کشمیر سی پیک اور گلگت بلتستان


فصیح جرال گجرات کے رہائشی اور فیس بکی دوست ہیں۔ ہماری دوستی کا آغاز نہ جانے کب اور کیسے ہوا۔ شاید سوشل میڈیا استعمال کرنے کے ابتدائی دنوں میں دوست بنانے کے جنون میں ہم ایک دوسرے کے ساتھ جڑ گئے۔ ایک برس قبل ہمارے مابین بات چیت کا آغاز ہوا۔ فصیح جرال کو تاریخ کشمیر کے حوالے سے کسی کتاب کی تلاش تھی اور یوں انہوں نے مجھ سے رابطہ کر کے مدد حاصل کی اور اس کے بعد سلسلہ گفتگو چل نکلا۔ فصیح جرال پڑھے لکھے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور خود بھی دو کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کے نانا آزاد کشمیر کے چیف سیکرٹری رہ چکے ہیں جب کہ دادا محترم 1947 سے قبل راجواری کے نمبردار تھے۔ ڈوگرہ راج کے خاتمے کے ساتھ ہی خاندان سمیت گجرات سدھار گئے۔ ان کی تیسری نسل اب بھی واپس جانے کے خواب جگائے بیٹھی ہے۔
سلسلہ کلام شروع ہونے کے چند ماہ بعد فصیح جرال نے مجھے سے سوال کیا کہ مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہو گا؟ میں نے بغیر لگی لپٹی کہہ دیا کہ ادھر تم ادھر ہم کے فارمولے کے تحت بندر بانٹ ہو گی، بندر بانٹ میں صرف وادی کشمیر آڑے آ رہی ہے۔ وادی پر دونوں ممالک اپنا حق جتا رہے ہیں جس کے باعث مسئلہ کشمیر 70 برس سے التوا کا شکار ہے۔ میرا جواب سنتے ہی اگلا سوال یہ کیا کہ راجوری کہاں جائے گا؟ میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ راجوری کہیں نہیں جائے گا۔ جہاں ہے وہی قائم رہے گا اور اس پر عمل داری بھارت کی ہی رہے گی۔ میرا جواب سنتے ہی فصیح نے رونی آواز میں کہا کہ ہم تو 70 سال سے اس آس میں جی رہے ہیں کہ ایک دن واپس اپنے دیس جائیں گے۔
فصیح جرال نے مزید بتایا کہ اگرچہ ہم نے اپنا دیس آنکھوں سے نہیں دیکھا مگر بزرگوں کی باتیں سن کر ایک پورا نقشہ ذہن میں پیوست ہے۔ دلخراش گفتگو سننے کے بعد حوصلہ دیا اور چند حقائق گوش گزار کرتے ہوئے بتایا کہ پاک چین اقتصادی راہداری( سی پیک ) کے بعد گلگت بلتستان کو چین کی خوشنودی کے لئے مستقل صوبہ بنایا جارہا ہے جس کے لیے سر تاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی قائم ہے۔ چین کی جانب سے متنازع علاقے میں سرمایہ کاری کرنے سے انکار پر گلگت پاکستان کو حقوق دینے کے نام پر پاکستان میں ضم کیا جا رہا ہے۔ سی پیک کی کامیابی کے لئے پاکستان کشمیر کو بھی حاصل کرنے کی خواہش دل سے نکال بیٹھا ہے۔

ہمارے مابین ہونے والی اس منطقی گفتگو کے بعد رابطے کم ہو گئے اور دوریاں بڑھ گئیں۔ سرتاج عزیز کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی بھی زیر زمین چل گئی اور کچھ ماہ بعد پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں الیکشن شروع ہوگئے۔ سرتاج عزیز کمیٹی کے تناظر میں آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کو بھاری مینڈیٹ سے نوازا گیا۔ اگرچہ آزاد کشمیر میں پنجاب، سندھ، یا بلوچستان کی طرز پر انتخابی دھاندلی نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی کھڑپنچ یا وڈیرے کے حکم پر ووٹ کاسٹ کیا جاتا ہے مگر قومی سلامتی اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ کا پورا پورا استعمال کر کے نتائج بدل دیے جاتے ہیں۔ آخر کار 36 لاکھ آبادی کے لئے لاکھوں کی تعداد میں وردی اور سول کپڑوں والوں کے علاوہ کالی زلفوں اور کالے جھنڈوں والے کس کام کے لئے ہیں۔
موجودہ وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر فاروق حیدر بھی حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ کے لئے بلیک میل ہو رہے ہیں۔ فاروق حیدر نے انتخابات سے ایک روز قبل مظفر آباد کے ایک سینئر صحافی دوست کو کہا کہ الیکشن میں مسلم لیگ ن  17 سے 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کرے گی مگر ایک روز بعد ان کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے۔ آخر غلط ثابت بھی کیسے نہ ہوتے جب مرکز میں قوتوں نے ایکا کر لیا تھا اور فاروق حیدر وہ تمام کام کروانے کے لئے موزوں تھے جو شاید سردار عتیق، چوہدری عبدالمجید یا کوئی دوسرا لیڈرکرنے میں ناکام رہے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستانی میڈیا، اینکر اور کالم نگار مسلسل رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لئے گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ قرار دے رہے ہیں۔ گلگت بلتستان ہزاروں برس سے اپنی جگہ موجود تھا اور تقسیم برصغیر کے فوری بعد پاکستان کے زیر انتظام بھی آگیا تھا۔ 2009 میں اسے صوبہ نما کا درجہ بھی مل چکا ہے اور اب 70 سال بعد پاکستانیوں کو یہ بتایا جارہا ہے کہ کہیں گلگت بلتستان بھی موجود ہے۔ دوسری جانب بھارت جو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے مگر گلگت کو صوبہ بنانے پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ سرینگر میں بھارت مخالف ریلیاں نکالنے والے بھی اس معاملے پر بیانات کی حد تک محدود ہیں۔
پاکستان کو سی پیک کے لئے اپنے 70 برس کے مؤقف سے یکدم مخرف ہونے کی بجائے گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر کی طرز پر نظام حکومت دینا چاہئے۔ 80 کی دہائی میں ختم کیا گیا ’’باشندہ ریاست قانون‘‘ بحال کر کے عوام کی محرومیوں کا ازالہ کیا جائے۔ گلگت بلتستان حکومت کے ساتھ فریقین معاہدہ کر کے اقتصادی راہداری منصوبے کو بھی کامیاب بنایا جائے۔ طاقت اور ریاستی پروپیگنڈے کے زور پر اٹھایا گیا حکومت پاکستان کا ہر اقدام اپنے لیے ہی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
فصیح جرال کی طرح لاکھوں کشمیری دیار غیر میں بیٹھے وطن کی محبت کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔ شاید اسی لیے ماہرین عمرانیات اور انسانیات کشمیریوں کو “ریڈیکل سوشل ڈیمو کریٹ “کے نام سے جانتے ہیں اور یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے پاسپورٹس پر سفر کرنے اور سال ہاسال سمندر پار بستے کشمیری دوہری شہریت اور بہتر سے بہتر سہولیات زندگی میسر ہونے کے بعد بھی خود کو کشمیری کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ڈھائی سو برس قبل مسیح میں قائم اپنی ’’سوشل ڈیموکریٹک حکومت‘‘ کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ لاشعوری طور پر اپنی قومی تاریخ سے بھی متاثر ہیں۔
پاکستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی اشرافیہ، مقتدر قوتوں، قانون ساز اداروں، جھوٹی رائے زنی اور ڈگڈگی پر ناچنے والوں کے لئے صرف اتنا کہوں گا کہ ستاروں سے آگے جہانوں کو بیدار مغز انسانوں نے دریافت کیا اور بند مغز اشرافیہ سکڑتے سکڑتے اپنے ہی بیانئے کی خول میں بند ہو کر رہ جاتی ہے۔ جو قوم اپنی تاریخ کو بھلا دیتی ہے ان کا جغرافیہ انہیں بری طرح فراموش کرتا ہے جغرافیائی یونٹ ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ تاریخ مسلسل خبردار کر رہی ہے اور نادان اپنے بیانئے سے آگے سننے پر مائل نہیں ہیں۔ اب سب کو مستقبل کی تاریخ کے فیصلوں کا انتظارکرنا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).