پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت اور شعبہ فلسفہ


یکم جنوری 1979ء کو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں تدریس کا آغاز کیا۔ دو تین برس تو خیریت سے گزر گئے۔ لیکن اس کے بعد جمعیت کے ساتھ معاملات کچھ الجھنا شروع ہو گئے۔ 1983 کا سال تھا جب ان کے ساتھ تنازعہ شروع ہوا۔

ہر تدریسی شعبے میں نئے آنے والے طلبہ و طالبات کا خیر مقدم کرنے اور جانے والوں کے اعزاز میں پارٹیاں منعقد کرنے کا رواج ہے۔ اسی زمانے میں پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت نے یہ قانون نافذ کیا ہوا تھا کہ ایسے ہر فنکشن میں یونین کے کسی عہدے دار کو مہمان خصوصی بنایا جائے گا۔ ایک دن میں صدر شعبہ کے دفتر میں داخل ہوا تو وہاں ایک طالبہ ، جو اپنا تعلق جمعیت سے بتاتی تھی، صدر شعبہ سے کہہ رہی تھی کہ شعبے میں نئے طلبہ و طالبات کے لیے جو خیر مقدمی تقریب ہو رہی ہے ہم اس میں وائس چانسلر صاحب کو مدعو کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ وائس چانسلر صاحب کو مدعو کرنے کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ آپ پہلے ان سے تاریخ لیتے ہیں اور پھر تقریب کا اعلان کرتے ہیں۔ کل تقریب ہو رہی ہے اور آج یہ کہا جا رہا ہے کہ وائس چانسلر صاحب کو مدعو کرنا ہے جو آداب کے منافی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کل وائس چانسلر صاحب یہاں ہوں گے بھی نہیں۔ یہ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ وہ دراصل یونین کے صدر امیر العظیم کو مہمان خصوصی بنانا چاہتے تھے۔ جب انہوں نے شعبے میں امور طلبہ کے انچارج استاد سے یہ بات کی تو انہوں نے دوٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ اگر آپ نے انہیں مدعو کیا تو میں تقریب میں نہیں آؤں گا۔

اگلی صبح میں شعبے کی لائبریری میں ایک کونے میں بیٹھا ہوا اخبار پڑھ رہا تھا کہ یونین کے سیکریٹری صاحب چند طلبہ کے ساتھ لائبریری میں داخل ہوئے اور شعبے کے طلبہ کے سامنے میرے خلاف تقریر کرنا شروع ہو گئے۔ اس پر ایک طالب علم نے کہا کہ شعبے میں اور اساتذہ بھی تو ہیں آپ صرف ساجد صاحب کو سارا الزام کیوں دے رہے ہیں۔ تو سیکریٹری صاحب نے جواب دیا کہ ہمیں سب پتہ ہے کہ کون یہ کر رہا ہے اور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

 اس کے بعد وہ صدر شعبہ کے پاس گئے اور انہیں بتایا کہ یہاں کسی بھی تقریب میں یونین کے صدر کو مہمان خصوصی بنانا لازمی ہے لیکن صدر شعبہ نے یہ بات تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ہمارے شعبہ کی بہت نجی سی تقریب ہوتی ہے اور ہماری یہ روایت نہیں کہ اس میں باہر کے افراد کو مدعو کیا جائے۔ تاہم وہ دھمکی دے کر چلے گئے کہ ہم تقریب میں آئیں گے اور دیکھیں گے کہ کون ہمیں روکتا ہے۔ اس کے جانے کے بعد صدر شعبہ نے مجھے بلایا کہ اس صورت حال سے کس طرح نبٹا جائے۔ میں نے مشورہ دیا کہ ہم تقریب کینسل کر دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سٹوڈنٹس نے جو کھانے کا بندوبست کیا ہوا ہے اس کا کیا ہوگا۔ میں نے کہا کہ وہ کھا پی لیں گے لیکن تقریب کو منسوخ کر دیا جائے۔ ابھی ہم یہ بات کر ہی رہے تھے کہ وائس چانسلر صاحب کا فون آ گیا اور صدر شعبہ سے دریافت کیا کہ آپ کے شعبے میں کیا مسئلہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہم نے فنکشن منسوخ کر دیا ہے۔ اس پر وائس چانسلر صاحب نے کہا کہ بس دیکھ لیجیے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ صدر شعبہ نے جواب دیا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔جب یونینوں پر پابندی لگی تو اس کے بعد ہر تقریب میں جمعیت کے ناظم کو مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کرنا لازم کر دیا گیا لیکن شعبہ فلسفہ کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ اس کے کسی فنکشن میں جمعیت کے کسی فرد کو کبھی مہمان کے طور پر شریک ہونے کا موقع نہیں ملا۔

 اس واقعے کے کچھ ہفتے بعد ایک صبح جب میں شعبہ میں داخل ہوا تو دیواروں پر چار روزہ تفریحی ٹور کے پوسٹر لگے ہوئے تھے۔ میں نے صدر شعبہ سے پوچھاکہ آیا ٹور کی اجازت انہوں نے دی ہے تو انہوں نے کسی ٹور کے پروگرام سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ اس زمانے میں جونیر اور ینگ ہونے کے ناتے ان تفریحی دوروں پر میں ہی سٹوڈنٹس کے ساتھ جایا کرتا تھا۔ میں نے صدر شعبہ سے کہا کہ یہ پوسٹر بلا اجازت لگائے گئے ہیں اس لیے میں ساتھ نہیں جاؤں گا۔ صدر شعبہ نے جمعیت کے ناظم کو بلایا اور پوچھا کہ آپ نے یہ پوسٹر کس کی اجازت سے لگائے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ ان تاریخوں میں اساتذہ فارغ نہیں ہیں اس لیے ٹرپ ایک ماہ بعد جائے گا۔ ناظم نے بلا اجازت پوسٹر لگانے پر معذرت کی اور کہا کہ ہم ابھی انہیں اتار دیتے ہیں۔ لیکن پوسٹر اتارنے کے بعد انہی تاریخوں میں ٹرپ لے جانے کی ایک درخواست لکھ کر لے آیا۔ اس پر صدر شعبہ نے اسے کہا کہ آپ کو پہلے بتا دیا گیا ہے کہ ان تاریخوں پر ٹرپ نہیں جا سکتا اس کے باوجود آپ انہی تاریخوں کی درخواست لے کر آ گئے ہیں۔

اب جمعیت والے اڑ گئے کہ ٹور انہی تاریخوں کو جائے گا۔ جنرل ضیاءالحق کی حکومت کا زمانہ تھا۔ اس زمانے میں حکومت کی جانب سے ایک مراسلہ آیا ہوا تھا کہ کلاس روم میں تدریس کے علاوہ اور کوئی مخلوط سرگرمی نہیں ہو سکتی۔ ہم نے جان چھڑانے کی خاطراس مراسلے کو بنیاد بناتے ہوئے جمعیت والوں کو کہہ دیا کہ ٹرپ ایک مہینہ بعد جائے گا اور لڑکے اور لڑکیوں کا علیحدہ علیحدہ جائے گا۔ اب تماشا یہ ہوا کہ ایک دن پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر جناب امیر العظیم شعبہ میں امور طلبہ کے انچارج استاد کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ لڑکے اور لڑکیوں کا اکٹھا ٹرپ لے جایا جائے۔وہ استاد یہ سن کر حیران رہ گئے اور ان کی زبان سے بے ساختہ یہ جملہ ادا ہوا کہ آپ لوگوں کا کوئی دین ایمان ہے یا نہیں؟

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3