مدرسہ اور سکول اچھے انسان پیدا کرنے سے قاصر کیوں ہے؟


کیوں نا بات خود سے ہی شروع کی جائے؟ کسی اور کی مثال دینے کی بجائے اپنی ہی مثال سے گفتگو شروع کرتے ہیں۔ دوسروں کو ہدف تنقید بنانے کی بجائے کیوں نہ خود کو ہی کٹہرے میں کھڑا کیا جائے

یقینا احباب کے علم میں ہو گا کہ میری تعلیم دینی مدراس میں ہوئی زندگی کے قیمتی دس سال مدارس میں گذرے مجھے مدارس نے ایک جذبہ دیا ایک عصبیت سے متعارف کروایا۔ یہ بتایا کہ ہم سب سے بہتر ہیں ہمارا کام سب سے بہتر ہے۔ پڑھنے والے اور پڑھانے والے کائنات کے بہترین لوگ ہیں۔ نیکی کے تکبر نے مجھے رعونت سکھائی اپنی افضلیت کی وجہ سے کسی کو خاطر میں نہ لانا یہ ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔ بدعات و منکرات کی جو تشریحات مجھے پڑھائی گئیں اس کی وجہ سے میری سوچ ایک دائرے کے گرد گھومتی رہتی۔

میں نے جب اس دائرے کو توڑا تو مجھے لگا کائنات بڑی وسیع ہے میں ہی افضل نہیں کچھ لوگ اور بھی ہیں جو مجھ سے افضل ہیں۔ مجھے ان کا احترام کرنا چاہیے۔ مجھے ان کی جوتیاں سیدھی کرنی چاہیں مجھے ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے وہ نہ ہوتے تو میں آوارہ ہوتا میری زندگی آرام دہ نہ ہوتی۔

مثلا آپ دیکھیں میں پڑھ رہا ہوں اور پڑھا رہا ہوں یہ بہت اچھا کام ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ جس مزدور نے یہ بلڈنگ بنائی ہوتی ہے اس کے بارے میں میرے نبی کا ارشاد ہے کہ حلال کمائی والا اللہ کا دوست ہے؟

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ جو شخص ہمیں چندہ دیتا ہے اس کا ہاتھ ہمارے ہاتھ سے بہتر ہے اس لیے کہ وہ دینے والا ہے اور ہم لینے والے ہیں ؟

اچھا مجھے سردی بھی لگتی ہے اور گرمی بھی۔

کبھی ہم نے غور کیا کہ گرمیوں کے لیے جن لوگوں نے پنکھے اور اے سی بنائے یا سردیوں کے لیے ہیٹر بنائے انہوں نے انسانیت کو سکون دیا۔ انسانیت کو نفع دیا ان کے بارے میں ہے کہ لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو لوگوں کو نفع پہنچائے۔

کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ جو ہمارے مسیحا ہیں وہ سنت نبوی پوری کر رہے ہیں؟

کیا کبھی ہم نے غور نے کیا کہ علماء صرف میرے ہی نہیں دیگر مسالک و مذاہب کے بھی ہیں ان کا بھی احترام ضروری ہے؟

کیا کبھی ہم نے غور کیا کہ یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے اور پڑھانے والے طلباء کائنات میں غور فکر کرتے ہیں نئی نئی ایجادات کرتے ہیں وہ کائنات میں حقیقی طور پہ غور کر کے قرآنی احکامات پورے کر رہے ہیں؟

کیا کبھی ہم نے سوچا کہ مسجد بنانے سے ہی جنت نہیں ملتی کسی کا گھر آباد کرنے سے بھی جنت مل سکتی ہے؟

کیا ہم نے کبھی ایدھی اور ثاقب صاحب کو بھی یہ کریڈٹ دیا؟

نہیں نا؟ کیوں؟ اس لیے کہ میں ان کاموں سے واقف ہی نہیں یا واقف تو ہوں لیکن عصبیت میں زندگی گزار رہا ہوں۔

ہم پڑھ لکھ کے اپنی اپنی دنیا قائم کر لیتے ہیں اپنے اپنے دائرے بنا لیتے ہیں اور پھر ساری کائنات کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔

یہ صرف ہمارا ہی حال نہیں بلکہ یونیورسٹیوں کے لوگوں کا بھی یہی حال ہے وہ بھی مدارس کو فضول سمجھتے ہیں ان میں بھی رعونت ہے وہ بھی اپنے دائرے میں بند رہتے ہیں۔

آپ دیکھیں نا تعلیم انسان کو ہمدردی سکھاتی ہے۔ تعلیم انسان کی زندگی بدلتی ہے۔ تعلیم انسان کو شعور عطا کرتی ہے

معذرت کہ ہمارے ادارے مولوی مسٹر تو پیدا کر رہے ہیں مگر انسان نہیں۔

اس معاشرے میں ایدھی ایک ہی نظر آتا ہے ہر شخص ایدھی بنے تو بات بنے گی ہر انسان انسانیت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے تو کیا ہی بات ہو گی؟

میری یہ خواہش ہے جو پوری نہیں ہو پا رہی۔ مجھے دونوں نظام ہائے تعلیم سے شکوہ ہے ہم نے ہمیشہ یہ آواز بلند کی کہ اس نظام میں ایسا نصاب شامل کریں جو سماج کے تقاضوں کو پورا کرے یہاں سے پڑھ کے نکلنے والا بندہ انسانیت سیکھے سماجی تقاضوں کو سمجھے۔ کم ہی لوگوں نے اس طرف توجہ دی۔ بہت کم ایسے لوگ ہیں جن کا موضوع سماج اور انسانیت ہے۔

ان کم لوگوں میں ایک نام خورشید ندیم صاحب کا بھی ہے خورشید ندیم صاحب کی شہرت تو ایک کالم نگار اور اینکر پرسن کی ہے مگر وہ ایک ادارہ بھی چلا رہے ہیں جس کا نام ادارہ امن و تحقیق ہے

برادرم خورشید ندیم صاحب نے چند روز قبل ایک کتاب شائع کی ہے جس کا نام ہے ”سماجیات ”

اس کتاب میں سات ابواب ہیں

پہلا باب سماج اور فرد پہ مشتمل ہے
دوسرا باب سماج اور اخلاقیات پہ مشتمل ہے
تیسرا باب اخلاقی اور سماجی رویوں پہ مشتمل ہے
چوتھا باب سماجی علوم اور شخصیت سازی پہ مشتمل ہے
پانچواں باب سماج اور آئین پر مشتمل ہے
چھٹا باب سماجی اداروں پہ مشتمل ہے
ساتواں باب اہم سماجی تنازعات پہ مشتمل ہے

یہ کتاب مدارس یونیورسٹی اور کالج کے طلباء کے لیے انتہائی مفید ہے یہ کتاب اگر نصاب کا حصہ بنا دی جائے تو مجھے امید ہے کہ نفرتیں کم ہوں گی ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد ملی گی۔

اس کتاب کی تقریب رونمائی ہو چکی ہے مختلف لوگ اس پر اظہار خیال کر چکے ہیں میری دینی مدارس کے ذمہ داران اور حکومت سے گزارش ہو گی کہ وہ اس طرف توجہ دیں اس کتاب کو نصاب کا حصہ بنائیں۔

اچھا معاشرہ اچھے انسانوں سے ہی بنے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).