جمعیت مان بھی لیتی تھی…


شاید یہ اس دور کی بات ہے جب تشدد کا رواج نہیں تھا۔ دھمکانے اور دو چار تھپڑ جڑ دینا تو بہرحال اس مد میں نہیں آتا۔ یہ بات ہے 1973 کی، وزیراعظم پاکستان (باقی ماندہ) ذوالفقار علی بھٹو نے جسمانی طور پر بہت کمزور مگر حوصلے میں مضبوط شیخ محمد رشید صاحب کو وزیر صحت مقرر کر دیا تھا اگرچہ انہوں نے بلغاریہ سے زراعت کے شعبے میں اعلٰی تعلیم پائی ہوئی تھی۔ اس کے برعکس ملتان کے ایک بہت بڑے زمیندار نواب صادق حسین قریشی کو وزیر زراعت کا منصب تفویض کیا تھا۔

شیخ صاحب ملتان میں نشتر ہسپتال کے دورے پر آئے تھے۔ انہوں نے ایک مریض سے اس کا حال پوچھا تو اس نے کہا،” حال تو ٹھیک ہے لیکن ڈاکٹر مجھے روز مر مر کہتا ہے”۔ عوامی دور تھا، شیخ صاحب نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جھٹ سے ڈاکٹر مان کو برخواست کر ڈالا، حالانکہ طبی زبان میں دل کی دھڑکن کی ایک خاص آواز کو مر مر کہا جاتا ہے۔

 اس بے جا فیصلے کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا تھا۔ معاملہ بڑھا تو اس کی تحقیق کے لیے حکومت کی جانب سے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی جس میں کالج کے پرنسپل کے علاوہ صاحبزادہ فاروق (بعد ازاں سپیکر قومی اسمبلی ) اور ملک مختار اعوان ( بعز ازاں صوبائی اور پھر وفاقی وزیر ) شامل تھے۔

 ایک روز جب پرنسپل آفس میں کمیٹی مذکورہ کا اجلاس ہو رہا تھا کہ دفتر کے باہر جمعیت نے دھرنا دے ڈالا۔ مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ ممتاز طالبعلم رہنما، حال پرنسپل میرپور میڈیکل کالج میاں رشید میرے پاس پہنچا تھا اور کہا تھا کہ یار فلاں فلاں اشخاص پرنسپل آفس میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں، انہیں تم وہاں سے نکال سکتے ہو، جاؤ انہیں نکال لاؤ۔ میں نے کہا تھا کہ میں کیوں، میں کیسے نکال کر لا سکتا ہوں؟ میاں نے اپنی برانڈ مسکان کے ساتھ کہا تھا،” یار تیرے جمعیت والوں سے ٹھیک ٹھاک تعلقات ہیں، اس لیے تمہاری بات سنیں گے”۔ میرے تعلقات تو خیر انفرادی طور پرتھے، جمعیت سے بھلا کیا اچھے تعلقات ہو سکتے تھے۔ خیر میں مہم پر نکل کھڑا ہوا تھا۔

پرنسپل آفس کے باہر ایک ہجوم اکٹھا تھا۔ میں اس میں کئی کے ساتھ ہاتھ ملاتا، حال احوال پوچھتا سیدھا پرنسپل آفس میں جا گھسا تھا۔ وہاں موجود افراد سے کوئی بات کیے بغیر ان سے کہا تھا،” آئیے جناب میرے پیچھے پیچھے آئیے”۔ پرنسپل اور دونوں مہمان بیٹھے ہوئے میرا منہ تک رہے تھے۔ میں نے پھر اسی تیقن کے ساتھ کہا تھا،”چلیے جناب اٹھیے” وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں نے دروازے سے نکلتے ہی نصیحت کے انداز میں کہا تھا،”یار یہ ہمارے مہمان ہیں۔ مہمانوں سے اچھا سلوک کیا جاتا ہے”، ساتھ ہی دونوں بازو پھیلا کر جیسے راستہ بنانے کو کہا تھا۔ طلباء ادھر ادھر چھٹتے گئے، میں اور میرے پیچھے پیچھے صاحبزادہ صاحب اور ملک مختار چلتے ہوئے سیڑھیاں اتر کر باہر کے دروازے سے نکل کر تیار جیپ میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے تھے۔ البتہ جب ہم صاحبزادہ فاروق کی کوٹھی پر پہنچ کر چائے پی کر فارغ ہوئے تھے تو میرے جسم میں جھرجھری آئی تھی کہ میں نے یہ کام کیسے کر ڈالا تھا۔ تب میں نے تقاضا کیا تھا کہ ہمیں کچھ آدمی دیں تاکہ کم از کم آج وہ جمیعت سے ہماری حفاظت کر سکیں مگر مختار اعوان نے نہ صرف ٹکا سا جواب دیا تھا بلکہ اس پر میرے برافروختہ ہو جانے کے جواب میں اس نے غصے سے دانت پیستے ہوئے کہا تھا،”مجاہد مائنڈ اٹ آئی ایم این ایجوکیٹڈ غنڈا”۔

 جمعیت کے ساتھ دوسری مڈبھیڑ کا ذمہ دار بھی ممتاز طالبعلم رہنما میاں رشید تھا۔ تب میں ڈاکٹر بن جانے کے بعد فوجی افسر کی حیثیت سے گلگت سے تبدیل ہو کر ملتان تعینات ہوا تھا۔ بعض اوقات وردی پہنے پہنے فوج کے کام سے اغماض برت کر موٹر سائیکل پر سوار نشتر کے ہوسٹلوں میں باقی بچ رہنے والے دوستوں جیسے میاں رشید و شمعون سلیم سے ملنے چلا جاتا تھا۔ ایک روز کی ایسی ہی ایک ملاقات میں میاں رشید نے مجھ سے کہا تھا،” یار مرزا ایک لڑکی سے جان تو چھڑوا دو۔ سالی جمعیت کی غنڈی ہے ہمیں الیکشن نہین جیتنے دیتی”۔ میں نے پوچھا تھا کہ میں کیسے جان چھڑوا دوں تو اس نے اپنی اسی مسکان کے ساتھ مشورہ دیا تھا،” اسے پھنسا لو ناں یار”۔ میں نے لاحول ولا پڑھتے ہوئے کہا تھا کہ میں ایسے کام نہیں کرتا۔ مگر ہوا ایسے کہ چند روز بعد ابرار احمد ( آج کے معروف شاعر و ڈاکٹر) کے ساتھ کسی اور لڑکی کی عیادت کرنے گیا تو وہاں اتفاقاً اسی جمعیت کی غنڈی سے ملاقات ہو گئی تھی۔ ملاقاتیں بڑھیں تو جمعیت کے کارکنوں کی رگ غیرت پھڑکی اور ایک روز جب میں موٹر سائیکل پر نشتر کی مسجد کے سامنے سے گذر رہا تھا تو کسی نے مجھ پر جلتا ہوا کریکر پھیک دیا تھا۔ میں اگلے روز جمعیت کے ناظم کے پاس پہنچا تھا اور اسے تنبیہہ کی تھی کہ دیکھو میں ایک فوجی افسر ہوں اور مارشل لاء لگا ہوا ہے۔ تمہارے کسی کارکن نے مجھ پر حملہ کیا تھا، ایسا نہ ہو کہ کچھ لوگ قانون کی لپیٹ میں آ جائیں۔ اگر سمجھانا ہی ہے تو اپنی کارکن لڑکی کو سمجھا لو”۔ اس کے بعد جمعیت والوں نے کوئی تعرض نہیں کیا تھا۔ وہ غنڈی بعد میں نہ صرف میری بیوی بلکہ میرے دو بچوں کی ماں بھی بنی۔

 اب جب ہماری طلاق ہوئے ربع صدی بیچ چکی ہے، اس نے میرے حالیہ دورہ پاکستان کے موقع پر ایک بار مجھ سے کہا،” تم نے میری زندگی برباد کرکے رکھ دی”۔ میں نے کہا،” حالات قصور وار تھے، میں نے کسی منصوبے کے تحت تو ایسا نہیں کیا تھا” جس پر اس نے کہا،” تم نے ہی بتایا تھا کہ جمعیت کی غنڈی کو راستے سے ہٹانے کے لیے تمہیں کام سونپا گیا تھا، کیا پتہ ایک منصوبے کے تحت ہی ایسا کیا ہو تم نے”۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).