آپ کا پیارا گریبان


 گندگی کا رجحان، چاہے وہ ذہن کی ہو یا معاشرے کی، کہاں سے پروان چڑھتا ہے؟ کچھ لوگ اتنے بے بس ہوتے ہیں کہ اپنے جسم کو مکمل ڈھانپ رکھنے تک کی سہولت میسر نہیں ہوتی، دو وقت کی روٹی اور پیوند لگے گلے سڑے کپڑے زیب تن کئے گٹر نالوں کے گرد چادر بچھائے ان کی زینت و زیبائش میں اضافہ کرتے ہیں لیکن بھیک مانگنے کی تمیز وہ بھی رکھتے ہیں کہ کس شخص سے کیا کہ کر بھیک مانگنی ہے!

کیا تمیز کتابیں سکھاتی ہیں؟ کیا پڑھنے لکھنے سے ہی انسان تہذیب یافتہ بنتا ہے؟ ہمارے اردگرد بہت سے لوگ پائے جاتے ہیں جو پڑھے لکھے نہیں ہوتے لیکن بات کرنے کا ادب اور سلیقہ رکھتے ہیں۔

تمیز اچھے کپڑوں، اچھے پیسوں اور اچھی تعلیم سے نہیں آتی! تمیز فکر سے آتی ہے وہ فکر جو ہمارے ماں باپ کے وسیلے سے ہمارے خون میں سرائیت کرتی ہمارے وجود کو انسانیت کا سبق پڑھاتی ہے، ہر انسان کو مقدم سمجھنے کا درس دیتی ہے، ادب سکھاتی ہے اخلاص کو پروان چڑھاتی ہے۔

گریبان بھی سستے اور مہنگے ہوتے ہیں، لیکن سستے یا مہنگے گریبان پہن لینے سے کیا سوچ بھی سستی اور مہنگی ہوجاتی ہے؟ بالکل ہوجاتی ہے جو لوگ لباس کو کردار کا لبادہ بنا کر شعور کو دوام بخشنے کی روایت پر عمل پیرا ہوتے ہیں ایسے لوگوں کی سوچ معیار زندگی کے ناہمواریوں سے اپنی ذہنی سوچ کو تقویت اور دوام بخشتی ہے، جہاں معیار ذندگی بلند ہوئی سوچ اور انداز بھی بلند معیار کے ہو گئے اور جہاں معیار ذندگی پست ہوا وہاں شعور و آگاہی بھی پست ہو گئے۔

بڑے لوگ کون ہوتے ہیں؟ اگر میں آپ سے پوچھوں کہ بڑا آدمی سے کیا مراد ہے؟ مجھے جہاں تک بڑا آدمی کے معنی سمجھ آتے ہیں وہ ہوتا ہے، پیسے والا آدمی۔

پیسے کا تعلق تعلیم سے نہیں ہوتا ۔ پیسا کمانے کا ایک ذریعہ تعلیم ضرور ہو سکتی ہے لیکن پیسا ان کے پاس بھی ہوتا ہے جو تعلیم یافتہ نہیں ہوتے۔

پیسہ نصیب سے ہوتا ہے، اور اتنا ہی ملتا ہے جتنا لکھا ہوتا ہوہے، لیکن کیا انسان میں پائی جانے والی تہذیب کا تعلق اخلاقیات ادب و احترام، کردار کی بلندی بھی پیسے کی ریل پیل یا قلت سے اثرانداز ہوسکتی ہے؟

اچھا انسان تو ہر حال میں اچھا ہی رہتا ہے چاہے وہ کتنے ہی نشیب و فراز سے گزرا ہو، وہ اپنی فکر کو دفناتا نہیں،اسٹیٹس کا ٹیگ لگاتا نہیں، میں نے بہت سے بڑے لوگوں کو بہت چھوٹا پایا اور بہت چھوٹے لوگوں کو بہت بڑا۔

کپڑے اچھے پہن لینے سے کوئی محترم نہیں ہوجاتا، عزت و قار ملنے کا مستحق نہیں ہوجاتا، کاش ہمیں پتہ ہو کہ انسانیت کی کا کوئی رنگ، کوئی لباس اور کوئی مذہب نہیں ہوتا!

کچھ لوگ تعلیم تو رکھتے ہیں انسانیت نہیں، اب یہ انسانیت کا سبق کون پڑھائے؟ اچھے کپڑے،اچھی نوکری، اچھا گھر اور اچھا ماحول، پیسے کی ریل پیل اب کو قابل محترم نہیں بناتی، بھر کس چیز کا غرور ؟ جو آپ کے تن بدن میں سرائیت کرکے درد اور احساس کے جذبے کو مسخ کر رہا ہے۔

عزت سب کی ایک جیسی ہوتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ آپ کا ذہن اسٹیٹس اور عزت کی کمی یا ذیادتی دونوں کو ایک دوسرے کا بالواسطہ ساتھی قرار دے کر لوگوں سے امتیازی سلوک برتنا شروع کردے۔

ہم نے دکھ اور درد، احساس اور برداشت کو بھی اسٹیٹس کے ہاتھوں گروی رکھوا دیا! ہم پیسے والے ہیں تو ہماری عزت، ہم تعلیم یافتہ تو ہماری عزت، ہم کامیاب تو ہماری عزت بس ہم ہی ہم اور ہماری عزت ہی عزت ہے!

بڑا انسان پیسے سے نہیں ہوتا ! اسٹیٹس سے نہیں ہوتا ! تعلیم سے نہیں ہوتا ! انسانیت سے ہوتا ہے، درد سے ہوتا ہے احساس سے ہوتا ہے، اپنے آپ کو عظیم سمجھنا بھی کوئی عظمت ہے؟ خود پیٹ بھر کر کھانا کھانا، اچھا پہننا اچھا نظر آنا بھی کوئی جستجو ہے؟ جستجو تو وہ ہے جس کی شروعات انسانیت سے ہو اور اختتام قربانی پر ہو، اپنی شکل پر غرور کرتے ہیں، پیسے کو قبلہ سمجھتے ہیں، سوچ کو خواہش کے تابع اور احساس اور درد کو اسٹیٹس کا محتاج بنالینے والے سکھاتے ہیں دوسروں کو انسانیت کا درس!

ٹی وی ہو یا ریڈیو، رسالہ ہو یا اخبار نمودو نمائش کو بنالیا ہم نے عزت و توقیر کا معیار، اب ماڈلز مذہب کا درس دیتی ہیں، سیاست دان گالم گلوچ اور فساد کی ترویچ میں سرگرداں، اشتعال انگیز انداز بیان پھر محب وطن ہونے کا کلمہ پڑھنے والے صحافی حضرات، درد اور فکر کی دنیا سے آزاد! بڑے بڑے لوگوں کے انٹرویوز اور چھوٹے لوگوں پر صرف تبصرے؟ کیوں؟

خبروں کو فساد بنانے والے بنتے ہیں ملک کے وفادار، نوجوانوں کو مذہب کی آڑ میں ذہنی انتشار میں مبتلا کر کے ان کے فکر کو زہر آلود کرنے میں سرگرداں، مسائل کے حل کے بجائے انتشار کے فروغ میں مصروف میڈیا ہاؤسز ذرا خود بھی اپنے لئے ایک پیارا آئینہ خریدیں اور اپنی کالی مسخ شکل کا دیدار کریں اور اپنے گریبان سے اڑتی دھول مٹی کو چھاڑیں اور ان لوگوں کو داد رسی کریں جن کو پاگل بنا کر ریٹنگ حاصل تو کرلیتے ہیں لیکن ان کو ان کا حق تک نہیں دیتے۔

خواتین کو میک اپ کی دکان بنا کر غیر ضروری تبصروں پر منحصر پروگرامز نشر کرنا، کسی غریب عورت سے اس کے گھریلو مسائل اور ناچاقیوں کی کھلے عام تشریح کروانا ؟ کہان کی انسانیت ہے؟ اتنا ہی درد ہے دل میں تو اس کی تکلیف کو تماشہ کیوں بناتے ہیں؟

مدد کیجئے اور ایسے کیجئے کہ دوسرے کی عزت نفس مجروح نہ ہو، اور ان لوگوں کے مسائل پر پروگرام کیجئے جو مسائل میں گرفتار ہیں جنہیں آپ تنخواہیں نہیں دیتے! معاشی استحصال کرتے ہیں، دھتکارتے ہیں، یہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو آپ کے لئے چائے بناتے ہیں، آپ کی ٹیبل کی گرد اور مٹی کو صاف کرتے ہیں، آپ جس فرش پر پیر لٹکائے حکم دیتے ہیں اس کو چمکاتے ہیں، آپ کے ڈرائیور ہیں، مالی ہیں، دھوبی ہیں، خانساماں ہیں،ا ن پر بھی پروگرام کرلیا کریں ان کو بھی یاد کرلیا کریں، ساری نیکیاں ماڈلز اور ایکٹرز اور فنکاروں کی ہی کرنا رہ گئی ہیں، زرا اپنا برینڈڈ چشمہ اتاریں اور چھوٹے چھوٹے کپڑے پہن کر بڑی بڑی باتیں نہ کیا کریں، وہ خواتین جو مارننگ شو میں دلہن بن کر آجاتی ہیں، رنگ گورا کرنا ساس بہو کے جھگڑے نمٹاتیں ہیں براہ کرم تھوڑی توجہ اپنی ذہنی اور جسمانی تربیت پر بھی مرکوز رکھیں، احساس ذمے داری پیدا کریں کہ کیا بول رہی ہیں کیا دکھا رہی ہیں،کیا پہن رہی ہیں اور کیا درس دے رہی ہیں، اللہ آپ کو مزید شہرت دے مگر عزت بھی کمائیے، لوگوں کی زندگیوں کو تماشہ نہیں بنائیے اور مارننگ پروگرامز کو شادی ہال میں تبدیل نہ کریں !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).