مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ


مولانا ظفر علی خاں فرماتے ہیں:

جہانِ اجتہاد میں سلف کی راہ گم ہو گئی

ہے تجھ کو اس میں جستجو تو پوچھ ابوالکلام سے

ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم (سابق صدر بھارت) لکھتے ہیں کہ:

’’جو قوم اپنے محسنوں کے احسانات بھول جاتی ہے، خداوند کریم اس پر محسن اتارنا بند کر دیتا ہے۔ میں پورے وثوق اور اعتماد سے عرض کرتا ہوں کہ مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ صرف برصغیر کے مسلمانوں ہی کے رہنما نہ تھے بلکہ سب ہندوستانیوں کے رہنما تھے۔‘‘

مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ جامع الکمالات تھے۔ ان کے مذہبی، دینی، علمی، ادبی، قومی و ملی اور سیاسی کارنامے ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہیں۔ مذہب، صحافت، ادب اور سیاست برصغیر (پاک و ہند) کے ایسے آفاق ہیں جن پر اُن کے آثار و کمال بڑی فراوانی سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان کی سیاست سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے لیکن ان کے دوسرے کارنامے مسلمہ اور غیر متنازعہ ہیں۔

علامہ اقبال رحمہ اللہ کے نزدیک پورے برصغیر میں صرف ابوالکلام مجتہدانہ حیثیت کے اہل تھے۔ مولانا ظفر علی خاں کے نزدیک اجتہاد میں ابوالکلام آزاد ایک منفرد مقام کے حامل تھے۔ مولانا سید مودودی کے نزدیک ابوالکلام اور اقبال اس دور کے دماغ تھے۔ ابوالکلام نہ صرف اپنے ماحول پر حاوی رہے بلکہ اپنے بعد آنے والی نسلوں کو بھی متاثر کیا اور آج بھی ان کی شخصیت کی عظمت دلوں پر ثبت ہے۔

مولانا حسرت موہانی کے نزدیک ابوالکلام آزاد نثر اور خطابت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔

جب سے دیکھی ابوالکلام کی نثر

نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا

جس زمانے میں سب تھے مہر بلب

ایک گویا تھا… ابواالکلام آزاد

مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان کی جنگ آزادی کے میرکارواں تھے۔ اُنہوں نے ساری زندگی ہندوستان کو برطانوی سامراج سے آزاد کرانے میں گزار دی، وہ ہر لمحہ ملک کیلئے فکر مند رہے، اس کی خدمت کرتے رہے اور خدمت کرتے ہی اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے۔

مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کے ہمہ گیر کارناموں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک انقلابی مفکر تھے۔ وہ صحیح معنوں میں سیاسی امروز نہیں، مدبر فردا تھے۔ وہ ان برگزیدہ ہستیوں میں سے ایک تھے جو اپنے وقت سے پہلے ظہور میں آجاتی ہیں۔ وہ اپنے عہد میں کم از کم نصف صدی آگے تھے۔ مولانا خود لکھتے ہیں کہ

’’میری زندگی کا سارا ماتم یہ ہے کہ میں اس عہد اور محل کا آدمی نہ تھا مگر اس کے حوالہ کر دیا گیا۔‘‘

مولانا ابوالکلام آزاد کو اللہ تعالیٰ نے جن فضائل و کمالات سے نوازا تھا اس کی مثال تاریخ میں ملنا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیک وقت ان میں بہت سی خصوصیات جمع کر دی تھیں۔

وہ بیک وقت مفسر بھی تھے اور محدث بھی، مؤرخ بھی تھے اور محقق بھی، خطیب بھی تھے اور مقرر بھی، ادیب بھی تھے اور دانشور بھی، مفکر بھی تھے اور مدبر بھی، مصنف بھی تھے اور صحافی بھی، نقاد بھی تھے اور شاعر بھی، سیاستدان بھی تھے اور ہندوستان کی جنگ آزادی کے بہادر سپاہی بھی۔

صحافت میں مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کا ایک خاص مقام تھا۔ صحافت میں ان کا سکہ (14) سال کی عمر میں جم گیا تھا۔ مولانا آزاد صحافت کے آسمان پر اس وقت طلوع ہوئے جب ہماری فضائے ادب روشن اور تابناک ستاروں سے مزین تھی۔ اردو کے عناصر خمسہ میں حالی، شبلی اور نذیر احمد زندہ تھے۔ 1903ء میں جب مولانا نے ماہنامہ ’’لسان الصدق‘‘ جاری کیا تو مولانا حالی اور مولانا شبلی نعمانی اس کے معترف ہوئے۔ ماہنامہ الندوہ لکھنو کے مدیر معاون مقرر ہوئے تو ان کے مضامین (علمی، تاریخی، ادبی) کی دھوم سارے برصغیر میں مچ گئی۔ سہ روزہ ’’وکیل امرتسر‘‘ کی ادارت سنبھالی تو مولانا ابوالکلام آزادؒ کا شہرہ سارے ہندوستان میں پھیل گیا۔

13 جولائی 1912ء کو مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نے کلکتہ سے ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ جاری کیا، پروفیسر ملک زادہ منظور احمد لکھتے ہیں کہ:

’’مگر اب وقت آ چکا تھا جب مولانا صحافت کے میدان میں پختہ مشق و پختہ کار ہو چکے تھے۔ ’’وکیل امرتسر‘‘ کی ادارت ہی کے دوران میں ان پر واضح ہو چکا تھا کہ خیالات کی تبلیغ و اشاعت کے لئے اپنے ذاتی اخبار کا ہونا نہایت ضروری امر ہے۔ طالبان حق و ہدایت، متلاشیان علم و حکمت، خواستگان ادب و انشائ، تشنگان معارف الٰہیہ و علوم نبویہ کو یہ پیغام مولانا دینا چاہتے تھے۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ بڑے پیمانہ پر کسی اخبار یا رسالے کا اجراء کیا جاتا۔ چنانچہ ان صحافتی مشقوں کو پس منظر بنا کر مولانا نے الہلال کا اجراء کیا۔ (مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ، فکر و فن، ص 103)

مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کا ’’الہلال‘‘ اردو صحافت میں کئی اعتبار سے ایک عہد آفرین جریدہ تھا۔ ابھی تک الہلال کے مرتبہ و مقام کا کوئی اور اخبار آسمان صحافت پر طلوع نہیں ہوا تھا۔ الہلال مختلف حیثیتوں سے اُردو صحافت میں ایک نیا باب تھا۔ جو صحیح معنوں میں ہماری سیاسی، صحافتی اور ادبی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوا۔ الہلال عصری صحافت میں محض ایک اور اخبار کا اضافہ نہ تھا بلکہ درحقیقت وہ اپنی ذات میں ایک مستقل تحریک تھا، جس نے طوفان حوادث میں اسلامیانِ عالم اور بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی ناخدائی کا فریضہ انجام دیا۔

برصغیر کے نامور اہل علم و اہل قلم اور دینی و سیاسی رہنمائوں نے الہلال کی دینی و علمی اور سیاسی خدمات کا اعتراف کیا ہے۔ مولانا محمد علی جوہر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

’’میں نے لیڈری ابوالکلام کی نثر اور علامہ اقبال رحمہ اللہ کی شاعری سے سیکھی۔‘‘

علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نوجوان مسلمانوں میں قرآن پاک کا ذوق مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کے ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ نے پیدا کیا۔‘‘

مولانا شوکت علی فرماتے ہیں کہ:

’’ابوالکلام آزاد نے الہلال کے ذریعہ ہم کو ایمان کا راستہ بتایا۔‘‘

شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی فرماتے ہیں:

’’ہم سب بھولے ہوئے تھے، الہلال نے یاد دلایا۔‘‘

اکبر الہ آبادی کا شعر ہے

فروغ حق کو نہ ہو گا زوال دنیا میں

ہمیشہ بدر رہے گا ہلال دنیا میں

مولانا عبدالماجد دریا آبادی فرماتے ہیں:

’’الہلال نے اُردو صحافت کی دنیا ہی بدل دی۔‘‘

الہلال کا ایک عظیم کارنامہ یہ تھا کہ اس نے ملک میں نہ صرف جلیل القدر صحافی پیدا کئے بلکہ اس زمانے کی خطابت کو بھی نئے بال و پر دئیے۔

مولانا غلام رسول مہر، مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی اور قاضی عبدالغفار، مولانا سے غایت درجہ متاثر تھے۔ بلکہ مولانا سید سلیمان ندوی، علامہ عبداللہ العمادی، مولوی حامد علی صدیقی، عبدالواحد کان پوری اور مولانا عبدالسلام ندوی کے رشحاتِ قلم کا آغاز بھی الہلال سے ہوا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین اور پروفیسر محمد مجیب وغیرہ بھی اپنے قومی درد اور ادبی عشق کو الہلال سے منسوب کرتے تھے۔

مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ نابغہ روزگار شخصیت تھے، خطابت میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ برصغیر میں بڑے بڑے نامور خطیب پیدا ہوئے، مثلاً:

مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خاں، نواب بہادر یار جنگ، مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری، مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا سید محمد دائود غزنوی، علامہ احسان الٰہی ظہیر اور آغا شورش کاشمیری وغیرہ۔

یہ سب سے بڑے خطیب تھے لیکن مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کا ان میں کوئی ہم پلہ نہ تھا۔ بقول شورش کاشمیری مرحوم: مولانا ابوالکلام آزاد ایک ہی شخص تھے جن میں قیادت و خطابت کی رعایتوں سے ایک نادر روزگار انسان کی وہ تمام خوبیاں بیک وقت اکٹھی ہو گئی تھیں جن سے پورا ہندوستان آخر تک خالی رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).