کیا ادیب سماجی تبدیلی لانے کے لیے لکھتے ہیں؟


 مجھ سے میرے ایک ادیب دوست نے پوچھا کہ ایک ادیب سماجی تبدیلی میں کیا کردار ادا کرتا ہے؟ میں نے اس سے کہا کہ میں اس سوال کو جواب دو حوالوں سے دے سکتا ہوں۔ ذاتی حوالہ اور نظریاتی حوالہ۔

ایک ادیب ہونے کے ناطے میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنے سچ کی تلاش میں نکلا ہوا مسافر ہوں جو اپنے سچ کے تخلیقی اظہار کی مختلف اصناف میں کوشش کرتا رہتا ہے۔ اگر میں اپنے سچ کے تخلیقی اظہار میں کامیاب ہوا تو عین ممکن ہے کہ میری تخلیقات میرے قارئین اور سامعین کو اپنے سچ کی تلاش کے سفر پر آمادہ کر سکیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ میری طرح دوسرے شاعر اور ادیب بھی اپنے سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے مسافر ہیں۔ جب کوئی شاعر یا ادیب اپنے سچ کا تخلیقی اظہار کر رہا ہوتا ہے تو وہ اس بات سے بالکل بے خبر ہوتا ہے کہ اس کی تخلیقات اس کے معاشرے میں کیا انفرادی‘ سماجی یا سیاسی تبدیلی لائیں گی۔ اگر وہ ادیب قد آور ہے تو زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی تخلیقات کو پسند کریں گے اور زندگی کے بارے میں اس کے نظریے کو مشعلِ راہ بنائیں گے۔ اگر وہ شاعر اور ادیب بڑا ہے تو اس کی تخلیقات اس کے عہد کی ترجمانی کریں گی اور اس کا تخلیق کردہ ادب اس عہد کا نمائندہ ادب کہلائے گا۔ اردو میں ایسے شاعروں کی مثالیں میر تقی میرؔ اور مرزا غالبؔ اور افسانہ نگاروں میں سعادت حسن منٹو اور عصمت چختائی ہیں۔ یہ ادیب اپنے عہد کے نمائندہ ادیب سمجھے جاتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا میر‘ غالب‘ منٹو اور عصمت نے شعوری طور پر یہ کوشش کی تھی کہ ان کا تخلیق کیا ہوا ادب ایک سماجی تبدیلی لائے یا یہ تبدیلی لاشعوری طور پر آئی تھی۔ میری نگاہ میں وہ شاعر اور ادیب جو شعوری طور پر یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی تخلیقات سماجی اور سیاسی تبدیلیاں لائیں وہ بعض دفعہ شاعر اور ادیب سے زیادہ سیاسی کارکن بن جاتے ہیں۔ اگر ان کی تخلیقات میں فنی محاسن موجود ہیں تو وہ ایک کامیاب شاعر اور ادیب WRITERبھی بن سکتے ہیں اور کامیاب سیاسی کارکن SOCIAL ACTIVIST بھی۔

میرا خیال ہے کہ بنیادی طور پر کسی ادیب اور سیاسی کارکن کی دنیائیں جدا ہیں۔ اگر کوئی ان دونوں دنیائوں میں کامیاب ہونا چاہتا ہے تو اسے دوہری مشقت‘ ریاضت اور محنت کی ضرورت ہے۔ بعض دفعہ ایک دنیا کے مسائل دوسری دنیا کو متاثر کر سکتے ہیں۔ بعض دفعہ کامیاب سیاسی کارکن ہونے اور انقلاب لانے کے لیے انسان کو نعرہ بازی کرنی پڑتی ہے اور اس سے ایک ادیب اور شاعر کی تخلیقیت بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔

ایک ادیب اور شاعر کی دنیا خیالوں کی تصوراتی دنیا ہے۔ اس دنیا میں زندہ رہنے کے لیے وہ زندگی کی گہما گہمی سے عارضی طور پر علیحدہ ہوکر یکسوئی چاہتا ہے۔ اپنی ذات کی گہرائیوں میں اترتا ہے‘ لاشعور کے سمندر سے گوہرِ نایاب تلاش کرنے کے بعد سطح پر آتا ہے اور پھر اس گوہر کو ایک غزل‘ نظم‘ افسانے یا مضمون کی صورت میں پیش کرتا ہے۔ اس فن پارے کی تخلیق کے بعد وہ خود بھی اپنی تخلیق کا قاری بن جاتا ہے۔

کسی شاعر یا ادیب کی تخلیقات اوروں کا سماجی شعور بڑھا بھی سکتی ہیں‘ وہ انہیں سیاسی تبدیلی لانے پر اکسا بھی سکتی ہیں اور اس کی غزلیں اور نظمیں کسی سیاسی پارٹی کے منشور میں شامل بھی ہو سکتی ہیں لیکن اکثر شاعر یا ادیب خود کسی سیاسی پارٹی کا ممبر بننا پسند نہیں کرتے۔ بعض تو اسے کوئلوں کا کاروبار سمجھتے ہیں اور ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں ان کا منہ کالا نہ ہو جائے اور ان کے الفاظ کی حرمت پر حرف آئے۔ وہ کسی ایک سیاسی پارٹی کے موقف کی بجائے پورے معاشرے اور پوری انسانیت کے مسائل پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔

ادیب اور شاعر کے مقابلے میں ایک سیاسی کارکن کسی سیاسی یا نظریاتی پارٹی کا رکن بنتا ہے اور شعوری طور پر ان کاروائیوں میں شریک ہوتا ہے جو سماجی تبدیلیاں لاتی ہیں چاہے وہ اصلاحات کا حصہ ہوں یا انقلاب کا۔ سیاسی کارکن شاعر اور ادیب کی طرح تنہائی اور یکسوئی نہیں چاہتا بلکہ زندگی کی گہما گہمی کو گلے لگاتا ہے اور ان تمام معاشی‘ معاشرتی اور سیاسی تبدیلیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرتا ہے جن سے شاعر کتراتا ہے۔ بہت سے سیاسی کارکن اپنے پسندیدہ ادیبوں اور فلسفیوں کے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

انسانی تاریخ میں ایسے موڑ بھی آتے ہیں جہاں ادیب اور سیاسی کارکن مل کر کام کرتے ہیں۔ میری نگاہ میں اگر ادیب کہانی کاروں کی طرح ہوتے ہیں تو سیاسی کارکن ایکٹروں کی طرح اور سیاسی رہنما ڈائرکٹروں کی طرح۔ اکثر اوقات کہانی کار فلم کے لیے سکرین پلے لکھ کر اسے پروڈوسروں‘ ڈائرکٹروں اور ایکٹروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ بہت کم لکھاری اپنی کہانی کو خود ڈائرکٹ کرتے ہیں یا اپنی فلم میں ایکٹر بنتے ہیں۔ لیکن بعض نابغہِ روزگار ایسے بھی ہیں جنہوں نے فلم کی کہانی بھی لکھی‘ ڈائرکٹ بھی کیا اور اس میں ایکٹنگ بھی کی۔ ایسا کرنے کے باوجود فلم دیکھنے والے کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایکٹر سے بہتر لکھاری ہے یا لکھاری سے بہتر ڈائرکٹر ہے۔ کسی ایک شخص کا فنونِ لطیفہ میں ہر فن مالا ہونا ناممکن ہونا نہیں تو دشوار ضرور ہے۔ کہنے کو تو ایک ادیب ایک سیاسی کارکن بھی ہو سکتا ہے اور ایک انقلابی ایک شاعر بھی ہو سکتا ہے لیکن اس کا دونوں دنیائوں میں کامیاب ہونا بہت مشکل ہے۔

میری نگاہ میں کسی عہد کے ادب میں صرف شاعری‘ افسانے‘ ناول اور ڈرامے ہی شامل نہیں ہوتے بلکہ مختلف سماجی موضوعات بھی ہوتے ہیں۔ میں پچھلی دو صدیوں میں چارلز ڈارون‘ سگمنڈ فرایڈ‘ کارل مارکس‘ البرٹ آئن ستائن اور سٹیون ہاکنگ کی تخلیقات کو بھی ادب کا حصہ سمجھتا ہوں۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ سگمنڈ فرائڈ کو اپنی زندگی میں نفسیات کا ایوارڈ تو نہیں ملا لیکن گوئٹے کا ادبی نعام ملا تھا۔

ڈارون‘ آئن سٹائن اور فرائڈ نے مارکس‘ لینن‘ چے گوارا اور ماؤزے تنگ کی طرح سیاسی اور معاشی انقلاب کی بنیادیں نہ رکھی ہوں لیکن وہ بھی انقلابی تھے۔ان کے انقلاب انسانی ذہن کے انقلاب تھے۔ ان کے انقلاب داخلی انقلاب تھے جو خارجی انقلاب کی بنیادیں استوار کرتے ہیں۔ اگر وہ بنیادیں مضبوط نہ ہوں تو خارجی انقلاب کی عمارت کمزور اور متزلزل رہتی ہے اور اگر وہ بنیادیں مضبوط ہوں تو لوگ داخلی طور پر آزاد ہو جاتے ہیں اور ذہنی اور نفسیاتی طور پر آزاد انسانوں کو کوئی سیاسی یا مذہبی رہنما‘ کوئی جرنیل یا شہنشاہ غلام نہیں بنا سکتا۔

شاعر‘ادیب اور فلسفی عمر بھر اپنے سچ کا تخلیقی اظہار کرتے رہتے ہیں اور ان کا سچ پہلے سماجی شعور میں اضافہ کرتا ہے ‘ پھر ارتقا میں مدد کرتا ہے اور آہستہ آہستہ انقلاب کی راہ ہموار کرتا ہے۔ اگر وہ انقلاب فطری ہے تو کامیاب ہوتا ہے اور داخلی و خارجی‘ سماجی اور سیاسی‘ نفسیاتی اور معاشرتی طاقتیں مل کر کام کرتی ہیں اور انسانیت کے کارواں کو ترقی اور ارتقا کے سفر میں نئی منزل تک لے جاتی ہیں لیکن اگر وہ تمام تبدیلیاں متضاد ہوں تو یا تو اس انقلاب کا اسقاط ہو جاتا ہے اور یا وہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہتا۔

میری نگاہ میں شاعر اور ادیب‘ فلسفی اور سیاسی رہنما ایک ہی قافلے کے مسافر ہیں اگر وہ مل کر کام کریں تو ایک صحتمند اور دیر پا سماجی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ جن قوموں کو نیلسن منڈیلا اور ہوچی منہ جیسے سیاسی رہنما اور شیخ سعدی اور والٹ وٹمین جیسے شاعر ملے ان کا سیاسی شعور بھی بلند ہوا اور ان میں سماجی تبدیلیاں بھی آئیں۔

ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ کیا ہمارے عہد کے شاعر‘ ادیب اور سیاسی رہنما مخلص اور سچے ہیں؟ ان میں سے بعض الفاط کا جادو جگا کر لوگوں کو محظوظ تو کر سکتے ہیں لیکن اپنے کرداروں سے عوام کا دل نہیں جیت سکتے۔ ان کی شخصیت میں اتنی عظمت نہیں ہوتی کہ لوگ ان سے محبت کر سکین ‘ ان کا احترام کر سکیں اور ان کو دل و جان سے اپنا قائد مان سکیں۔ میرا خیال ہے کہ ہر عہد اور ہر معاشرہ مخلص شاعروں‘ فردا کے خواب دیکھنے والے ادیبوں اور ان خوابوں کو شرمندہِ تعبیر کرنے والے سیاسی رہنمائوں کی راہ تکتا ہے۔ انسانیت کے ارتقا کے سفر میں۔۔۔ جو بڑھ کر تھام لے مینا اسی کا ہے

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 681 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail