ایک احمدی شہری پر نہیں، پاکستان کی روح پر حملہ


آج نشانہ باندھ کر ایک اور احمدی کو قتل کر دیا گیا۔ پاکستان میں وزیراعظم کی طرف سے اقلیتی عقیدہ کے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے وعدہ کی اس سے زیادہ توہین اور کیا ہو سکتی ہے۔ لشکر جھنگوی نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کر لی ہے اور کہا ہے کہ چونکہ ننکانہ صاحب میں ہلاک کئے جانے والے ملک سلیم الطاف ایڈووکیٹ احمدی عقائد پھیلاتے تھے، اس لئے انہیں مار دیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے حملہ آور کی نشاندہی کر لی ہے لیکن نہ تو اسے گرفتار کیا گیا ہے اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس حملہ کا مقصد کیا ہے۔ تاہم اس قتل کے بعد ملک میں اقلیتی عقائد رکھنے والوں میں خوف و ہراس میں اضافہ ہوگا اور یہ بات واضح ہو جائے گی کہ حکومت اپنے وعدوں اور فوج انتہا پسندوں کے خلاف شروع کئے گئے متعدد آپریشنز کے باوجود ان عناصر کا قلع قمع کرنے میں ناکام ہیں جو ملک میں اقلیتی مذاہب کا جینا دوبھر کرنے کا قصد کئے ہوئے ہیں۔ دنیا کا کوئی مہذب ملک اس صورتحال کو قبول نہیں کر سکتا۔ اکثر معاشروں میں اقلیتوں کے بارے میں تعصبات کا اظہار ہوتا ہے اور ان کے عقائد یا رویوں کے بارے میں مباحث بھی سامنے آتے ہیں لیکن کوئی ملک کسی گروہ یا فرد کو قانون ہاتھ میں لینے اور اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور ان کے خلاف تشدد استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

پاکستان میں بھی تشدد کا استعمال منع ہے۔ ریاست اس بات کا اعزاز لے سکتی ہے کہ مذہبی گروہوں کے دباؤ کے باوجود سابق گورنر سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ تاہم کوئی قانون ایک مجرم کو فرشتہ ثابت کرنے والوں کی زبانیں روکنے میں کامیاب نہیں ہے۔ قادری کے حامیوں نے اس کا مقبرہ بنایا اور رفتہ رفتہ اسے ایسے مذہبی رتبہ پر فائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو اللہ کے برگزیدہ لوگوں کو ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ ممتاز قادری اب اپنے اعمال کی سزا پا کر اپنے رب کے پاس پہنچ چکا ہے۔ اس کی جزا اور سزا کا فیصلہ روز قیامت ہی ہوگا لیکن ملک میں جو لوگ ممتاز قادری کے نام کو مذہبی صداقت اور ایثار کی مثال بنا کر پیش کرتے ہیں اور اس کا ذکر کرکے اپنی دکان چمکانے میں مصروف ہیں ۔۔۔۔۔۔ پاکستان کی حکومت ان کے خلاف کوئی قدم اٹھانے میں ناکام ہے۔ یہ لوگ کھلے عام ریاست، اس کے اداروں اور ملک کے رہنماؤں کے بارے میں ہتک آمیز اور نفرت انگیز بیان جاری کرتے ہیں لیکن انہیں قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے دعوؤں کے باوجود ایسا کرنے کی پوری آزادی ہے۔ پاکستان آزادی اظہار رائے کے حوالے سے کوئی آئیڈیل معاشرہ نہیں کہ اس ملک کے لیڈر یہ دعویٰ کر سکیں کہ ملک کے قانون کے تحت اپنے نظریات و خیالات کا اظہار کرنے والوں کے خلاف اقدام نہیں کر سکتے۔ یوں بھی نفرت پھیلانا، تشدد پر اکسانا اور لوگوں کےلئے نقصان کا سبب بننا کسی بھی معاشرے میں قابل قبول فعل نہیں۔ اس کے باوجود پاکستان کے مذہبی گروہوں کو من مانی کرنے اور حکومتی اعلانات کو مسترد کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔

مذہبی گروہوں کے اس باغیانہ چلن اور حکومت کی طرف سے ان کی روک تھام کرنے میں کوتاہی نے ملک کو تصادم اور انتشار کا مسکن بنا دیا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ ملک اس وقت دہشت گردوں کی لپیٹ میں ہے۔ یہ دہشت گرد مختلف سیاسی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ حکومت ایسے شواہد سامنے لاتی رہتی ہے جن میں بتایا جاتا ہے کہ ایسے بعض گروہوں کو بھارت اپنے مقاصد کےلئے استعمال کر رہا ہے اور کوئی افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے ایما پر پاکستان میں مسلسل دہشت اور تباہ کاری جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان سب عناصر کو ملک کے اندر سہولت کار اور ہمدرد اسی لئے فراہم ہوتے ہیں کیونکہ یہاں مذہب کو نفرت پھیلانے کا ذریعہ بنانے کا حق تسلیم کر لیا گیا ہے۔ اسی لئے کسی پارٹی کا ممبر قومی اسمبلی سیکولر خیالات رکھنے والوں کو ملک بدر کرنا چاہتا ہے اور کوئی لبرل نظریات کے اظہار کو قومی اساس کے خلاف بتا کر ایسے لوگوں کو گردن زدنی قرار دیتا ہے۔ نفرت کے رویے معاشرے میں اس قدر راسخ ہو چکے ہیں کہ انہیں ختم کرنے اور باہم احترام کی فضا پیدا کرنے کے لئے صرف علما سے بیانیہ بدلنے کی درخواست کرنا کافی نہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ نظریہ اور عقیدہ کی بنیاد پر کسی بھی مذہب ، فرقہ یا عقیدہ کے لوگوں کے خلاف نفرت انگیز، ہتک آمیز اور اشتعال پیدا کرنے والی گفتگو کرنے والوں کی روک تھام کا اہتمام کرے۔

اس سے زیادہ شرم اور افسوس کا مقام اور کیا ہو سکتا ہے کہ ملک کے ممتاز دانشور کی شہرت رکھنے والا ، ٹیلی ویژن پر پروگرام کی میزبانی کرنے والا اور قومی اخبار میں کالم نگاری کرنے والا ایک شخص ہمسایہ ملک کی ہندو اکثریت کے عقائد کا تمسخر اڑانے کےلئے گائے کا مذکر تلاش کرنے کی تگ و دو کرتا ہے اور اسے عقل و دانش سے بھرپور طرز کلام سمجھا جاتا ہے۔ نہ سماج کے مہذب لوگ اس رویہ کو مسترد کرتے ہیں اور نہ کوئی سرکاری ادارہ اس یاوہ گوئی پر حرکت میں آتا ہے۔ ایسے میں نفرت کا سراغ لگانے کےلئے زیادہ جدوجہد کرنے کی ضرورت نہیں ہوسکتی۔ کسی اخبار کے صفحے پلٹے جا سکتے ہیں یا ٹیلی ویژن پر علم و دانش کے گوہر بکھیرتے عالم فاضل اینکرز کے واعظ نما انداز پیشکش پر غور کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی محلے کی مسجد کا امام یا کسی اجتماع سے خطاب کرنے والا مبلغ کسی دوسرے فرقے یا عقیدے کا مذاق اڑائے بغیر اپنی بات مکمل نہیں کر سکتا۔ کیا پاکستان میں آباد مسلمان ایک گروہ کے طور پر یہ ثابت کرنے پر تلے ہیں کہ وہ اس وقت تک اپنے عقیدے کی سچائی ثابت نہیں کر سکتے جب تک دوسرے عقائد کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف بھرپور نفرت کا اظہار نہ کریں۔ یہ رویہ تو شکست خوردگی کا رویہ ہے۔ کیا اس ملک کے مسلمانوں کا ایمان اتنا کمزور اور اپنے عقیدہ پر ان کی دسترس اس قدر کمتر ہے کہ وہ گالی اور انکار کے بغیر خود کو ہی یہ یقین دلانے میں کامیاب نہیں ہوتے کہ ان کا عقیدہ سچ ، حق اور رہنما ہے۔

اس صورتحال میں احمدی عقیدہ سے تعلق رکھنے والوں کو سنگین ترین حالات کا سامنا ہے۔ پہلے ان کے عقیدہ کو اسلام سے خارج قرار دینے کےلئے آئین میں ترمیم کی گئی۔ پھر مسلمانوں کے طریقے سے بات کرنے، سلام لینے، قرآن کو اپنی کتاب کہنے اور اسی قسم کے افعال پر گرفت کرنے اور سزا دینے کا اہتمام کیا گیا۔ اس پر بھی تسلی نہیں ہوئی تو مسلسل احمدیوں کے خلاف نفرت اور تعصب کا پرچار کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ احمدی اگر گمراہ ہو چکے ہیں اور آپ اس کا اعلان کر چکے ہیں تو ملک کے معمولی پیش امام سے لے کر اعلیٰ مرتبے پر فائز عالم دین تسلسل سے احمدیوں کے خلاف دشنام طرازی کیوں ضروری سمجھتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں وزیراعظم اقلیتوں کی حفاظت کا ذمہ دار ہونے کا اقرار کرتا ہے اور حکومت نفرت کا پرچار روکنے کےلئے قومی ایکشن پلان کو رہنما اصول مانتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ نفرت کو ہی ہتھکنڈہ بنانے والے مذہبی لیڈر کیوں احترام اور اعزاز پاتے ہیں اور قانون یا سیاست کیوں انہیں اس قسم کی زہر افشانی سے نہیں روک سکتی۔

ضروری ہے کہ یہ طے کر لیا جائے کہ پاکستان میں مسلمانوں کے علاوہ کسی عقیدہ کو رہنے کی اجازت ہے یا نہیں۔ اگر یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا تو کیا اس سے یہ مراد لی جائے کہ یہاں مسلمانوں کے علاوہ کسی عقیدہ سے تعلق رکھنے والوں کو رہنے کا حق نہیں۔ عملی طور پر اس کا اظہار روزانہ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے، تو کیا مضائقہ ہے کہ ملک کے آئین و دستور میں بھی اس اصول کو روشن الفاظ میں لکھ دیا جائے۔ تب کم از کم کوئی یہ تقاضہ تو نہیں کرے گا کہ دوسرے عقائد کا احترام کرنا ہر مہذب انسان کا فرض ہے۔ اور یہ کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لے کر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح تک نے اس کا درس دیا ہے۔ پاکستان پر مسلمانوں کا حق تسلیم کرتے ہوئے دیگر عقائد کا استحقاق مسترد کر دیا جائے تو کم از کم کوئی ملا برما کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر مگرمچھ کے آنسو تو بہانے سے گریز کرے گا اور تب دنیا کے ڈیڑھ سو سے زائد ملک پاکستان کی مثال دے کر اپنے ہاں آباد مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کرنے کا اعلان کر سکیں گے جو ہم اقلیتی عقائد کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ اور اگر یہ سب نہیں ہو سکتا۔ اگر اس ملک میں سب نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر اور خود کو جہالت اور گمراہی کے سپرد نہیں کیا ہے تو ہر اس قتل پر آواز اٹھنی چاہئے جو اندھے عقیدہ کے نام پر ناحق سرزد ہوتا ہے۔

آج ننکانہ صاحب میں ہونے والا قتل ایک فرد کی ہلاکت نہیں ہے۔ یہ پاکستان کی روح پر وار ہے۔ قطرہ قطرہ پاکستان کی جان لینے کا عمل ہے۔ یہ نفرت ہے، دہشت ہے اور منافقت ہے۔ زندہ رہنا ہے، آگے بڑھنا ہے، مرنے کے بعد اپنے اللہ کو منہ دکھانا ہے اور رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شفاعت سے بہرہ ور ہونا ہے تو اس شقاوت سے اجتناب کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali