کیا اسے اجازت نہیں کہ محبت کر لے؟


 دریائے بیاس کے کنارے یہ ایک بکھری ہوئی آبادی تھی۔ لوگ اپنی اپنی زمینوں پر ڈیرے بنا کر بیٹھے تھے۔ گاؤں بھی تھا ایک بے حال سا۔ زمینیں لوگوں کی زیادہ تھیں لیکن یہ لوگ گھروں کے دروازے نہیں لگاتے تھے۔ اکثر گھروں کی دیواریں بھی نہیں تھیں۔ گاؤں جاتے ہوئے احتیاط کرنی پڑتی تھی ہم جیسوں کو سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ سڑک پر چل رہے ہیں یا کسی کے گھر میں سے ہو کر گزر گئے ہیں۔

اک اسائنمنٹ تھی کہ خاندانی چوروں کو ڈھونڈ کر ان سے ملنا تھا۔ ان کی باتیں سننی تھیں۔ یہ سمجھنے کی کوشش کرنی تھی کہ وہ شدت پسندی کی جاری لہر سے متاثر تو نہیں ہو جائیں گے۔ اگر وہ اس لہر کے ساتھ چل پڑے تو حالات پھر کس رخ جائیں گے۔ چوروں سے ملنے کی ہماری کوششیں ناکام ہی رہی تھیں۔

اس گاؤں میں ہمارے ننھیالی رشتے دار رہتے تھے۔ تھوڑی سی زمین ہماری اپنی بھی تھی۔ مشن ناکام ہوتا دکھائی دیا تو فارغ وقت میں رشتے داروں کے ڈیروں پر پھرتے گزارنے لگے۔ یہیں گھومتے پھرتے ایک کزن نے بتایا کہ گاؤں کے پاس جو ایک دربار سا ہے۔ وہاں اکثر چور آتے ہیں۔ وہیں عامی بھی آتا ہے۔ یہ ان چوروں کا بزرگ ہے۔ اسی دربار کے پاس گاؤں کے لڑکے کرکٹ کھیلتے ہیں۔

کھلاڑی مت پوچھیں کہ وسی بابا کیسا تھا۔ کرکٹ البتہ بہت کھیلی اپنی ٹیم کی کپتانی بھی لمبا عرصہ کی۔

اسی دن شام کو دربار کے پاس گراؤنڈ میں ہم کرکٹ کھیلنے پہنچ گئے۔ بہت احترام کے ساتھ ایک ٹیم نے ہمیں اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ تھوڑی دیر بعد احساس ہوا کہ ہم کپتانی کر رہے ہیں۔ ہماری ٹیم کو گدڑ کٹ لگی ہم بری طرح ہار گئے۔ دوسرا میچ ہوا جو ہم صرف اس لیے جیت گئے کہ اس میں باقاعدہ کپتانی کی۔ بس پھر کرکٹ میچ روز کا معمول ہو گیا۔

عامی روز میچ دیکھنے آتا تھا۔ چوروں کا بزرگ تو وہ بعد میں ثابت بھی ہوا۔ عمر اس کی بزرگوں والی نہیں تھی۔ وہ ایک نوجوانی گزار چکا ہوا جوان مرد تھا۔ اس سے سلام دعا بھی ہو گئی۔ میچ کے بعد ہم لوگ پانی پینے دربار کی طرف جاتے۔ وہاں بیٹھا ملنگ سب لڑکوں کو کبھی شربت کبھی لسی کبھی باداموں کی سردائی پیش کرتا۔ ملنگ کی داڑھی تو سفید تھی اس کی بھنویں بھی سفید تھیں۔ لڑکے اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے وہ اپنے کام سے لگا رہتا۔ ایک دن ملنگ نے ایک لڑکے کو آواز دی تو احساس ہوا کہ اس کی آواز کتنی جوان ہے۔

لڑکا ملنگ کے پاس گیا تو اس بوڑھے ملنگ نے اس کو داؤ لگا کر لمحوں میں زمین پر لٹا دیا۔ تھوڑی دیر اس کا معائینہ کیا اس کے بعد در فٹے منہ بولا۔ لڑکے کو کان سے پکڑا اپنے کمرے کی طرف لے گیا۔ دونوں واپس آئے تو لڑکے کے ہاتھ میں ایک بوتل تھی۔ ملنگ نے لڑکے کو بولا کہ دفع ہو جا لعنتیا، اپنی جوانی دا خیال کر۔ اپنے کزن سے پوچھا کہ یہ ملنگ ہے یا حکیم۔ کزن بولا یہ تھری ان ون ہے۔ ملنگ بھی ہے حکیم بھی ہے اور قاضی بھی۔

حیران ہو کر پوچھا کہ قاضی کیسا ہے۔ کزن بولا یہ فیصلے کرتا ہے لیکن صرف ان جوڑوں کہ جن کی شادیاں ٹوٹنے والی ہوتی ہیں۔ مزید حیرت ہوئی تو پوچھا کہ یہ کیسا دربار ہے۔ کزن نے کہا یار توں اندھا تے نہیں، کونسا دربار؟ یہاں کوئی دربار نہیں ہے اس جگہ کو ویسے ہی دربار کہتے ہیں۔ ادھر یہ دو چار ملنگ ہی رہتے ہیں۔

کزن نے ملنگ سے اچانک کہا بابا جی یہ وسی بابا شادی نہیں کرتا۔ اس کو چیک کریں یہ ٹھیک بھی ہے۔ ملنگ نے بغیر دیکھے کہا کہ یہ ٹھیک ہے۔ لڑکے ہنسنے لگ گئے۔ عامی نے پہلی بار براہ راست مجھ سے بات کی اور کہا تمھیں تو اب ملنگ نے بھی پاس کر دیا ہے۔ ملنگ نے عامی کی بات سنی تو اسے کہا کہ تم ہمارے ڈیرے پر مت آیا کرو۔ ہمیں گناہ ہوتا ہے۔

کزن سے پوچھا کہ یار سمجھ نہیں آیا کچھ بھی۔ عامی کو ملنگ نے کیوں جھڑک دیا۔ ملنگ نے لڑکے کو کان سے پکڑ کر کیا دوائی دی۔ یہ فیصلے کیسے کراتا ہے۔ کزن نے کہا اب بڑے ہو جاؤْ یہ حکیم ہے یہ شادی شدہ جوڑوں کا علاج کرتا ہے۔ ہمارے پنڈ کے نائی کی شادی ٹوٹ رہی تھی۔ اس ملنگ حکیم نے نائی کا علاج کیا۔ پھر اس کی بیوی کو بلا کر کہا کہ بیٹا یہ اب ٹھیک ہے۔ ساتھ ہی ملنگ کی آواز آئی کہ میں نے اسے کہا کہ پتر اب ٹرائی کر تمھارا خاوند بالکل ٹھیک ہے۔ہم دونوں کو احساس ہی نہ ہوا کہ کب ملنگ ہماری باتیں سننے ہمارے قریب آ گیا تھا۔

سب کچھ سمجھ آ گیا اور شرم کے مارے ہم وہاں سے فرار ہو گئے۔

کزن سے پوچھا کہ یہ عامی کو کیوں کہہ رہا تھا کہ یہاں سے جاؤ گناہ ہوتا ہے۔ کزن نے بتایا کہ عامی شادی شدہ ہے وہ ملنگ کے ڈیرے پر اس لیے آتا ہے کہ یہاں پاس ہی ایک بیوہ اکیلی رہتی ہے۔ یہ بیوہ ملنگوں کے ایک ساتھی ملنگ کی ہے۔ اس وجہ سے اسے غصہ کر رہا تھا۔ اوہ اچھا سمجھ گیا۔

اگلے دن گاؤں کی ٹیم کا میچ تھا ساتھ والے گاؤں کے ساتھ ۔ ہماری ٹیم کبھی ان سے میچ نہیں جیتی تھی۔ ہمیں کپتانی کرنی تھی۔ وہ ٹیم واقعی اچھی تھی ہم لوگوں نے بیٹھ کر ایک گیم پلان بنایا۔ میچ کے دوران اس پر عمل کیا اپنے سے تگڑی ٹیم کو شکست دی۔ گاؤں والوں نے خوب خوشیاں منائیں۔

اس دن عامی اور ملنگ نے میچ جیتنے پر اکٹھے بھنگڑے ڈالے۔

عامی کی مدد سے پھر میری چوروں سے ملاقاتیں بھی ہو گئیں۔ ہم کام ختم کر کے پشاور پہنچ گئے۔کافی دن بعد کزن کا فون آیا کہ عامی ملنگوں کے ڈیرے سے اس بیوہ کو لیکر فرار ہو گیا ہے۔ پھر کچھ دن بعد دوبارہ فون آیا کہ عامی نے بیوہ سے شادی کر لی ہے۔ کزن نے کہا کہ تم اب جلدی چکر لگاؤ ملنگ بہت بگڑ چکا ہے۔ دن رات بددعائیں دیتا ہے توبہ کرتا رہتا ہے۔ کوئی فساد نہ ہو جائے ۔ کچھ دن بعد گاؤں کا چکر لگ ہی گیا۔ عامی نے دور سے ہی گاڑی پہچان لی پہلی ملاقات اسی سے ہوئی۔ وہ گاؤں واپس آ چکا تھا۔

مجھے وہ کافی پریشان لگا اسے چھیڑنے کو بولا پریشان کیوں ہو تم نے شادی کی ہے۔ اپنی پسند کی اس میں کیا برا ہے۔ ملنگ سے میں بات کروں گا۔ گھر والوں سے ملنے ملانے کے بعد ہم ملنگ سے ملنے گئے۔ وہ اپنے ڈیرے پر ہی تھا چارپائی پر لیٹا ہوا تھا۔ ہمیں آتا دیکھ کر وہ اٹھ کے بیٹھ گیا۔

ملنگ سے کہا بابا عامی میرے ساتھ آیا ہے۔ بس میری بات سن لیں، جواب میں ایک لمبی سی ہونہہ سننے کو ملی۔ بابا عامی نے شادی کی ہے۔ لڑکی آپ کے دوست کی بیوہ ہے۔ آپ کو برا لگا ہو گا لیکن یہ بتائیں کہ وہ اکیلے زندگی اب کیسے گزارتی۔ آپ تو انسانی جذبوں کو سمجھتے ہیں ضروریات کو بھی۔ خود گھروں کو ٹوٹنے سے بچاتے ہیں حکیم بھی ہیں علاج کرتے ہیں۔

عامی نے محبت کی ہے اس میں کیا برا ہے۔ ملنگ بولا بس کر چپ کر جا۔ محبت میں کچھ برا نہیں ہوتا۔ نہ شادی کرنا برا ہے۔ نہ بیوہ سے شادی بری بات ہے۔ میں عامی کو ڈیرے پر اس لیے نہیں گھسنے دیتا تھا کہ اس نے خود کبھی محبت کا گلا گھونٹا تھا۔

اس نے اپنی بہن کو مار دیا تھا۔ وہ بھی کسی کو پسند کرتی تھی۔ وہ بھی محبت کرتی تھی۔ اس نے کسی سے برا نہیں کیا تھا۔ اس کو شادی کے بعد محبت ہو سکتی ہے۔ یہ اس کے لیے سب سے لڑ سکتا ہے۔ اسے حاصل کر سکتا ہے۔ جو خود کرتا ہے اسی کی اجازت اپنی بہن کو نہیں دیتا ہے۔

 اپنے لیے یہ کتنا خوار ہوا محبت کی سمجھ اسے اب آئی ہے۔ تب کیوں نہ آئی ،اب آئی تو شرم کیوں نہ آئی ۔ اس نے معافی کیوں نہیں مانگی خدا سے، اپنی ماں سے۔ اب تو یہ سمجھ گیا ہو گا کہ محبت کیسی مجبوری ہوتی ہے۔

کہانی شائد اب بھی چل ہی رہی ہو۔ ہم اس کہانی سے نکل آئے ایک عورت کا سوال لے کر، جو اب تک کانوں میں گونجتا رہتا ہے۔ کہ کیا اسے نہیں اجازت کہ محبت کر لے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi