یا خدا، بھارتی مسلمانوں کو دو قومی نظریے سے محفوظ رکھ


ہم تو مرد مومن مرد حق کو کافی بھگت چکے ہیں اور پاکستان میں حالات اب بہتری کی طرف پلٹنے ہی کو ہیں۔ ہمارے وزیراعظم اور نئے آرمی چیف نے ہم سب کا پاکستان ہم سب کو لوٹانے کے امید افزا اشارے دئے ہیں۔ حالات اسی طرح چلتے رہے تو بحالی کا آغاز دور نہیں۔ لیکن باقی دنیا میں مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔ قدامت پسند اور مذہبی جنونی سیاست دانوں نے پچھلے چند برس میں کئی بڑے میدان مار لئے ہیں۔ انڈیا میں مودی، امریکہ میں ٹرمپ اور ترکی میں اردوان کے الیکشن جیتنے سے یورپ میں بھی قدامت پسندوں اور مذہبی امتیاز برتنے کے حامی انٹی لبرل گروہوں کی امید بندھی۔ یورپ تو خیر جلدی سنبھلنا شروع ہو گیا ہے۔ آسٹریا اور نیدرلینڈ کے ووٹر نے بہتر ویژن کا مظاہرہ کیا اور قدامت پسندوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن انڈین ووٹر ابھی تک قدامت پسند مذہبی جنونیوں کے دھوکے سے نہیں نکل سکا اور یہ بہت خطرناک بات ہے کیونکہ دنیا کی آبادی کا پانچواں حصہ انڈیا میں مقیم ہے۔

انڈیا کی کل آبادی ایک ارب تینتیس کروڑ ہے اور اس میں انیس کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔ انڈین سٹیٹ اتر پردیش کی آبادی بائیس کروڑ چالیس لاکھ ہے۔ اور اس میں مسلم آبادی تین کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ یو پی میں چند دن قبل الیکشن میں قدامت پسند، شخصی آزادی مخالف مذہبی جنونی، بی جے پی، بھاری اکثریت سے جیتی ہے۔ اس جیت کے نتیجے میں یوگی آدتیہ ناتھ نئے وزیر اعلی بنے ہیں تو دنیا چونک گئی ہے کیونکہ موصوف ایک مذہبی جنونی کے طور پر بدنام ہیں۔ ان کے مذہبی جنونی خیالات کسی سے چھپے ڈھکے نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ مذہبی جنونی صرف جنونی ہوتے ہیں۔ مذہب کون سا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

یوگی جی مودی جی کی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ صرف ہندو ہی سچا مذہب ہے۔ اس لئے کسی کو بھی یہ مذہب چھوڑنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔ یعنی وہ ارتداد (اپنا مذہب چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب اختیار کرنا یا بغیر کسی مذہب کے رہنا) کے سخت مخالف ہیں۔ وہ مذہب کو ذاتی معاملہ نہیں سمجھتے۔ ان کے خیال میں انڈیا میں پیدا ہونے والے یا رہنے والے سب ہندو ہیں اور انہیں اچھے ہندوؤں کی طرح ہی رہنا چاہیئے۔ وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انڈیا میں رہنے والے جو لوگ ہندو مذہب چھوڑ کر کسی اور مذہب میں شامل ہو گئے انہیں یعنی ان کی اولادوں کو واپس ہندو مت قبول کر لینا چاہیئے۔ یہ بات خاص طور پر مسلمانوں اور مسیحیوں کے لئے کہی جاتی ہے۔

وہ اس بات کے قائل ہیں کہ مذہبی اقلیتوں کو اکثریتی مذہب کے برابر حقوق نہیں ملنے چاہیئے۔ یہ ہندوستان ہے۔ اگر کوئی شخص ہندو بن کر نہیں رہنا چاہتا تو جائے کہیں اور جا کر رہ لے۔ ہندوستان تو ہندوؤں کے لئے بنا ہے اور یہاں انہی کا حق ہے۔

وہ اس بات کے قائل ہیں کہ ان کے مندر انسانی جانوں سے محترم ہیں۔ وہ مندر جو سیکڑوں سال پہلے دوسرے مذاہب کے حملہ آوروں نے ڈھا دئے تھے انہیں بھی دوبارہ بنانا ضروری ہے چاہے اس کے لئے انسانی جانوں کے نذرانے ہی کیوں نہ پیش کرنے پڑیں۔

اور تو اور، یوگی جی کی حکومت قائم ہوتے ہی تین دن کے اندر “انٹی رومیو سکواڈ” سرگرم عمل ہو گئے ہیں اور انہوں نے پارکوں میں بیٹھے ہوئے نوجوان جوڑوں کو ہراساں کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ نقطہ کانگریسی ایم پی محترمہ رنجیتا رنجن نے لوک سبھا دہلی میں اٹھایا ہے۔ یہ یوگی جی تو ہم پاکستانی مسلمانوں کے ساتھ غیرت میں بھی برابری کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ہم پاکستانی مسلمانوں کے لئے یہ بات انتہائی حیران کن ہو گی کیونکہ ہم تو سمجھتے ہیں کہ “غیرت” جیسی پاکیزہ روایت پر ہمارا ہی اجارہ ہے۔ کسی اور مذہب کے پیروکار کا “غیرت” سے کیا کام۔

یوگی جی پر فرقہ واریت ابھارنے کے الزامات ہیں اور اس سے وہ کچھ انکار بھی نہیں کرتے کیونکہ یہ ان کے لئے شرمندگی کی بجائے فخر کی بات ہے۔ وہ کھلم کھلا کہتے ہیں کہ اگر ایک ہندو لڑکی نے مذہب بدل کر کسی مسلمان لڑکے سے شادی کی تو وہ سو مسلمان لڑکیوں کا مذہب بدلوا کر بدلہ لیں گے۔

غرضیکہ وہ ایک خطرناک مذہبی جنونی ہیں۔ سیکولرازم کے سخت خلاف ہیں اور ان کے خیال میں ریاست کا بھی مذہب ہونا چاہیئے۔ ان کے ہاں انسانی جان اور انسانی حقوق کی وہ اہمیت نہیں جو مندروں، مورتیوں کے احترام اور مذہبی عبادتوں کی ہے۔ مثلا وہ یوگا کو فرضی عبادت سمجھتے ہیں اور اس سے انکار کی کسی ہندو یا غیر ہندو کو اجازت نہیں دیتے۔ وہ سارے قدامت پسند مذہبی لوگوں کی طرح شخصی آزادی کے سخت خلاف ہیں اور انسانوں کی ذاتی زندگیوں میں مداخلت کر کے لوگوں کو گناہوں سے بچانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ مکمل سختی اور شدید تشدد کا استعمال بھی جائز سمجھتے ہیں۔

وہ انسانوں کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہیں۔ شدید خطرہ ہے کہ وہ اپنی ریاست اترپردیش میں اپنا دو قومی نظریہ لے کر چلیں گے۔ جو کہ ساری اقلیتوں کے لئے عام طور پر اور مسلمانوں کے لئے خاص طور پر بہت ہی خطرناک ہو گا۔ انتہائی تشدد کا خطرہ بہت بڑہ گیا ہے۔ میرے منہ میں خاک لیکن بدترین نسل کشی کے امکانات بھی موجود ہیں۔ ساری دنیا میں انسانی حقوق کے ماننے والوں نے اس خدشے کا اظہار کر دیا ہے۔ اتر پردیش کی سب سے بڑی اقلیت، تین کروڑ مسلمان اس خطرے کی زد میں ہیں۔ ہم پروردگار کے حضور دعا کرتے ہیں کہ اتر پردیش کی اقلیتیں خاص طور مسلمان اپنے نئے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے دو قومی نظریے سے محفوظ رہیں۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik