ہوشیار باش! فوج غیر سیاسی نہیں ہے


پیپلز پارٹی کے اہم ترین لیڈروں کی وضاحت اور ملک کے موجودہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور اسی عہدے پر پیپلز پارٹی کے دور میں کام کرنے والے رحمان ملک کے تبصروں اور بیانات کے بعد اب فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بھی امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے ایک حالیہ مضمون پر تبصرہ کرنا ضروری سمجھا ہے۔ چوہدری نثار علی خان کا دعویٰ ہے کہ اب ملک میں امریکی ایجنٹ سفارتی ویزے پر نہیں آ سکتے اور ان کی حکومت نے اس طریقہ کار کا خاتمہ کیا ہے۔ جبکہ رحمان ملک نے وزیر داخلہ کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ امریکی ایجنٹ ہر زمانے میں پاکستان میں متعین رہے ہیں اور انہیں موجودہ حکومت کے دور میں بھی ویزے جاری کئے گئے ہیں۔ ان بیانات میں کوئی سچ تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ انہیں مدمقابل سیاسی پارٹیوں کی طرف سے ایک دوسرے کو زیر کرنے کی کاوش سمجھا جاتا ہے۔ حسین حقانی کے ایک مضمون نے جو اپنے روابط کی اہمیت اور خود ستائی پر مبنی ایک ایسا بیان تھا جو امریکہ کی نئی حکومت کو اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے لکھا جا سکتا تھا۔ اس کو پاکستان میں بھی اسی طرح نظر انداز کیا جانا چاہئے تھا جس طرح امریکہ میں اس پر غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اب ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے بھی دو ٹوئٹ پیغامات میں اس پر تبصرہ کرنا ضروری سمجھا ہے۔

میجر جنرل آصف غفورنے لکھا ہے کہ ’’حسین حقانی نے امریکی اخبار میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے، اس سے پاکستانی اداروں (فوج و انٹیلی جنس) کی پوزیشن کی تصدیق ہوئی ہے۔ اس طرح ان کے کردار کے بارے میں تشویش کی بھی تصدیق ہوتی ہے۔‘‘ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی طرف سے یہ بیان نہ بھی جاری ہوتا تو بھی اس ملک میں بلکہ بیرون ملک تمام اہم دارالحکومتوں میں یہ بات سب کے علم میں ہے کہ پاکستانی سیاست میں فوج اہم رول ادا کرتی ہے۔ اور اہم قومی معاملات میں فوج اپنی رائے کو منتخب حکومتوں سے بہتر سمجھتے ہوئے، انہیں منوانے کی سعی کرتی ہے۔ تاہم جب ایک قصہ پارینہ کے حوالے سے فوج نے ایک بار پھر ملکی سیاست میں اپنی اہمیت جتوانے کی کوشش کی ہے تو ملک کے سیاسی حلقوں کو چوکنا ہونا چاہئے کہ فوج اہم قومی امور کی نگرانی کرنا اپنے فرائض منصبی کا حصہ سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف خارجہ وسلامتی امور میں فوج کی رائے و مشورہ کو حکم کا درجہ حاصل ہو چکا ہے بلکہ گزشتہ فوجی حکومت کے رخصت ہونے کے بعد سے جو دو سول حکومتیں ملک میں آئی ہیں، ان کا زیادہ وقت اور صلاحیت فوج کے ساتھ تعلقات میں توازن قائم رکھنے اور اسے یہ یقین دلانے میں صرف ہوا ہے کہ وزیراعظم ضرور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر برسراقتدار آئے ہیں لیکن کشمیر کا معاملہ ہو، بھارت کے ساتھ تعلقات ہوں، افغانستان کے ساتھ معاملات طے کرنے کی بات ہو یا امریکہ کے ساتھ مراسم کی نوعیت ہو۔۔۔۔ سول حکومت صرف وہی لب و لہجہ اختیار کرے گی اور انہی خطوط پر پالیسی استوار کی جائے گی جن کا اشارہ و رہنمائی فوجی قیادت کی طرف سے موصول ہوگا۔

یہ افسوسناک صورت حال ہے۔ جب تک ملک کی فوج خود کو عوام کی رائے سے منتخب ہونے والے لوگوں سے بہتر و بالا سمجھتی رہے گی اور جب تک اس ملک کے سیاستدان پارلیمنٹ کو مکمل بااختیار بنانے کی کوشش نہیں کریں گے، اس وقت تک ملک میں جمہوری تقاضوں کی تکمیل کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے یہ اہم ہے کہ وہ وزیراعظم نواز شریف ہوں یا سابق صدر آصف زرداری، وزیر داخلہ چوہدری نثار ہوں یا سابق وزیر رحمان ملک، اگر وہ ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے کے لئے کوئی بھی بیان دینے اور کوئی بھی الزام لگانے سے باز نہیں رہ سکتے تو وہ تمام تر دعوؤں کے باوجود اس ملک میں جمہوریت کے لئے راہ ہموار نہیں کر سکیں گے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کثیر تعداد میں نشستیں حاصل کرنے کے باوجود ان کی حیثیت میونسپل کارپوریشن کے سیاستدانوں ہی کی رہے گی جو سرکاری فنڈز صرف کرکے مختلف علاقوں میں مقبولیت حاصل کرنے اور عوام سے رشتہ استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن پالیسی سازی اور امور مملکت میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ملک کے فوجی حکمران بلدیاتی ادارے استوار کرنے اور ان کے ذریعے عوامی رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس تصویر کا مضحکہ خیز اور عبرتناک پہلو یہ بھی ہے کہ جب فوج حکمران نہیں ہوتی اور سیاستدان بلدیاتی اداروں کو بااختیار نہیں کرتے تو قومی لیڈروں کو بلدیاتی رہنماؤں کا کردار ادا کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ اور انہی بے اختیار عہدوں کے حصول کے لئے خود کو سیاسی افلاطون یا سیاست کا بادشاہ گر سمجھنے والے لیڈر بھی، اس کردار میں خوش رہنے لگتے ہیں اور اسے حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے اور مخالفین کو بے توقیر کرنے کا ہر حربہ آزمانے کے لئے تیار بھی رہتے ہیں۔ حسین حقانی کے مضمون کے بعد سامنے آنے والی صورت حال نے اسے مزید واضح کر دیا ہے اور آج میجر جنرل آصف غفور کے بیان نے اس کی تصدیق بھی کر دی ہے۔

حسین حقانی کو ایک غیر معروف امریکی پاکستانی منصور اعجاز کے ایک الزام کے نتیجے میں مطعون کیا جاتا رہا ہے۔ اس شخص نے الزام لگایا تھا کہ حسین حقانی ایک میمو ان کے ذریعے امریکی ایڈمرل مائیک ملن تک پہنچانا چاہتے تھے، جس میں مبینہ طور پر امریکہ سے فوج کے مقابلے میں پاکستان کی سویلین حکومت کی حمایت کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔ منصور اعجاز کبھی پاکستانی عدالت میں بیان دینے کے لئے نہیں آیا اور اس میمو اسکینڈل کے حوالے سے بدستور دو مختلف آراء موجود رہی ہیں۔ ایک رائے میں میمو اسکینڈل دراصل پیپلز پارٹی کی حکومت کو کمزور اور فوج کی بالادستی قائم کرنے کی سازش تھی۔ اس حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے 2 مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں حقانی کے ذریعے امریکی امداد حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ حالانکہ اسامہ بن لادن کو مارنے کی امریکی کارروائی میں اگر کوئی ادارہ ناکام ہوا تھا تو وہ ملک کی فوج اور انٹیلی جنس ادارے ہی تھے۔ اس کے باوجود اگر یہ الزام درست ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فوج سنگین غلطی کرنے کے باوجود ملک کی سیاسی حکومت کو دباؤ میں لانے کا ہر ہتھکنڈہ اختیار کرنے پر تیار رہتی ہے۔

آئی ایس پی آر نے حسین حقانی کو ملکی مفادات کا مجرم قرار دینے کے حوالے سے جو بیان دیا ہے، اسے صرف اسی صورت میں اہمیت دی جا سکتی ہے اگر فوج نے کبھی اپنے کمانڈروں کی اسی قسم کی غلطیوں کے بعد کوئی قدم اٹھانے اور ان غلط فیصلوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہو۔ ملک کی پارلیمنٹ اور عدالتیں اس بات کا تعین کر سکتی ہیں کہ سابقہ حکومت کو کس حد تک اپنے سفیر کو ویزے جاری کرنے کا اختیار دینے کا حق حاصل تھا۔ لیکن جب فوج ایک منتخب حکومت کے اس اختیار کے استعمال کو قومی سلامتی کے خلاف قرار دے رہی ہے تو اسے پہلے اپنے ہی سابقہ آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے عہد میں پاکستان کی سرزمین پر امریکہ کو دی گئی غیر معمولی دسترس کے حوالے سے بھی کوئی دوٹوک موقف اختیار کرنا چاہیے۔

پرویز مشرف پر ملک کے آئین سے غداری کا مقدمہ قائم ہے لیکن اس ملک میں آئین کی حفاظت کی ذمہ دار فوج کے ہی ایک سابق سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف نے انہیں بحفاظت ملک سے باہر بھجوانے اور اس عدالتی کارروائی سے تحفظ فراہم کرنے کے لئے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا تھا۔ اور حکومت کو ایک ناپسندیدہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ فوج اگر اپنے سابقہ جرنیلوں کی بے قاعدگیوں کا جائزہ لینے کو تیار ہو تب ہی وہ ملک کی جائز سیاسی حکومتوں کے غلط یا درست فیصلوں پر رائے دیتی اچھی لگے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali