باشرع ٹیکسی ڈرائیور، بے پردہ لڑکیاں اور کرائے میں برکت


کار نہیں ہے۔ یعنی زندگی بے کار ہے۔ ٹیکسیوں کا آسرا سہارا ہے۔ دفترتک معمول کا کرایہ ڈھائی سو بنتا ہے۔ صبح نو بجے تک ایک آنکھ سے جاگ رہا ہوتا ہوں اور ناشتہ بھی نہیں کیا ہوتا، تو تین سو کے تقاضے پر بھی تکرار نہیں کرتا۔ البتہ بات تین سو سے آگے نکل جائے تو دماغ کے خفتہ وخوابیدہ خلیوں کو جگانے کے لیے کڑک چائے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

آج ایک ٹیکسی والے کو زحمت دی۔ حلیے سے شرعی کوائف مکمل تھے۔ تلاوت کلام پاک لگارکھی تھی۔ صوفیانی سی مسکراہٹ بکھیر کرمیرا استقبال کیا۔ دفتر کاپتہ بتایا، اشارے سے کہا بیٹھ جائیں، میں بیٹھ گیا۔ بنا بھاؤ تاؤ کے یوں بیٹھ جانے کی حماقت میں نے ترک کی ہوئی ہے، مگر چونکہ ہاتھ میں ان کے تسبیح ٹک ٹک گھوم رہی تھی اور ہونٹوں سے کسی ورد کی سین سیٹی تکرار کے ساتھ سنائی دے رہی تھی اس لیے مناسب نہیں جانا کہ وظیفے میں کوئی خلل پڑے۔

آپ دفتر اور کلاس کے لیے یا پھر کسی کلموہی سے ملاقات کے لیے لیٹ ہورہے ہوں تو ریل موافق رفتار بھی آپ کو کم محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہاں معاملہ یہ تھا کہ گاڑی کی رفتار تسبیح کے گھومتے دانوں اور تکرار سے سنائی دینے والی سین سیٹی کی رفتار سے بھی کم تھی۔ اوپر تلے سنائی دینے والی سین سے ظاہر ہوتا تھا کہ وظیفے میں سبحان اللہ اور استغفر اللہ بطور خاص شامل ہیں۔ تین بار مختلف مواقع پر باواز بلند انہوں نے لاحول ولاقوہ کا اضافہ بھی کیا۔ میرا گمان تھا کہ یہ بھی وظیفے کا حصہ ہے، مگر جناح ایونیو پہنچ کر انہوں نے تاسف بھرے لہجے میں لاحول پڑھا اور ساتھ ہی کہا

“خدا کا عذاب کیوں نہ آئے”

مجھے لگا کہ بدھا کی مانند خاموش بیٹھے مجھ مسافر کے آپے سراپے سے کوئی خلاف شرع پہلو ظاہر ہوگیا ہے۔ اخلاقیات کا پاس لحاظ رکھتے ہوئے میں نے پوچھا

“کیوں، خیریت کیا ہوا؟”

کہنے لگے

“مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ ماں باپ اپنی بیٹیوں کو یوں بے پردہ کیسے اکیلے دفتروں کالجوں میں جانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ اور یہ ان کا لباس دیکھ رہے ہو آپ۔؟ لاحول ولا”

میں نے تائید میں سر ہلایا اور کہا

“بزرگوار معاشرہ بہت بے حس ہوگیا ہے۔ والدین کے دل سے خوف خدا نکل گیا ہے۔ یہ خیال ہی رخصت ہوگیا ہے کہ ہم نے ایک دن مرنا ہے اور آگے جاکر خدا کو جواب دینا ہے. اور پھر ہر باپ آپ کی طرح اور میری طرح غیرت مند بھی تو نہیں ہوتا”

میری رائے جان کرلحظہ بھر کو مجھے گھورا۔ جیسےکہہ رہے ہوں کہ یہ میرا غیرت مند ہونا تو چلو سمجھ آتا ہے، مگر یہ تم نے خود کو کس برتے پر اس صف میں شامل کرلیا۔ لیکن یہ لحظہ بھر کی نگاہ انہوں نے کچھ اس ادا سے ہٹائی جیسے یکایک احساس ہوا ہو کہ اس جہانِ بے ثبات میں تو کچھ بھی ممکن ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ بھی غیرت مند ہو۔

ابھی ہم دونوں معاشرے میں آئے روز بڑھتی ہوئی فحاشی، عریانی، بے حیائی اور والدین کی بے حسی پر فکرمندی کا اظہار کررہے تھے کہ دفتر کا دروازہ آگیا۔ میں نے پوچھا

“جی بزرگوار، کتنے روپے ہو گئے۔؟”

ساعت بھر کا توقف کر کے بولے

“ساڑھے چار سو روپے”

کرایہ سن کر مجھ غریب کے چودہ طبق اس گھن گرج سے روشن ہوئے کہ ہر منظر چندھیا کر رہ گیا۔ پورے رکھ رکھاؤ کے ساتھ میں نے کہا

“یہ کچھ زیادہ نہیں ہو گئے؟”

مسکرا کر کہنے لگے

“بے فکر رہیں، بالکل مناسب ہے”

میں جی ہی جی میں غیرپارلیمانی پشتو میں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے ساڑھے چار سو دینے پر آمادہ ہوگیا، مگر یہ پوچھنا ضروری سمجھا کہ بزرگوار، کہیں آپ بے پردگیوں کی سزا مجھے تو نہیں دے رہے؟ فورا قہقہاتے ہوئے بولے، چلیں آپ چار سو دے دیں اللہ مالک ہے۔ پانچ سو کا نوٹ میں نے تھما دیا۔ نوٹ اپنے ورد آفرین ہونٹوں میں اٹکا کر شلوار کی جیب سے بقایا نکالتے ہوئے زیرلب بلغمی سُروں کے ساتھ بارگاہ ایزدی میں التجا کی

“یا اللہ تو اپنے فضل سے اس میں برکت ڈال دے”

صبر بہت پایا ہے مگر رہا نہیں گیا۔ ترنت میں نے کہا، برکت تو آپ نے ڈال دی ہے، اب اللہ پاک کے لیے کرنے کو کیا رہ گیا اس میں. بھنا کر بولے، کیا مطلب۔؟ عاجزی سے میں نے کہا، کچھ نہیں بزرگوار، بس ویسے ہی میں نے کہا کہ فحاشی بہت بڑھ گئی ہے، تو خدا کا عذاب کیوں نہ آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).