ملاؤں کا پاکستان پر قبضہ پراجیکٹ کیسے شروع ہوا؟
پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح کا احترام کسی اختلاف سے ماورا ہے۔ البتہ کچھ حلقوں نے قائد اعظم کی ایک تصویر بنا رکھی ہے، قیام پاکستان سے پہلے اور بعد کی تاریخ کا ایک خاص نقشہ انہوں نے تیار کر رکھا ہے۔ اور انہیں اصرار ہے کہ قائد اعظم کو پان سیگرٹ کی دکانوں پر چسپاں اشتہاری تصاویر کی مدد سے پہچانا جائے۔ تاریخ کا صرف وہی بیان درست تسلیم کیا جائے جس میں ان قدوسی ہستیوں اور ہدایت یافتہ گروہوں کی کسی کوتاہی کا ذکر نہ ہو۔ اس کشمکش سے کچھ ایسا تاثر ملتا ہے گویا قائد اعظم کی سیاست اور افکار پراسرار علوم باطنیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ راز انتقال عرفان کے کسی سینہ بہ سینہ عمل کی مدد سے چند سرکاری اہل کاروں، اصحاب منبر و محراب اور مٹھی بھر مدرسین پر منکشف ہوئے ہیں۔ دراصل سوال قائداعظم محمد علی جناح کی محترم ذات کا نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے پاکستان میں ریاست اور سیاست کے بندوبست کو ایک خاص شکل دینے کی کوشش کی تھی، جو ناکام ہو گئی ہے۔ اس سے انصاف، ترقی اور امن کا راستہ کھوٹا ہوا ہے۔ جب قائد اعظم کے طرز سیاست کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے تو اس سے اجتماعی انسانی زندگی کے ان جمہوری اصولوں کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے جن کی بنیاد پر قائد اعظم نے پاکستان کی آزاد اور خود مختار مملکت حاصل کی تھی۔ قائد اعظم ایک افسانوی کردار نہیں تھے، گوشت پوست کے ایک حقیقی انسان تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے کی دنیا کسی اور سیارے پر آباد نہیں تھی۔ ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کی تاریخ بمشکل آٹھ عشرے پرانی ہے۔ جن سوالات نے ہمارے جسد اجتماعی میں تخریب کی فصل بوئی ہے وہ سوال تو مسلسل کھٹک رہے ہیں ۔ قائد اعظم کے سیاسی موقف سے ان کی زندگی میں بھی اختلا ف کیا جا سکتا تھا اور ان کی وفات کے بعد بھی ان کی تاریخی کردار سے اختلاف کرنا جرم نہیں۔ سیاسی موقف مذہبی عقیدہ نہیں ہوتا۔ سیاسی موقف سے اختلاف ہرگز گردن زدنی نہیں۔ البتہ نظریاتی ریاست ایسا اجتماعی نمونہ ہے جس میں پیوستہ مفادات کی آبیاری کے لئے رہنما کو ہر غلطی سے ماورا بتایا جاتا ہے۔ موجودہ موقف کا جواز گھڑنے کے لئے تاریخ کو مسخ کیا جاتا ہے۔ اور اپنے سیاسی مخالفین کو غدار، جرائم پیشہ، جاہل اور فسادی قرار دیا جاتا ہے۔ قائداعظم کی اصل توہین تو ان افراد اور گروہوں نے کی جو قیام پاکستان کے بعد بھی قائد اعظم کی ذات اور سیاست پر انگشت نمائی کرتے رہے۔ یہ فہرست طویل بھی ہے اور چشم کشا بھی۔ پاکستان کی ’نظریاتی اساس‘ کے خود ساختہ علمبرداروں کی ان کوششوں کے دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔
11 اگست 1947ءکو دستور ساز اسمبلی میں قائد اعظم نے جو تقریر کی، اس سے غیر جمہوری حلقوں کو بہت تکلیف ہوئی تھی۔ قائد اعظم نے 11 اگست 1947ءکو دستور ساز اسمبلی میں فرمایا ’اگر آپ اپنے ماضی کو تبدیل کر کے اِس عزم کے ساتھ کام کریں کہ آپ میں سے ہر فرد، قطع نظر اس سے کہ اِس کا تعلق کس کمیونٹی سے ہے، یا یہ کہ اُس کا رنگ، ذات یا عقیدہ کیا ہے، وہ اول و آخر یکساں حقوق، مراعات اور ذمہ داریوں کے ساتھ اِس ریاست کا شہری ہے، تو آپ جتنی ترقی کریں گے، اُس کی کوئی حد نہیں ہو گی‘۔ چنانچہ 20 روز بعد شبیر احمد عثمانی نے 31اگست 1947ءکو ایک بیان جاری کیا جو 3ستمبر 1947ءکو نوائے وقت میں شائع ہوا۔ یہ بیان قائد اعظم کے ارشادات کی لفظ بہ لفظ مخالفت تھا۔ ”میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ قائد اعظم کی یہ فتح مبین (قیام پاکستان) مسلمانوں کے ضبط و نظم کی مرہون احسان ہے۔ مسلمانوں کی افتاد طبع مذہبی واقع ہوئی ہے اور دو قوموں کے نظریے کی بنیاد بھی مذہب ہے۔ اگر علمائے دین اس میں نہ آتے اور تحریک کو مذہبی رنگ نہ دیتے تو قائد اعظم یا کوئی اور لیڈر خواہ وہ کیسی قابلیت و تدبر کا مالک ہی کیوں نہ ہوتا یا سیاسی جماعت مسلم لیگ مسلمانوں کے خون میں حدت پیدا نہیں کر سکتی تھی…. “ قائد اعظم اپنی تقریر میں فرما چکے تھے کہ ”وقت گزرنے کے ساتھ (پاکستان میں) ہندو، ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان، مسلمان نہیں رہے گا۔ مذہبی حوالے سے نہیں کیونکہ یہ ہر فرد کے ذاتی اعتقاد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی معنوں میں، ریاست کے شہری کے طور پر“۔ چنانچہ شبیر احمد عثمانی نے یہ گرہ لگانا بھی ضروری سمجھا کہ ”میں چاہتا ہوں کہ خواہ حالات کتنے ہی نا مساعد کیوں نہ ہوں مسلمان مسلمان رہے اور ہندو ہندو۔ “
روزنامہ انقلاب نے 16 اپریل 1948ء کی اشاعت میں خبر دی کہ وزیر آبا دکے چوک لاہوری دروازہ میں علما نے پردہ کے موضوع پر ایک جلسہ منعقد کیا۔جلسے کے اختتام پر ایک قرارداد پیش کی گئی ۔ ”مسلمانان وزیرآباد کا یہ جلسہ بیگم لیاقت علی خان اور ان کی دوسری مغرب زدہ ساتھیوں کی ان تقریروں کی پرزور مذمت کرتا ہے جو انہوں نے 3اپریل کو لاہور میں کیں۔ اس جلسے کی رائے میں، اس قسم کی تقریریں اسلامی تعلیمات سے جہالت و بے خبری اور اینگلو محمڈن مردوں کی انگیخت اور سازش کا نتیجہ ہیں“۔ اس قرارداد میں ”اینگلو محمڈن“ کی اصطلاح محض اتفاقیہ نہیں تھی۔ دو ہفتے بعد 3 مئی 1948ء کو بیرون باغ موچی دروازہ ، لاہور میں مسلم لیگ (شریعت گروپ) کے ایک جلسے کی صدارت عبدالستار نیازی کر رہے تھے۔ ایک مقرر ابراہیم علی چشتی کے الفاظ تھے۔ ”پاکستان کے مسلم عوام اینگلو محمڈن نوابوں اور سرمایہ دار کمیونسٹوں کے زور دار شکنجے میں کچلے جا رہے ہیں“۔ عورتوں کے حقوق کے بارے میں قائد اعظم اور لیاقت علی خاں کے خیالات واضح تھے۔ یہ فیصلہ آپ خود کر لیں کہ ”اینگلو محمڈن “ کا خطاب کسے دیا جا رہا تھا۔ آج کل اس اصطلاح کو ”لبرل فاشسٹ“ اور دیسی لبرل وغیرہ کا جامہ پہنایا گیا ہے۔
- تالاب گدلا ہو گیا ہے - 16/03/2024
- فارسی پنجاب کے کھیتوں میں دوڑائی گئی - 13/03/2024
- تخت سے عیسیٰ کب اترے گا؟ - 09/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).