پارٹیشن (1)


ہندوستان کا بٹوارا ہو گیا۔ بہت سے مسلمان پاکستان چلے آئے۔ بہت سے غیر مسلم سرحد پار کر کے ہندوستان چلے گئے۔ ایک بات ہم سب نے بھلا دی اور پھر کبھی یاد بھی نہیں کرنا چاہی کہ بہت سے مسلمان ہم پیچھے بھارت میں چھوڑ آئے تھے۔ ان مسلمانوں کی کوئی کہانی بھی ہو گی۔ ہم نے یہ کہانی لکھنے اور پڑھنے سے انکار کر دیا۔ انتظار حسین نے بہت عشرے قبل “ہندوستان سے ایک خط” لکھا تھا۔ بہت اعلیٰ افسانہ مگر ماننا چاہیے کہ ہجرت کے تناظر میں لکھا گیا تھا۔ ہندوستان میں کروڑوں مسلمان ایسے بھی تھے جن کے لئے تقسیم کے بعد ہجرت کا سوال ہی نہیں اٹھا۔ ان کی کہانی لکھنا باقی تھا۔ یہ کہانی بالآخر ہندی افسانہ نگار سوئم پرکاش نے لکھی۔ آج کے پاکستان کو سمجھنا ہو تو غلام عباس کی کہانی “دھنک” پڑھیے۔ مودی اور یوگی آدتیہ ناتھ کے بھارت کو سمجھنا ہو تو سوئم پرکاش کی کہانی “پارٹیشن” پڑھیئے۔۔۔

آپ قربان بھائی کو نہیں جانتے؟ قربان بھائی اس قصبے کے سب سے محترم شخص ہیں۔ قصبے کا دل ہے آزاد چوک اور اسی آزاد چوک پر قربان بھائی کی چھوٹی سی کرانے کی دکان ہے۔ یہاں سفید قمیض اور پاجامہ پہنے دو دو ، چار چار آنے کا سودا سلف مانگتے بچوں بوڑھوں کی بھیڑ میں گھرے قربان بھائی آپ کو نظر آ جائیں گے۔ بھیڑ نہیں ہوگی تو اکڑوں بیٹھے ہوئے کچھ لکھتے ہوں گے۔ بار بار موٹے فریم کے چشمے کو انگلی سے اوپر چڑھاتے اور پیشانی پر بکھرے آوارہ کھچڑی بالوں کو دائیں یا بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں پھنسا کر پیچھے کرتے ہوئے قربان بھائی۔ اگر آپ یہاں سے سودا لینا چاہیں تو آپ کا استقبال ہے۔ سب سے واجب دام اور سب سے زیادہ صحیح تول اور چیز بھی اصلی۔ جس چیز سے انہیں خود تسلی نہیں ہوگی، کبھی نہیں فروخت کریں گے۔ کبھی دھوکے سے دکان میں آ بھی گئی تو چاہے پڑی پڑی سڑ جائے ، آپ کو صاف منع کر دیں گے۔۔۔۔۔ مرچ آپ کے لائق نہیں ہے۔ رنگ ملی ہوئی آ گئی ہے۔ تیل ؟ تیل مزیدار نہیں ہے۔ ریپ سیڈ ملا ہوا ہے۔ چراغ جلانے کو چاہیں تو لے جائیں۔

 یہی وجہ ہے کہ ایک بار جو یہاں سے سامان لے جاتا ہے، دوسری بار اور کہیں نہیں جاتا۔ چاروں طرف بڑی بڑی دکانیں ہیں۔۔۔۔ سندھیوں کی ، مارواڑیوں کی مگر قربان بھائی کا مطلب ہے، ایمانداری۔ قربان بھائی کا مطلب ہے ادھار کی سہولت اور بھروسہ۔

 لیکن ایک بات کا خیال رکھیئےگا۔ آپ جو سامان لے جا رہے ہیں اس کا لفافہ یا تھیلی بغیر دیکھے مت پھینکیئےگا۔ ممکن ہے اس پر جذبہ خودداری سے بھرا یا کوئی خونخوار سا شعر لکھا ہو۔ نہ جانے کتنے لوگ ان سے کہہ کہہ کر ہار گئے کہ ایک کاپی رکھ لیں۔ شعر ہوتے ہی فورآ اس میں درج کر لیں۔ قربان بھائی سن لیتے ہیں۔ متفق بھی ہو جاتے ہیں۔ جو چیزیں کھو گئی ہیں ان پر افسردہ بھی ہوتے ہیں۔ مگر کرتے وہی ہیں۔

 میرا بھی اس ذی شان آدمی سے اسی طرح تعارف ہوا۔ دفتر سے لوٹتے ہوئے قربان بھائی کی دکان سے کوئی چیز لے کر گھر آیا۔ لفافے پر لکھا تھا۔۔۔۔۔

فقط پاس وفاداری ہے، ورنہ کچھ نہیں مشکل

بجھا سکتا ہوں انگارے، ابھی آنکھوں میں پانی ہے

اور یہ آدمی آج بھی چار چار آنے کے سودے تول رہا ہے۔ اس کی بھی ایک کہانی ہے۔

قربان بھائی کے والد کا اجمیر میں رنگ کا لمبا چوڑا کاروبار تھا۔ دو بڑے بڑے مکان تھے۔ اینہں حویلیاں کہنا چاہیئے۔ بازار میں خوب بڑی سی دکان تھی۔ بارہ نوکر تھے۔ گھر میں بگھی تو تھی ہی، ایک ‘بےبی آسٹین’ بھی تھی جو سیر سپاٹے کے کام آتی تھی۔ چھوٹی فیملی تھی۔ والد مولانا آزاد کے شیدائیوں میں سے تھے۔ بڑے بڑے لیڈر اور شاعر گھر آکر ٹھہرتے تھے۔ قربان بھائی اس وقت علی گڑھ یونیورسیٹی میں پڑھ رہے تھے۔ نہ مستقبل کی فکر تھی اور نہ بڑھاپے کا ڈر۔ مزے سے زندگی گزر رہی تھی۔ عشق، شاعری، ہوسٹل، خواب۔۔۔۔ !

تبھی بٹوارہ ہو گیا۔ دنگے ہو گئے۔ دکان جلا دی گئی۔ رشتے دار پاکستان بھاگ گیئے۔ دو بھائی قتل کر دیئے گئے۔ باپ نے صدمے سے چارپائی پکڑ لی اور جاں بحق ہوئے۔ نوکر گھر کی پونجی لے کر بھاگ گئے۔ جو کچھ بچا تھا اس کو لے کر قربان بھائی کسی طرح ناگ پور چلے گیئے۔ وہاں سے میڑتا۔ میڑتا سے ٹونک۔ کہاں جائیں؟ کہاں سر چھپائیں؟ کیا پاکستان چلے جائیں؟ لیکن نہیں گئے۔ کیوں کہ ‘جوش’ نہیں گئے۔ کیوں کہ ‘ثریا’ نہیں گئیں۔ کیوں کہ قربان بھائی کو اچھے لگنے والے بہت سے لوگ نہیں گیئے۔ تو قربان بھائی کیوں جاتے؟

دھیرے دھیرے گھر کی بکنے لائق ساری چیزیں بک گئٰیں اور کہیں کوئی کام، کوئی نوکری نہیں ملی جو اس دور میں مسلمانوں کو ملنا مشکل تھی۔ ہنر کوئی جانتے نہیں تھے۔ تعلیم ادھوری تھی۔ آخر ایک سیٹھ کے یہاں حساب لکھنے کا کام کرنے لگے۔ لیکن اپنی اصول پسندی، ایمانداری، دیانت داری اور شرافت جیسی خامیوں کی وجہ سے جلد ہی نکال دیئے گئے۔ مالک ہونے کا احساس ایک بار جو ٹوٹا تو ٹوٹتا ہی چلا گیا۔ حالت یہ تھی کہ ہندوؤں میں رہنے کی کوشش کرتے تو شک و شبہ کی برچھیوں سے زخمی کر دیئے جاتے اور مسلمانوں میں کھپنے کی کوشش کرتے تو لیگیوں کی مذہبی دیوانگی کا جواب دیتے دیتے بکھر جاتے۔ اتر گیئے مزدوری پر، حمالی تک۔۔۔۔۔ نئے نئے کام سیکھے۔ مجبوری سکھا ہی دیتی ہے۔ سائیکل کے پنکچر جوڑے، پیپوں کنستروں کی جھال لگائی، چھتریاں، لالٹین ٹھیک کیں، رنگائی کا کام کیا، ہاتھی دانت کی چوڑیاں کاٹیں۔۔۔۔ شہر در شہر۔۔۔۔۔ اب حملہ فرقہ وارانہ دیوانگی کا نہیں، مشین کا ہو ریا تھا۔ جو چیز پکڑتے تھے، دھیرے دھیرے ہاتھ سے پھسلنے لگتی۔ دھکے کھاتے کھاتے پتہ نہیں کب کیسے یہاں اس قصبے میں آ گیئے اور ایک بزرگ نمازی مسلمان سے پچاس روپے قرض لے کر ایک دن یہ دکان کھول بیٹھے۔ کچھ پڑیوں میں دال چاول۔۔۔ ماچس، بیڑی، سگریٹ، گولی، چاکلیٹ۔۔۔ کیا بتاؤں؟ کس طرح بتاؤں؟ ایک آدمی کے درد اور جدوجہد کی طویل داستان کو صرف اپنی آسانی کے لیئے چند الفاظ میں نپٹا دینا نہ صرف زیادتی بلکہ اس جذبے کا مذاق اڑانے جیسا ہے۔ پر کیا کروں، کہانی جو کہنے جا رہا ہوں۔

دکان کے ذرا جمتے ہی قربان بھائی نے اخبار خریدنا اور رسالے منگوانا شروع کر دیا۔ ٹھکانہ ہو گیا۔ پہننے کو دو جوڑے کپڑے ہو گیئے۔ روٹیشن چل گیا۔ دکان جم گئی تو آگے اور کون سی خواہش تھی؟ پیچھے کوئی بچے نہیں تھے۔ شوق موج، سیر سپاٹا بھول ہی چکے تھے۔ میاں بیوی دو جان کے لیئے اللہ کا دیا سب کچھ تھا۔۔۔۔ رسالے کیوں نہ منگواتے؟ اور جب کوئی رسالہ آتا تو، بک پوسٹ ہو یا وی۔ پی، اسے لینے قربان بھائی خود پوسٹ آفس پہنچ جاتے۔ رسالے کو بڑے جتن سے سنبھال کر رکھتے اور اس کا ورق ورق، حرف حرف چاٹ جاتے، کئی کئی بار۔۔۔ جیسے کسی بھوکے پیاسے کو انواع و اقسام کی نعمتیں مل گئی ہوں۔ ادب سے اب بھی اسی طرح محبت کرتے ہیں۔ رسالے منگوا کر، خرید کر پڑھتے ہیں اور ان کی فایل حفاظت سے رکھتے ہیں۔

 اسی طرح۔۔۔ ان کے اصول بولنے لگے۔ لوگوں نے دیکھا، یہ شخص کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ ٹھگی، چارسوبیسی نہیں کرتا۔ کم نہیں تولتا۔ کبھی کسی کو ‘ارے’ نہیں کہتا۔ گندے مذاق نہیں کرتا۔ ادب سے بولتا اور آڑے وقت پر ہر ایک کے کام آتا ہے۔ اس کے ہر کام میں نفاست اور وقار جھلکتا ہے۔۔۔۔ اس لیئے دھیرے دھیرے قصبے میں عزت بننے لگی۔ اچھے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہونے لگا۔ معزز لوگ دعا سلام کرنے لگے۔ بڑے بڑے تاجروں کے یہاں شادی بیاہ پر دعوت نامے آنے لگے۔ قربان بھائی کی کشش کچھ ادیبوں کو بھی کھینچ کر لانے لگی۔ اب قربان بھائی انہیں چائے پلا رہے ہیں اور دکان داری چھوڑ کر ‘غالب’ پر بحث کر رہے ہیں۔

آہستہ آہستہ قربان بھائی کی دکان پڑھے لکھوں کا اڈہ بن گئی۔ لکچرر، ماسٹر، صحافی اور دوسرے پڑھنے لکھنے والے۔۔۔ شام ہوتے ہی قربان بھائی کی دکان قہقہوں اور بحثوں سے گلزار ہو جاتی۔ قربان بھائی آداب عرض کرتے، چائے والے کو چائے کے لئے آواز لگاتے اور ٹاٹ کی کوئی بوری نکال کر چبوترے پر بچھا دیتے۔ دکان داری بھی چلتی رہتی، بحثیں بھی، قہقہے بھی۔ اور درمیان میں وہ اس میں بھی شرم نہ کرتے کہ کسی کو چھابڑی پکڑا کر دور رکھے تھیلے سے کیلو بھر ثابت مرچ بھرنے یا فلاں کنستر سے پسے نمک کی تھیلی نکال دینے یا دس چیزوں کا ٹوٹل ملا دینے جیسا کام پکڑا دیتے۔ بڑا مزیدار منظر ہوتا جب انگریزی ادب کا قاری سڑک پر کھڑا پھٹک پھٹک کر لہسن کے چھلکے اڑا رہا ہے یا لوکل اخبار کا رپورٹر اکڑوں بیٹھ کر چبوترے کے نیچے رکھی بوری سے ملتانی مٹی نکال رہا ہے یا تواریخ کا پروفیسر۔۔۔۔۔

 ہم لوگوں کے ساتھ سے قربان بھائی بدلنے لگے۔ انہیں پہلی بار محسوس ہوا کہ ان کی ایک ادبی شخصیت بھی ہے۔ ہم نے ان سے اردو سیکھی۔ ان کی لائیریری ترتیب دی۔ رسالوں کی جلدیں بنوائیں اور اس لائبریری کا خوب فائدہ اٹھایا۔ ہم لوگ قربان بھائی کو پکڑ پکڑ کر مشاعروں اور نشستوں میں لے جانے لگے۔ ہم نے انہیں ایسے رسالے دکھائے جیسے انہوں نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ ایسے ادیبوں شاعروں کے بارے میں بتایا جو ان کے تصور میں بھی نہیں تھے۔ ایسے شاعروں کا کلام سنایا جو ساقی شراب وغیرہ کو کب کا الوداع کہ چکے تھے۔ اور ایسی سیاست سے ان کا تعارف ہوا جس کے بارے میں انہوں نے اب تک صرف اڑتی اڑتی باتیں ہی سنی تھیں۔ ان کے دماغ میں بھی کافی مذہبی کباڑ بھرا ہوا تھا۔ ہم جھاڑو لے کر پل پڑے۔۔۔۔ ہم نے انہیں اخبار اور پھر اس پر رائے دینے کا چسکا لگا دیا جیسا پہلے کسی نے کرنا ضروری نہیں سمجھا تھا۔

 نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ہفتے میں ایک دن چھٹی رکھنے لگے۔ رات کو کھانے کے بعد ہمارے ساتھ گھومنے جانے لگے۔ اپنے ماضی کے بارے میں سوچ سوچ کر غصے سے بھرے رہنے کے بجائے مستقبل کی طرف دیکھ کر کبھی کبھی چہکنے بھی لگے اور ہمارے نزدیک سے نزدیک تر آتے گئے۔ ایک نئی قسم کی جوانی ان پر چڑھنے لگی۔ وہ ہمارے عادی ہو گئے۔ ہمارا ہر شام انتظار کرتے اور اگر کبھی ہم نہ پہونچ پاتے تو وہ خود ہمارے گھر آجاتے۔

 اب ہوا یہ کہ قصبے کے شریف اور معزز شخص ہونے کی قربان بھائی کی شہرت سے ہمیں چاہے فائدہ نہ ہوا ہو، پر ہماری بدنامی کی لپیٹ میں وہ بھی آنے لگے۔ اس کے نتیجے میں قربان بھائی کا وقت ہمیں زیادہ ملتا اور ان کے پرانے دوستوں لطیف صاحب، حاجی صاحب، امام صاحب کے حصے میں کم آتا۔ نماز پڑھنے وہ صرف جمعہ کو جاتے تھے، اب وہ بھی بند کر دیا۔ وعظ وغیرہ میں چلنے کو کوئی پہلے بھی ان سے نہیں کہتا تھا۔ اب بھی نہیں کہتا۔ مدرسے کو پہلے بھی چندہ دیتے تھے اب بھی دیتے ہیں۔ کبھی کبھی ہونے والے سیاسی جلسوں میں جانے کو اور قصبے کی سیاست میں دلچسپی لینے کو ان کے لئے خطرناک سمجھ کر برادری والے انہیں ٹوکنے لگے۔۔۔۔۔ سیاست اپنے جیسے لوگوں کے لئے نہیں ہے، سمجھے! چپ چاپ سالن روٹی کھاؤ اور اللہ کا نام لو۔ چین سے جینا ہے تو ان چکروں میں مت پڑو۔ بےکار کبھی پکڑ لئے جاؤ گے تو ہمیں بھی پھنسواؤ گے۔ اب یہاں رہنا ہی ہے تو پانی میں رہ کر مگر مچھ کو منہ چڑھانے سے کیا فائدہ؟

 لیکن اپنی سوچ میں مست تھے ہم لوگ۔ نہ ہمیں پتہ چلا نہ قربان بھائی کو کہ ان انہیں امام باڑے والے ہی نہیں، چٹیا والے بھی گھورتے ہوئے نکلنے لگے ہیں۔ شام کو ان کی دکان پر آنے والے کچھ وطن پرست قسم کے لوگوں کی اچانک غیر حاضری کا مطلب بھی ہم نے نہیں سمجھا۔ اس لیئے آخر وہ واقعہ ہو گیا جس نے اس کہانی کو ایک ایسے افسو س ناک مقام تک پہنچا دیا جو ذہن و دل کو کڑواہٹ سے بھر دیتا ہے۔۔

(جاری ہے)

سوئم پرکاش
Latest posts by سوئم پرکاش (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).