انتہا پسندی کا غلبہ قائم ہے


 گزشتہ دنوں گاہے گاہے پاکستان کے لئے ایک نئے یا متبادل بیانئے کی بات ہوئی ہے۔ گویا اس ضرورت کو محسوس کیا جا رہا ہے کہ اگر ہم پاکستان کو پرامن، روشن خیال اور صحیح معنوں میں ایک جمہوری ملک بنانا چاہتے ہیں تو اس کےخدوخال کیا ہوں گے۔ اس کا منشور کیا ہوگا۔ اس کی سمت کا تعین کیسے ہو گا۔ اس متبادل بیانئے کی ضرورت اس لئے بھی ہے کہ مذہبی کٹر پن، انتہا پسندی اور عدم برداشت نے ہمیں لہولہان کردیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ دہشت گردی کےخلاف ریاست کی جنگ بڑی حد تک کامیاب رہی ہے۔ لیکن اجتماعی سوچ اور ماحول میں تبدیلی کے بغیر اس کو جڑوں سے نہیں اکھاڑا جا سکتا۔ مطلب یہ کہ اب راستہ تبدیل کرنا ہے کیونکہ جس راہ پر ہم کبھی کبھی آنکھیں بند کرکے چلتے رہے ہیں وہ ہمیں اندھیرے کے نشیب میں اترتی دکھائی دے رہی ہے۔ بہرحال جب وزیراعظم نواز شریف لاہور میں جامعہ نعیمیہ تشریف لے گئے تو اپنی تقریر میں انہوں نے علماء سے یہ درخواست کی کہ وہ ایسے نئے بیانئے کی تشکیل کریں کہ جو دہشت گردی کے نظریے کو رد کرے۔ ایک ہفتہ بعد کراچی میں ہولی کی ایک تقریب میں انہوں نے اپنی بات ایک اور انداز میں کی۔ ہندو برادری کے اجتماع میں انہوں نے مذہبی آزادی کے عہد کو دہرایا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان مذہب کے نام پر منافرت کو ختم کرنے کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ اس طرح ان کی تقریر میں قائداعظم کی 11؍اگست 1947ء کی تقریر کی بازگشت موجود تھی کہ جسے سیکولر طبقے ایک پرچم کی طرح لہراتے ہیں۔ نواز شریف کے ان بیانات کو خاصی اہمیت دی گئی۔ پاکستان کے لئے ایک نئے بیانئے کی ضرورت پر گفتگو کی گئی۔ یہ تاثر پیدا ہوا کہ نواز شریف اب ایک روشن خیال پاکستان کے قیام کے لئے کوشاں ہیں کہ جس میں قدامت پسندی کے بجائے ترقی پسند اور لبرل خیالات کو فروغ حاصل ہو۔

ہم اس امکان کو رد نہیں کرسکتے کہ نواز شریف کی اپنی سوچ میں کوئی تبدیلی رونما ہوئی ہے اور انہوں نے حالات و واقعات کو سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ دہشت گردی اور فرقہ پرستی کے طوفان نے ہماری اجتماعی زندگی کو جس طرح تہہ و بالا کیا ہے اس کا خمیازہ ہم سے برداشت نہیں ہوپارہا۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حال نے حکمرانوں کو بھی پریشان رکھا ہے۔ لیکن جس سوچ اور پالیسی کی وجہ سے یہ خلل پیدا ہوا کو بدلنا بھی آسان نہیں ہے۔ پھر بھی 16؍دسمبر 2014ء کو پشاور میں دہشت گردوں نے جس ناقابل تصور بربریت کا مظاہرہ کیا اس کے نتیجے میں انقلابی اقدامات اور سوچ میں تبدیلی کو ناگزیر سمجھا جانا چاہئے۔ نیشنل ایکشن پلان کے چند نکات میں ایک نئے بیانئے کی سرسراہٹ سنی جا سکتی تھی۔ کوئی شاید یہ دلیل بھی دے کہ نواز شریف کے تازہ بیانات اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔ کئی مبصر یہ بھی کہتے ہیں کہ اب حالات تبدیل ہو رہے ہیں یعنی مذہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت کے خلاف ایک مہم کا آغاز ہو چکا ہے۔ لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو شاید ایسا نہیں ہے۔ بلکہ میرا خیال تو یہ ہے کہ انتہا پسندی اپنی جگہ موجود ہے اور حکمرانوں کی جانب سے کسی متبادل بیانئے کی تشکیل کے لئے کسی پیش قدمی کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ مذہب اور حب الوطنی کا نعرہ لگا کر نفرت اور عدم برداشت کا مظاہرہ کرنے والے عناصر خود کو محفوظ اور مضبوط سمجھتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مجھے میر کا وہ شعر یاد آتا ہے کہ جس کے سبب بیمار ہوئے اسی سے دوا کا مطالبہ ہے۔ یہ کیسے تضادات ہیں اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیے کہ نواز شریف کی جامعہ نعیمیہ میں تقریر کے دوران ممتاز قادری کی حمایت میں نعرے بھی بلند ہوئے۔ ایک اور تبصرہ یہ بھی ہے کہ انتہا پسندی کے پھیلائو کی وجہ تو حکمرانوں کی اپنی پالیسیاں تھیں تو اس کے خلاف کوئی بیانیہ وہ لوگ کیسے تجویز کرسکتے ہیں جنہیں ان پالیسیوں سے تقویت حاصل ہوئی۔

اہم سوال یہی ہے کہ روشن خیال پاکستان کے لئے ایک نیا بیانیہ کہاں سے آئے گا اور معاشرے کے وہ کون سے طبقے ہیں جو اسے وضع کرسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں میں دو تقریبات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن میں ایک نئے بیانئے کا ذکر ہوا اور ان دونوں تقریبات میں سینٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی موجود تھے۔ 19مارچ کو کراچی آرٹس کونسل میں میاں رضا ربانی کی انگریزی میں لکھے گئے افسانوں کے مجموعے کی رونمائی تھی اور اس میں مجھے بھی اظہار خیال کا موقع ملا۔ میں نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ جو ایک متبادل بیانئے کی بات چلی ہے تو کیا ادب اس بیانئے کی بنیاد بن سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں میاں رضا ربانی نے یہ بات یاد دلائی کہ کیسے ضیاء الحق نے ایک منصوبے کے تحت کافی ہائوس کلچر یعنی مکالمے اور ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کو دبایا اور کالجوں اور یونیورسٹیوں کی طلباء تنظیموں پر پابندی لگائی۔ پھر اسی موضوع پر اگلے اتوار ڈاکٹر جعفر احمد کی کتاب کی رونمائی کے موقع پر بھی کچھ گفتگو ہوئی۔ آرٹس کونسل کی اس تقریب میں مہمان خصوصی میاں رضا ربانی تھے۔ انہوں نے اس خیال سے اتفاق نہیں کیا کہ حکومت ایک متبادل بیانئے کے حصول کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ اگر ایسا ہوتا تو قومی سطح پر کانفرنسیں منعقد کی جارہی ہوتیں جن میں دانشور مفکر، ادیب اور شاعر شرکت کرتے اور پاکستان کی سمت اور اس کے مستقبل کے بارے میں غوروفکر کرتے۔ ایسا تو نہیں ہورہا بلکہ میں تو یہ دیکھ رہا ہوں کہ ایک آزاد اور علم و آگہی سے بہرہ ور معاشرے کا خواب دیکھنے والے خود کو انتہا پسندوں کے نرغے میں غیرمحفوظ سمجھتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے کسی ایسی تحریک کا اشارہ بھی دکھائی نہیں دیتا کہ ادب اور فن اور تخلیق کو فروغ دیا جائے اور مکالمے کے لئے سازگار ماحول پیدا کیا جائے۔ زمینی حقائق کیا ہیں اس کا ایک مظاہرہ پنجاب یونیورسٹی کے کیمپس پر دیکھا گیا جب پشتون طلباء کی ایک ثقافتی تقریب کو اسلامی جمعیت طلباء کے کارکنوں نے درہم برہم کردیا۔ میں ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی اس تصویر کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس میں نوجوانوں کا ایک گروہ سڑک پر موجود ہے۔ چند کے ہاتھ میں ڈنڈے ہیں۔ اگر یہ تصویر آپ خبر سے الگ کرکے کسی کو دکھائیں اور پوچھیں کہ یہ کون لوگ ہوسکتے ہیں تو کوئی یہ نہ کہے کہ ارے، یہ تو ہماری ایک مایہ ناز جامعہ کے مقرر طالب علم ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ایک ہجوم، توڑ پھوڑ پر آمادہ ہے۔ کسی کے ہاتھ میں کوئی کتاب نہیں اورکسی کے چہرے پر تحمل یا شرافت یا خود اعتمادی کا کوئی تاثر نہیں۔ اگر آپ ترقی یافتہ دنیا کو دیکھیں تو یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ ان کے کیمپس ہی نئے خیالات اور نئی تحریکوں کو جنم دیتے ہیں۔ کئی معنوں میں اس فکری عمل کا آغاز ادب کے مطالعے سے ہوتا ہے۔ اگر کوئی تصادم ہوتا ہے تو فکری سطح پر اور اس تصادم میں منطق، دلیل اور حقائق کے ہتھیار کام آتے ہیں۔ یہی ہتھیار ایک نئے بیانئے کی جستجو میں استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ انسانی ترقی کی جنگ میں کتاب سے زیادہ کارگر ہتھیار دریافت نہیں ہوا۔ افسوس کہ ہمارے تعلیم یافتہ افراد بھی کتاب سے پرہیز کرتے ہیں اور اسی لئے ان کے لئے یہ سوچنا اور سمجھنا بھی مشکل ہے کہ کسی معاشرے کو زندہ رہنے کے لئے کسی بیانئے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).