اپنی اوقات پہچانیں اور خدا کی راہنمائی بند کریں


عملی چھت پر بیٹھا پکا سوٹا لگا رہا تھا۔ اس کی پرواز بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی تھی۔ پرواز بادلوں سے اوپر اٹھی تو اپنی پرواز کے ساتھ وہ خود بھی اٹھا پتہ نہیں کس سمت قدم بڑھایا سیدھا چھت سے نیچے آ رہا۔ اتنی بڑی گھڑم ہوئی تو لوگ بھاگتے ہوئے آئے۔ عملی کو پکڑ کر سیدھا کیا اس سے پوچھا کہ کیا ہوا۔ عملی کے حواس بحال ہوئے تو بولا سہ خبر یو منگ خو پخپلہ اس راغلو۔ ہمیں کیا پتہ ہم تو خود ابھی پہنچے ہیں۔

آپ کو نہیں لگتا ہماری حکومت بھی ایسی ہی عملی ہے۔ جب کوئی پنگا ہوتا ہے حکومت ایسے ہی کپڑے جھاڑتے اٹھتی ہے ایسا سا ہی بیان دیتی ہے۔ کہ ہم تو خود ابھی پہنچے ہیں۔

پتہ نہیں اس کا اصل نام کیا تھا۔ کہتے اسے ہم گل بالی ہی تھے۔ افغان تھا کہیں ریڑھی لگاتا تھا۔ شام کو سوٹا کھینچنے اسلام آباد ڈیرے پر آتا تھا۔ ہم تب سٹوڈنٹ تھے۔ ڈیرے پر ناکام عاشقوں کا، دیوالیہ تاجروں کا اور پر عزم سیاسی کارکنوں کا اکٹھ ہوتا تھا۔ سارے ہی پختون تھے۔ جب وہ اپنا فنکشن کر لیتے اور ان کے دماغ اڑنے لگتے تو گل بالی کو گھیر لیتے۔

اس سے پوچھتے وایا گل بالی گھڑئے تہ تاسو پختو کے سہ وئے۔ بتا گل بالی گھڑی کو تم اپنی پشتو میں کیا کہتے ہو۔ گل بالی سب کو اک شان عالمانہ سے دیکھتا اور کہتا سیکو پنج یعنی سیکو فائیو۔ سارے اٹھ کر گل بالی کو جڑ جاتے کہ بنا سکتے نہیں ہو نام رکھنے میں تگڑے ہو۔ جب بنائی نہیں تو نام کیوں رکھا۔

یہ روز کا آئٹم تھا۔ ایک دن باقی جہازوں، سوری عملیوں، سے پہلے وسی بابے نے گل بالی سے پوچھا جہاز تہ سہ وائے تاسو (تم جہاز کو کیا پکارتے ہو؟)۔ گل بالی نے بڑے فخر سے جواب دیا ہل واتک (جہاز)۔ زیادہ تر عملی اٹھ کر گل بالی کو جڑ گئے، باقیوں نے وسی بابے کو لما لٹا لیا۔ خاطر مدارت کرنے کے لیے۔ غصہ وہی تھا کہ جب جہاز بنایا نہیں ہے تو اس کا نام کیوں رکھا ہے۔

آپ کو نہیں لگتا افغانوں کو اور ان کے حمایتیوں کو آج بھی ایسے لمبا لٹا لیا جاتا ہے۔ بھلے حمایتی کوئی نیا رنگروٹ ہی ہو وہ کوئی راستہ ہی نکالنا چاہ رہا ہو۔

بہت وقت گزرا عملیوں کے ڈیرے پر جانے کا اتفاق نہ ہوا۔ مالی پریشانیوں نے آن گھیرا تو پرانے دوست یاد آئے۔ ان سے ملنے چلے گئے۔ وہاں ایک عدد اچانک مولوی کم مجاہد کا اضافہ ہو چکا تھا۔ لگانے وہ بھی سوٹے ہی آتے تھے۔ سب بڑے تپاک سے ملے۔ یہ تعلق بڑے سیدھے اور سچے ہوتے ہیں۔ حال احوال ہوا تو بتا دیا کہ مالی مسائل کا شکار ہوں۔ مولوی صاحب نے چھلانگ ماری کہا کہ یہ مسلہ دعا سے حل ہو گا۔ دعا ٹو دی پوائنٹ ہونی چاہئے۔ مسائل کے حل میں اسی لیے دیر ہو جاتی ہے کہ ہم خدا سے ٹو دی پوائنٹ دعائیں نہیں کرتے۔

شام ہوئی تو اجازت چاہی تو عملی دوست نے روک لیا کہ ٹھہرو۔ وہ اندر اپنے کمرے میں گیا ایک پرانا بانڈ لیکر آیا کہ یہ لو تمھارا ہوا۔ ساتھ ہی مولانا صاحب سے دعا کی درخواست کی۔ مولانا صاحب حالت پرواز میں تھے۔ انہوں نے سب سے ہاتھ اٹھانے کو کہا۔ ہم نے ہاتھ اٹھائے تو کہا خدایا اس خو میں درتہ آسانا کڑا یو بانڈ ئے وے باسا۔ اے خدا اب تو میں نے تمھارے لیے آسان کر دیا ایک بانڈ ہے۔ یہی نکال دو ہمارے دوست کا مسئلہ حل ہو جائے۔

آپ کو یہ نہیں لگتا کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا؟ بات خدا کو گائیڈ کرنے تک آ گئی ہے۔ اپنی اوقات پہچانیں اور خدا کی راہنمائی بند کریں تاکہ کوئی سکھ کا سانس آئے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi