اگر آپ کے پاس پیسا ہے تو لاڑکانہ چھوڑ دیں


 ایک مشہورسندھی کہاوت ہے کہ، ” هجئي ناڻو، ته گهم لاڙڪاڻو ” یعنٰی ، اگر آپ کے پاس پیسا ہے تہ ایک مرتبہ لاڑکانہ ضرور گھومیں۔ مگر لاڑکانہ کی آج جو حالت ہے اُس نے اِس کہاوت کو اس طرح الٹ دیا ہے ” هجئي ناڻو، ته ڇڏ لاڙڪاڻو ” یعنٰی اگر آپ کے پاس پیسا ہے تو لاڑکانہ چھوڑدیں ۔

تقریباٌ دو لاکھ ستر ہزار آبادی والے سندھ کے تاریخی شہر لاڑکانہ کو جتنے حکومتی عہدے ملے ہیں اُس حجم کے کسی دوسرے پاکستانی شہر کو نہیں ملے۔ اس لحاظ سے یہ پاکستان کا سب سے خوش نصیب شہر ہے اور اسی لحاظ سے ملک کا سب سے زیادہ بد نصیب شہربھی ہے کہ اتنا اقتدار ملنے والے شہر کی حالت قابل رحم ہے۔

جس شہر کے پاس ایک مرتبہ ملک کے صدر کا عہدہ ( ذوالفقار علی بھٹو) تین مرتبہ وزیراعظم کا عہدہ ، ( ایک مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو اور دو مرتبہ محترمہ بے نظیر بھٹو) آٹھ مرتبہ سندھ کے وزیر اعلٰی کا عہدہ ( تین مرتبہ محمد ایوب کھڑو، دو مرتبہ ممتاز بھٹو، دو مرتبہ اختر علی جی قاضی اور ایک مرتبہ قاضی فضل الله)، قومی اسیمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ، وفاقی اور صوبائی وزیروں کے لاتعداد عہدے مسلسل رہے ہوں وہ شہر کھنڈر بن جائے تو اس شہر کو ھم بدنصیب شہر نہ کہیں تو کیا کہیں؟

شہر کی سڑکیں مکمل طور پر تباہ ہیں سوائے ان روڈز کے جو موئن جو دڑو ایئرپورٹ پر پیپلز پارٹی کے اکابرین کے اترنے کے بعد گڑھی خدا بخش کی طرف جانے کے لئے استعمال میں لائی جاتی ہیں۔

اسپتالیں بہت ہیں، کروڑوں کی مشینری بھی ہے ، ڈاکٹروں کی ایک فوج ہھی ہے مگر صحت عامہ کے حالات ابتر ہیں۔

 صرف ایک مثال دیتا ہوں، لاڑکانہ، اُس کے آس پاس، یہاں تک کہ بلوچستان کے شہر ڈیرہ مراد جمالی بلکہ سبی تک کے مریض لاڑکانہ کے اسپتالوں میں ہی آتے ہیں مگر اس پورے علاقے کے لئے صرف ایک ایم آر آئی مشین چاںڈکا اسپتال میں ہے۔ کروڑوں روپے کی وہ مشین 2013 میں نصب ہونے کے بعد دو سال تک ایک دن بھی استعمال نہیں ہوئی۔ ایک شہری نے ہائی کورٹ میں شکایت کی تو عدالت کے حکم پر وہ مشین چلائی گئی مگر کچھ ماہ چلانے کے بعد اس کو دوبارہ بند کر دیا گیا اور آج تک بند پڑی ہے۔

 ایچ آئی وی ایڈزکے مریض سب سے زیادہ لاڑکانہ میں ہی ہیں۔ جس کی وجہ منشیات استعمال کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہے۔

تصدیق شدہ رپورٹ ہے کہ مختلف بیماریوں کے جراثیم لیئے ہوئے یہ نشے کے عادی افراد ضرورت پڑنے پر اپنا خون بیچ کر منشیات خریدنے کے لیئے پیسہ حاصل کرتے ہیں۔ لاڑکانہ خون خریدنے والی جعلی بلڈ بینکس اور میڈیکل لیبارٹریز سے بھرا پڑا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔

رائیس کینال ،شہر کے درمیان سے ایسے گزرتا ہے ، جیسے لنڈن شہر کے بیچ سے خوبصورت ٹیمز دریا گزرتا ہے مگردریائے سندھ سے نکلنے والی اس نہر کو شہر کے گندے پانی کا گٹر بنا دیا گیا ہے۔ پورے شہر کا گند اس میں ڈالا جاتا ہے اوراوپر سے المیہ یہ کہ پورے شہر کو اسی گٹر بنے رائیس کینال سے پینے کا پانی مہیا کیا جاتا ہے۔ یہ رپورٹ حال ہی میں سندھ ہائی کورٹ کے واٹر کمیشن نے شایع کی ہے۔

کچرے کے ڈھیر ، کھدے ہوئے رستے، بے ھنگم ٹریفک اور سب سے زیادہ تجاوزات نے شہر کی ایسی حالت کی ہے کہ واقعی جن کے پاس پیسا ہے وہ لاڑکانہ چھوڑ کر جا چکے ہیں ۔

شہر کی ہر گلی، سڑک، راستے پر تجاوزات کینسر کی طرح پھیل چکی ہے۔ ایسا لگتا ہے، جیسے کسی خوبصورت چہرے پر پیپ زدہ پھُنسیاں نکل آئی ہوں۔

افسوس ناک بات یہ ہے کہ گذشتہ نو سال میں لاڑکانہ کی ترقی کے لیئے بجٹ میں جتنا پیسا آیا ہے اُتنا سندھ کے کسی شہر کے لئے نہیں آیا۔ شہر کی بدترین حالت دیکھ کر ایک شہری بشير احمد کلهوڑو نے 2013 میں سندھ ہائی کورٹ لاڑکانہ بینچ میں ایک آئینی درخواست جمع کروائی اور موقف اختیار کیا کہ لاڑکانہ کے لیئے 2008 کے بعد آج تک نوے ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ آیا ہے مگر شہر پھر بھی مکمل طور پر تباہ ہے اورسارا پیسا کرپشن کی نذر ہو گیا ہے۔ درخواست میں ایم این ای فریال ٹالپر، ٹائون ناظم شفقت حسین سومرو، سابق وزیر قانون سندھ ایاز سومرو، ڈی سی او، پراجیکٹ ڈائریکٹر لاڑکانہ ڈیولوپمنٹ پراجیکٹ اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ لاڑکانہ بینچ میں یہ درخواست تین سال تک پڑی رہی اور اس کی باری ہی نہیں آئی۔ 2016 میں یہ پٹیشن سندھ ہائی کورٹ کراچی منتقل کی گئی جہاں چیف جسٹس، جسٹس سجاد علی شاہ صاحب کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اس کی سماعت شروع کرتے ہوئے 2008 سے اب تک شروع اور مکمل کی گئی سب ترقیاتی اسکیمز کی مکمل تفصیل طلب کرلیں۔

 حال ھی میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ صاحب ترقی پا کر سپریم کورٹ کے جج بن چکے ہیں، مگر ان کے سپریم کورٹ جانے سے پہلے کیس کی سماعت کے دوران وکیل فاروق ايچ نائيک نے ایم این ای فریال ٹالپر کا نام کیس سے خارج کرنے کی دو مرتبہ درخواست داخل کی جو عدالت نے دونوں مرتبہ خارج کر دی۔

صرف نو سال میں لاڑکانہ پر نوے ارب روپے خرچ ہونے کے باوجود شہر کی تباہی و بربادی پر فریق بنائے گئے ذمہ داروں کا دفاع کرتے ہوئے سندھ کےایڈوکیٹ جنرل ضمیر گھمرو اور ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل مصطفٰی مہیسر نے عدالت کو بتایا کہ سندھ سرکار کی طرف سے لاڑکانہ ترقیاتی پراجیکٹ کے 90 ارب روپے نہیں بلکہ 38 ارب 39 کروڑ روپے منظور ہوئے تھے۔

لاڑکانہ میگا کرپشن کیس سندھ ہائی کورٹ کراچی میں زیر سماعت ہے۔ کیس کی سماعت کرنے والی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے سپریم کورٹ کا جج بننے کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بننے والے جسٹس احمد علی شیخ کا تعلق بھی لاڑکانہ سے ہے اور ان سے بہتر بھلا کون جانتا ہے کہ لاڑکانہ زندہ لوگوں کا موئن جو دڑو بن چکا ہے کہ نہیں۔

یہ مت پوچھئے گا کہ اگرلاڑکانہ اتنا برباد ہے تو پھر سندھی پیپلز پارٹی کو ووٹ کیوں دیتے ہیں؟

 کہاں بھائی ووٹ والا زمانہ گیا ۔ سندھ میں الیکشن، بے تحاشہ پیسے، پولیس ( جس کے بارے میں کچھ عرصہ پہلے ہی آئی جی سندھ پولیس ای ڈی خواجہ نے کہا تھا کہ سندھ پولیس سے الیکشن جتوانے کا کام لیا جاتا رہا ہے )، وڈیرے کی طاقت، نگراں حکومت، کرپٹ سرکاری ملازم اوراوپر کی آشیرواد سےجیتا جاتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).