ویڈیو گیمز اور صنف نازک کا جنسی استحصال


ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق زیادہ دیر تک ویڈیو گیمز کھیلنے والے نوجوانوں میں جنسی رحجانات کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ یہ تحقیق فرانس کے دو شہروں لیون اور گرینوبل میں رہنے والے قریباً ساڑھے پندرہ ہزار نوجوانوں پر کی گئی۔ نوجوانوں سے ویڈیو گیمز کھیلنے کا دورانیہ اورخواتین کے بارے میں ان کے رویوں اور صنفی تصورات سے متعلق دریافت کیا گیا۔ جو نتائج سامنے آئے وہ کسی بھی ذی شعور انسان‘ خاص طور پر والدین کے رونگھٹے کھڑے کر دینے کے لئے کافی ہیں۔ نتائج پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ زیادہ دیر تک ویڈیو گیمز کھیلنے والے نوجوانوں میں صنف نازک کے بارے میں منفی رحجانات پرو ان چڑھتے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ منفی رحجانات کو پروان چڑھانے کی وجہ ان ویڈیو گیمز میں صنف نازک کے کردار کو مناسب طورپر پیش نہیں کیا جا تا ۔ تجزیہ نگاروں نے ان کی وجوہ یہ بیان کی ہےں کہ ان ویڈیو گیمز میں عورت کو ہمیشہ ایک مجبور‘ لاچار اوربے بسی کی علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو ہیرو کی امید لگائے بیٹھی ہوتی ہے کہ کب ہیرو آئے اور اسے ظالموں کے چنگل سے آزاد کرائے یا انہیں ایک گلیمرس شو پیس کے طور پر‘ جسے ہر قیمت پر حاصل کرنا مقصودہوتا ہے۔

پہلے تو خبر پڑھ کر دیکھی ان دیکھی کرنے کو جی چاہا ‘ جو میں نے کر بھی دی لیکن جب ذہن میں خیال آیا کہ ہمارا معاشرہ پہلے سے ہی مغرب زدہ ہے‘ تو پہلو تہی کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ پاکستان میں قریباً نصف سے زائد آبادی موبائل فون کی دلدادہ ہے‘ جن میں نوجوان نسل کی تعداد زیادہ ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی بھی نئی ویڈیو گیم آئے اور وہ ہمارے شاہینوں کے موبائلز میں نہ پائی جائے؟ یہاں میں والدین سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ وہ اپنے بچوں کو موبائل فونز ضرور لے کر دیں لیکن قوم کے معماروں پر چیک اینڈ بیلنس بھی رکھیں ۔ نہ صرف ویڈیو گیمز بلکہ سوشل میڈیا پر ان کی ہونے والی حرکات و سکنات سے بھی باخبر رہیں تاکہ آپ کا بچہ کنٹرول میں رہے ورنہ بعد میں پچھتانے کا کیا فائدہ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔

اگرچہ محترمہ بے نظیر بھٹو ‘ ملالہ یوسف زئی‘ ثمینہ بیگ‘ ارفع کریم جیسی با ہمت خواتین نے اپنے عزم و استقلال اور ذہانت کے بل بوتے پر صنف نازک کو ایک الگ پہچان دی اور ارباب اقتدار نے خواتین کو تحفظ دینے کے لئے وویمن پروٹیکشن ایکٹ کا نفاذ بھی کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں ایک اندازے کے مطابق ہر 24 گھنٹے میں سات خواتین کی عصمت دری کی جاتی ہے ۔ ستر فیصد خواتین کو گھریلو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں روزانہ دس خواتین کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے جبکہ دیہی علاقوں میں اسی فیصد خواتین کا معمولی معمولی باتوں پر شوہروں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ اب ذرا پڑھے لکھے معاشرے کا رخ کرتے ہیں ۔ جی ہاں شہری علاقوں کا‘ جو ہمارے معاشرے کا سب سے مہذب طبقہ تصور کیا جاتا ہے لیکن وہاں سے بھی صنف نازک کے بارے میں کوئی اچھی خبریں نہیں آتیں ۔ شہروں میں بھی چالیس فیصد خواتین کو محض اس بات پر زدوکوب کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے شوہروں کی غلامی قبول نہیں کرتیں۔

جہاں پہلے ہی صنف نازک کو مختلف حیلے بہانوں سے جنسی استحصال کا نشانہ بنایا جا رہا ہو‘ وہاں اس تحقیق کا سامنے آنا‘ خاص کرہمارے معاشرے کے لئے ایک الارمنگ سچوئشن ہے۔ آپ چوبیس گھنٹوں صنف نازک کے جنسی استحصال کاعملی مظاہرہ بس سٹاپ پر دیکھ سکتے ہیں۔ بس ذرا دیر کے لئے کسی بس سٹاپ پر کھڑے ہو جائیں۔ لوگ اپنی بس کے انتظار میں ہوتے ہیں لیکن جونہی کوئی خاتون وہاں آتی ہے تواکثر و بیشتر نوجوان خاتون کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے ایسے دیکھتے ہیں جیسے شوروم میں رکھا ہوا شوپیس ہو جسے پیسے دے کر فوراً خرید لیا جائے۔ بیچار ی خواتین کیسے اپنے آپ کو ان مردوں کی ننگی نگاہوں سے بچاتی ہیں‘ یہ وہی جانتی ہے۔ اگر صنف نازک کو حقیقی معنوں میںوطن عزیز کی ترقی میں حصے دار بنانا ہے تو ہم سب کو اپنی سوچ بدلنا ہو گی۔ سوچ اسی صورت بدلے گی جب ہم مغرب کی دی ہوئی ٹیکنالوجی کا مثبت انداز میں استعمال کریں گے اور مثبت استعمال تبھی ممکن ہو گا جب ہم اخلاقی پستیوں سے نکلنے کی کوشش کریں گے۔ ورنہ صنف نازک کا جنسی استحصال ہوتا رہے گا ۔ کبھی بس سٹاپس پر۔ کبھی دفاتر میں ۔ کبھی پارکوں میں۔ اور اب شاہینوں کو ویڈیو گیمز کی آڑ میں ایک اور موقع دے کر اکسایا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).