تاریخ کے فیصلے کا ابھی وقت نہیں آیا


آج کل پاکستان کی سیاست، پارلیمان، میڈیا اور گلی کوچوں میں ایک ہی موضوع زیر بحث ہے، پانامہ اور اس کا فیصلہ۔ ایک دانشور کا کہنا ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد پاناما سب سے بڑا واقعہ ہے اس کا فیصلہ قوم کی اجتماعی سوچ کو بدل کر رکھ دے گا۔ میڈیا کے پیراشوٹر اینکرز اچھل اچھل کر تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں کہ  پہلی دفعہ ایک وزیراعظم احتساب کے لئے عدالت کے کٹہرے میں آگیا ہے۔ فیصلے سے پہلے فیصلہ میڈیا پر سنا بھی دیا گیا ہے۔ ایک سیاست دان کا کہنا ہے کہ اگر تاریخی فیصلہ نہ آیا تو ملک میں خانہ جنگی ہوجائے گی۔ اب تاریخی فیصلہ وہ کس کو سمجھتے ہیں اس کی تشریح ابھی ہونا باقی ہے۔

ان سب دانش وروں کے ریکارڈ کے لئے کہ یہ اس ملک میں پہلی دفعہ نہیں ہو رہا۔ کسی وزیراعظم کا عدالت میں آنا کوئی نئی روایت نہیں۔ اس ملک میں صرف سیاست دانوں کا ہی تو احتساب ہوتا ہے۔ اس ملک میں صرف سیاست دان ہی تو جیل جاتے ہیں۔ اس ملک میں ماربھی سیات دان ہی کھاتے ہیں۔ اس ملک میں جلا وطن بھی سیاست دان ہی ہوتے ہیں۔ کیا کوئی آمر آج تک آئین اور قانون توڑنے کے جرم میں جیل گیا ہے؟ کیا کسی آمر کو آج تک کوئی عدالت طلب کرسکی ہے؟ کیا کسی کی جرات ہوئی ہے کہ ایک آمر سے سوال کرسکے آپ تو کمر کا علاج کروانے گئے تھے اب یہ ٹی وی پر پروگرام اور کلبوں میں ڈانس کیا اس علاج کا حصہ ہے؟ عدالت کے بار بار بلانے کے باوجود کیا اس آمر نے جواب دینے کی بھی زحمت کی ہے۔

اسی ملک میں ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی گئی۔ اس ملک میں ایک منتخب وزیراعظم کوایک جھوٹے طیارہ سازش کیس میں پھنسوا کر سزائے موت سنائی گئی پھر اس کو عمر قید میں بدل دیا گیا اور آخر میں دس سال کی جلا وطنی۔ اسی ملک میں ایک وزیراعظم کو سوئس حکومت کو خط نہ لکھنے پر نااہل کیا گیا۔ اسی ملک میں ایک وزیراعظم جلاوطنی کاٹ کر آئی اور قتل کردی گئی۔ اسی ملک میں ایک آمر نے سیاست دانوں پر جھوٹے مقدمات بنا کر جیلوں کو بھر دیا اور وہاں وہ بدترین تشدد کا نشانہ بنتے رہے۔ اسی ملک میں ایک سیاستدان غداری کے مقدمے اپنی زندگی کے بہترین سال جیل میں گزار آیا۔ کیا اسی ملک میں آئین اور قانون توڑنے پر کسی آمر کو سزا دینے کی روایت موجود ہے؟ کیا کوئی ایک دن بھی انہوں نے جیل میں گزارا؟ کیا کسی ایک دن بھی وہ تشدد کا نشانہ بنے۔ اسی ملک کے آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت آئین کو توڑنا غداری کے زمرے میں آتا ہے لیکن کسی نے جرات کی اس پر بات کرنے کی؟ کیا کسی عدالت نے طلب کیا ۔ کیا کسی عدالت نے سزا دی۔

جب ایک منتخب وزیرعظم یہ کہتا ہے کہ بزنس ڈیل کے نیتجے میں فلیٹس ملیں۔ تو کون سے گھٹیا مذاق ہیں جو اس وزیراعظم اور اس کے خاندان سے منسوب نہ کئے گئے ہوں۔ لیکن جب ایک آمر اپنے فلیٹس کے بارے میں کہتا ہے کہ سعودی بادشاہ نے تحفہ دیئے ہیں اور کسی مائی کے لال کی جرات نہیں اس پر بات کرسکے۔۔۔ تو واقعی کسی مائی کے لال کو جرات نہیں ہوئی کہ اس پر بات کرسکے۔ نہ اس نام نہاد دانشور کو جو قوم کی اجتماعی سوچ کا تعین کرتا ہے اور ہر وقت اس قوم پر تبرا بھیجتا رہتا ہے۔ نہ ان پیراشوٹ اینکرز کو جو ہر وقت احتساب اور کرپشن کا رونا روتے ہیں کہ سیاستدان اس ملک کو لوٹ کر کھا گئے جن کے دل سے ڈان لیکس کا غم نکلتا ہی نہیں۔ نہ اس انقلابی لیڈر کو جو ملک میں کرپشن کے خلاف ایک علامت مانا جاتا ہے۔ وہ کیوں بات کرے گا ظاہر ہے کہ کسی آمر کو سزا ملنے سے اس  انقلابی لیڈر کو اقتدار تو نہیں مل جانا۔

وزیراعظم تو احتساب کے لئے پیش ہوگیا۔ اس نے عدالت پر سوال اٹھایا اور نہ کیس کے قابل سماعت ہونے پر سوال اٹھایا۔ اپنے مرے ہوئے باپ کو بھی احتساب کے لئے پیش کردیا۔ نسلوں کی جائیداد کا ریکارڈ بھی دے دیا۔ کیا اس آمر کا احتساب کوئی کرے گا؟ کیا وہ انقلابی لیڈر جو لوگوں کے سامنے دعوے کرتا ہے کہ میں ایک وزیراعظم کو عدالت لے گیا، اس آمر  کو عدالت کے کٹہرے میں لاکر احتساب کے لئے کھڑا کرے گا کھی اس سے اس کی جائیداد کے بارے میں سوال کرے گا۔ وہ ایسا نہیں کرے گا کیونکہ بقول اس آمر کے، کسی مائی کے لال کی جرات نہیں کہ مجھ سے سوال کر سکے۔۔۔ تو مائی باپ بالکل درست فرماتے ہیں کسی کو جرات نہیں۔

اس ملک میں سقوط ڈھاکہ کے بعد پانامہ کا کیس بڑا واقعہ نہیں بلکہ ایک آمر پر آرٹیکل چھ کے تحت چلنے والا مقدمہ بڑا واقعہ تھا۔ اگر اس مقدمے میں آمر کو آرٹیکل چھ توڑنے پر سزا مل جاتی تو اس ملک کی اجتماعی سوچ کا تعین ہوجاتا۔ اس ملک میں اس بات کا فیصلہ ہوجاتا کہ یہ منتخب عوام کے منظور کردہ آئین کے مطابق چلے گا یا آمریت کے استبداد مین جئے گا۔ پانامہ میں اگر وزیراعظم نااہل ہوجاتا ہے تو یہ اس ملک میں پہلی دفعہ نہیں ہو گا۔ اگر سزا ملتی ہے تو یہ بھی کوئی انہونا واقعہ نہیں ہو گا۔ اس سے کچھ نہیں ہوگا چند دن شوروغوغا اور پھر پرانی تنخواہ پر سب کام کر رہے ہوں گے۔ ہاں اگر اس ملک میں آمر کا احتساب ہو جاتا تو ضرور بہت کچھ بدل جاتا۔ تاحال اس کا نہ تو امکان ہے اور نہ کسی مائی کے لال میں جرات ہے۔ سیاست دانوں کے خلاف تاریخی فیصلوں کی اس ملک میں روایت پرانی ہے ۔ تاریخ تو تب بنے گی جب کسی آئین شکن کو سزا ملے گی اور قوم کو اسی تاریخی فیصلے کا انتظار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).