پارا چنار میں دہشت گرد حملہ


جمعہ کی نماز سے قبل آج پاراچنار کی نور مارکیٹ میں ایک امام بارگاہ کے قریب دھماکہ میں 22 افراد جاں بحق اور 90 زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ دھماکہ امام بارگاہ میں مستورات کے داخلہ کے قریب ہؤا اور دھماکہ سے پہلے فائرنگ کی گئی ۔ آخری اطلاعات کے مطابق یہ خود کش حملہ تھا جس میں اس علاقے کی شیعہ آبادی کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کروانے والی جماعت الاحرار نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ وزیر اعظم کی مذمت اور ملک میں آپریشن ضرب عضب کے بعد آپریشن رسدالفساد کے نام سے دہشت گردوں کو ہلاک کرنے اور ان کے ٹھکانے تباہ کرنے کے باوجود یہ بات طے ہے کہ دہشت گرد گروہ مسلسل فعال ہیں۔ انہیں پاکستان کے مختلف علاقوں میں سہولت کار دستیاب ہیں اور وہ سوچ سمجھ کر نشانہ لگانے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کی حکومت اور فوج کو اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔

پاراچنار میں ہونے والے حملہ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دہشت گرد گروہ پاکستان میں فرقہ واریت کی بنیاد پر انتشار پیدا کرنے کے مقصد سے کارروائی کرنے کی حکمت عملی پر کاربند ہیں۔ اس طرح ان حملوں کی مذمت کے باوجود ملک میں ایسے مباحث کرنے والے بھی سامنے آتے ہیں کہ کسی خاص فرقہ یا عقیدہ پر حملہ کس حد تک جائز ہے۔ ایسے مباحث سے لوگوں میں فکری بحران اور دہشت گردی کے خلاف یک سوئی کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کل ننکانہ صاحب میں ایک احمدی رہنما کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر ایسے تبصرے دیکھے جا سکتے تھے جن میں اس حملہ کو مسلمانوں کے جذبات کا نمائیندہ قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح ملک میں ایسے مذہبی رہنماؤں اور لوگوں کی کمی نہیں ہے جو شیعہ مسلک سے وابستہ لوگوں کو بھی ’جائز‘ نشانہ سمجھتے ہیں۔ یا کم از کم اس مسلک پر حملہ پر کسی خاص ناراضگی کااظہار نہیں کرتے۔ اس طرز عمل کا مظاہرہ گزشتہ ماہ سہون شریف میں شہباز قلندر کے مزار پر حملہ کے بعد بھی دیکھنے میں آیا جس میں 90 افراد جاں بحق ہوئے یا نومبر میں بلوچستان کے علاقے خضدار میں شاہ نورانی کے مزار پر ہونے والی دھمال پر حملہ میں 52 لوگ جان سے گئے۔ ان افسوسنا ک اور قابل مذمت حملوں کے بعد یہ مباحث سننے میں آتے رہے ہیں کہ کس حد تک مزاروں پر جانا یا دھمال ڈالنا اسلامی عقائد کے مطابق ہے یا ان کے خلاف ہے۔ اس طرح اصل نکتہ سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ایک دہیشت گرد حملہ میں انسانوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔

اس وقت فوج اور دہشت گردوں کے درمیان جنگ کی کیفیت موجود ہے۔ فوجی دستے موقع ملتے ہی دہشت گردوں کو ہلاک کرتے ہیں ، اسی طرح دہشت گردوں کو جب بھی موقع ملتا ہے، حملہ کرنے اور لوگوں کو ہلاک کرنے سے اجتناب نہیں کرتے۔ اس جنگ کو سمیٹنے اور لوگوں میں اس تصادم اور نفرت کے خلاف فضا تیار کرنے کی حکومتی کوششیں ابھی تک بارآور نہیں ہو سکی ہیں۔ دہشت گردی کے کسی واقعہ کے بعد افغانستان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں ان عناصر پر کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہے جو پاکستان میں حملہ کرنے کے لئے افغان سرزمین کو استعمال کررہے ہیں۔ فروری کے دوران یکے بعد دیگرے دہشت گرد حملوں کے بعد فوج نے افغانستان کے ساتھ سرحد کو ایک ماہ سے زائد مدت تک بند رکھا تھا۔ لیکن اس کا کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں آسکا۔ بالآخر وزیر اعظم کے حکم پر ’خیر سگالی‘ کے جذبہ کے تحت سرحد کھول دی گئی۔

گزشتہ روز صدر پاکستان ممنون حسین نے فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سال توسیع کی آئینی ترمیم کے مسودہ پر دستخط کردیئے ہیں ۔ اس طرح اب ان عدالتوں نے پھر سے کام شروع کردیا ہے۔ اب دہشت گردی میں ملوث ملزموں کو فوری اور مختصر سماعت کے بعد سخت سزائیں دی جا سکیں گی۔ لیکن حکومت یا فوج اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ جنوری 2015 میں فوجی عدالتوں کے قیام کے بعد دو سال کی مدت میں درجنوں دہشت گردوں کو موت کی سزا ئیں ملک میں دہشت گردی کی روک تھام میں معاونت کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہوئیں۔

حکومت یہ دلیل دیتی ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوئی ہے۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دہشتگردوں کے حوصلے پست ہو گئے ہیں۔ فوج کو مستعد کرکے اور قبائیلی علاقوں میں فوج تعینات کرنے یا شہری علاقوں میں آبادیوں پر اچانک چھاپوں کے ذریعے دہشت گردوں کے لئے مشکلات ضرور پیدا کی گئی ہیں۔ ان میں سے چند سو کو مارا بھی گیا ہے۔ لیکن ان اقدامات کا پائیدار فائدہ تب ہی ہو سکتا ہے جب یہ طے ہو کہ دہشت گرد ایک خاص تعداد میں موجود ہیں اور انہیں ختم کرنے کے بعد یہ مشکل ختم ہو جائے گی۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ ایک دہشت گرد مرتا ہے تو ایک خاص مزاج اور رویہ کے پرچار کی وجہ سے درجنوں نئے نوجوانوں کو اس راہ پر لگالیا جاتا ہے۔ حکومت اسی وقت کامیاب ہوگی جب وہ دہشت گرد پیدا کرنے کی ان فیکٹریوں کو بند کرنے کے لئے اقدامات کرسکے۔

ملک میں انتہا پسندی کی قبولیت کا رجحان دہشت گردی کی حوصلہ افزائی اور افزائش کا سبب بن رہا ہے۔ حکومت بوجوہ اس مزاج کو ختم کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔ اس کے برعکس ہر تھوڑی مدت کے بعد ایسا کوئی واقعہ رونما ہو تا ہے جو انتہا پسندانہ مذہبی جذبات کو فروغ دینے کا سبب بنتا ہے ۔ مذہبی رہنما ان واقعات کو مقبولیت حاصل کرنے کے ہتھکنڈہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور حکومت بھی سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے واضح اور دوٹوک رویہ اختیار کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ یہ صورت حال تبدیل نہ ہوئی تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کامیاب نہیں ہو سکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali