لاتی۔ اگلی بار میگزین واپس رکھ آتی۔ ماہنامہ سائنس میگزین تھا شاید۔ اس میگزین میں جس دنیا کا ذکر کیا گیا تھا۔ آج میں اسی دنیا میں جی رہی ہوں۔ لیکن میرے سوالوں کے انبار کے پیچھے اسی سائنس میگزین کا ہاتھ ہے۔

جائداد کو لے کر جب جھگڑا ہوا تو دادی نے خط لکھوانے بند کر دیے۔ مگر میں نے خط لکھنا نہیں چھوڑا۔ ہاں اپنے گھر کا پتہ درج ہوتا نہ تایا کے گھر کا۔ خط میں کبھی اسکیچ ہوتا تو کبھی سائنس میگزین پڑھ کر ہونے والے تجربے اور مشاہدے کا ذکر ہوتا تو کبھی اسلامیات پر بات ہوتی تو کبھی ابو کے سخت رویے پر۔ کبھی اپنے دکھڑے روئے جاتی تو کبھی یونہی خط لکھ دیتی۔ میرے آدھے سے زیادہ سائنسی تجربات اور انجینئرنگ اسی میگزین کی مرہون منت ہے۔ ایک بار تو یوں ہوا کہ میگزین میں کمپاس بنانے کا طریقہ دیکھا اور تجربہ کیا۔ ایک پلیٹ میں پانی ڈالا۔ یہاں تک کہ پلیٹ لبا لب بھر گئی۔ پھر ایک ٹشو پیپر پر ناکے والی سوئی رکھی۔ اور ٹشو پیپر کو آرام سے پلیٹ پر رکھ چھوڑا۔ جوں جوں ٹشو پیپر گیلا ہوتا گیا۔ سوئی پانی کی سطح پر ہی رہی جبکہ ٹشو پیپر نیچے بیٹھتا گیا۔ ٹشو جب مکمل طور پر پلیٹ کے پیندے پر چلا گیا تب سوئی نے کمپاس کی طرح شمال کی جانب سرا اور جنوب کی جانب ناکا کر دیا۔”کسی بھی سوئی کو جب آزاد چھوڑا جاتا ہے تو وہ ہمیشہ شمالاً جنوباً کیوں رکتی ہے؟ “ یا” کمپاس کی سوئی ہمیشہ شمالاً جنوبً کیوں تیرتی ہے ؟“اور” مقناطیس پر “S”, “N”کی جگہ “E”, “W”کیوں نہیں ہو سکتے ہیں؟“۔ شاید تیسری جماعت میں تھی جب سائنس کی استانی سے یہ تین سوال کیے تھے۔ کہ ’ مقناطیس ہمیشہ شمالاً جنوباً کیوں اشارہ دیتا ہے؟ اور کمپاس کس اصول پر کام کرتی ہے۔ اس وقت استانی نے مجھے یہی جواب دیا تھا کہ ”شمال اور جنوب کی جانب مقناطیس کا ایک بہت بڑا پہاڑ ہے۔ جب راستہ معلوم کرنا ہوتا ہے تو خدا کمپاس کی سوئی کا پہاڑ کے ساتھ کنکشن کرا دیتا ہے۔ “اس جواب پر کبھی دل نہیں مانا۔ سائنس میگزین سے مجھے جواب ملا۔ تشنگی تو ابھی بھی باقی ہے مگر مجھے کچھ نہ کچھ ڈھنگ کا جواب تو ملا۔ پھر سائنس میگزین آنا بند ہو گیا۔ یا شاید مدنی بک شاپ والوں نے میگزین بند کرا دیا ہو گا۔ اتنا معلوم ہے اس کے بعد میں نے خط نہیں لکھا۔

پھر کئی سال بعد جب دادا ابو بھی مجھے چھوڑ کر اس دنیا سے کوچ کر گئے تب خود کو بہت اکیلا محسوس کر رہی تھی۔ تب پھر خط لکھا اور اس میں تمام جذبات انڈیل دیے۔ لیکن ایک غلطی یہ ہوئی کہ اپنا نام پتہ لکھ دیا۔ خط ابا نے ڈاکیے سے موصول کیا۔ پھر جو سلوک ہوا، وہ بہت ناخوشگوار تھا۔ لیکن یہ سب میرا بچپنا تھا۔ ابا نے وہ خط ابھی تک سنبھال رکھا ہے۔ جب بھی میرا کوئی مضمون کسی اخبار یا ہم سب پر چھپے اور فیس بک پر ان کی آنکھوں کے سامنے سے لنک گزرے تو سب دوستوں کو بتلاتے ہیں۔ یہ میری بیٹی کے کرتوت ہیں۔ پہلے خط لکھتی تھی اب مضمون لکھتی ہے۔ خدا کے حضور ابا کے لئے دعائیں ہیں۔ کہ ماں باپ ہزار نعمت ہیں۔ اب تو ابا بھی کہتے ہیں۔ سوال کرنے چاہئیں۔ بندے کا دماغ کھلتا ہے اور علم و تحقیق کے در وازے کھلتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).