جمعیت علماء ہند، کمال اتاترک اور جناب خورشید ندیم


جے یوآئی کے زیر اہتمام جمعیت علماء ہند کے قیام کی سوسال پورے ہونے کی مناسبت سے آیندہ ہفتے پشاور میں منعقد ہونے والے تین روزہ اجتماع نے ملک میں ایک بار پھر غیر منقسم برصغیر کے دور کی سیاست کو زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں 25 مارچ کو جناب خورشید ندیم صاحب نے ” کیا اسلام کو خطرہ ہے“ کے عنوان سے ایک کالم لکھا تھا جو کہ حبیب جالب مرحوم کی نظم ” خطرے میں اسلام نہیں“ کی نثری تشریح تھی۔ اس کالم میں ضمناً صد سالہ کانفرنس کے حوالے سے مولانا فضل الرحمن کے اس بیان کو بھی کوٹ کیا گیا تھا کہ ”عالمی اجتماع دین بیزار قوتوں کے منہ پر زوردار تمانچہ ہوگا ہمیں دشمنوں، ملحدین، اور سیکولر عناصر کو سخت پیغام دینا ہوگا“۔

روزنامہ جنگ کراچی میں شائع ہونے والے اس بیان کے بارے میں جناب مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ خورشید ندیم صاحب کی خیالات کے احترام کے باوجود انہوں نے جس بیان کو بنیاد بنا کر مضمون لکھ دیا ہے فضل الرحمن نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا۔ جے یوآئی کے کارکنوں نے مذکورہ کالم کی اشاعت پر خورشید ندیم کے لتے لینا شروع کر دیے کہ انہوں نے ” بغیر تحقیق“ کے مولانا فضل الرحمن سے غلط طور پر منسوب بیان کو کالم کا موضوع بنایا حالآنکہ جے یو آئی کے کارکنوں کا یہ احتجاج اس لیے غلط تھا کہ ایک لکھنے والے کے لئے اخبار میں شائع ہونے والا بیان ہی تبصرے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ یہ ذمہ داری لکھنے والے کی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کی ہوتی ہے کہ اخبارات میں شائع ہونے والے خیالات واقعی ان کی قیادت کے خیالات ہی ہو تاہم اس کے باوجود خورشید ندیم صاحب نے وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوے اگلے دن کے کالم کی پس نوشت میں جے یوآئی کی وضاحت شامل کرلی تھی۔

آج یکم اپریل کو جناب خورشید ندیم صاحب نے

مولانافضل الرحمن اور جمعیت علماء ہند“ کے عنوان سے ایک بارپھر مذکورہ موضوع پر قلم اٹھایا ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ ” مولانا ( فضل الرحمن ) کی سیاست کی طرح ہمیں جمعیت ( علماء ہند ) کی تاریخ میں بھی تضادات نظر آتے ہیں مولانا کی طرح جمعیت کے قایدین بھی اس میں تطبیق پیدا کرتے دکھائی دیتے ہیں“ ان تضادات کی نشاندہی کے لئے انہوں نے بطور مثال جمعیت علماء ہند کے دو اجلاسوں کی قراردادیں پیش کی ہیں۔ بقول خورشید ندیم صاحب کے پہلا اجلاس 22 نومبر 1922 کے اجلاس کی دو مختلف قراردادیں ہیں جن میں سے ایک قرارداد میں مصطفی کمال کو ” مجدد خلافت“ کا لقب عطا کیا گیا ہے جبکہ دوسرے قرارداد میں سلطان عبد المجید ثانی کو خاندان عثمانی کی خدمات کے پیش نظر خلیفہ تسلیم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مارچ 1939 کے اجلاس میں مصطفی کمال کے انتقال پر مجاہد اعظم، غازی، ترکی کے استخلاص وطن اور استقلال کے روح رواں، مفکر اعظم اور مجاہد اکبر جیسے الفاظ سے ان کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔

جناب خورشید ندیم کے نزدیک ان قرار دادوں میں موجود تضاد یہ ہے کہ ایک طرف مصطفی کمال کی تحسین کی گئی ہے اوردوسری طرف اسی اجلاس میں خلیفہ کو بطور خلیفہ تسلیم کیا گیا ہے اور پھر خلافت کو تحلیل کرنے والے کمال اتاترک کو ان کے انتقال کے بعد غیر معمولی القابات اور خطابات سے نوازا گیا ہے۔

ان دو اجلاسوں میں سے پہلا اجلاس نومبر نہیں بلکہ دسمبر 1922 میں منعقد ہوا تھا اور جن قرار دادوں میں خورشید صاحب تضاد ثابت کرنا چاہتے ہیں اس کی وجہ معاملے کی تفصیلی پس منظر سے ان کی لاعلمی یا چشم پوشی ہوسکتی ہے۔

پہلی جنگ عظیم میں ترکوں نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا۔ جنگ میں جرمنی کی شکست کے بعد فاتح قوتوں نے معاہدہ سیورے کے تحت سلطنت عثمانیہ کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹ دیا تھا اس قبضے کے خلاف کمال اتاترک کی قیادت میں مسلح مقاومت کے نتیجے میں 18 دسمبر 1922 کو تمام جارح افواج کو ترکی سے نکال دیا گیا کمال اتاترک اس سے بہت پہلے 1919 میں ہی بیرونی قبضے کے خلاف قسطنطنیہ کو چھوڑ کر انقرہ کو اپنا مرکز بنا چکے تھے 1920 میں اتاترک انقرہ میں ترکی کی پہلی قومی کونسل کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ یکم نومبر 1922 کو عثمانی خلیفہ سلطان محمد ششم کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد 19 نومبر کو اسی قومی کونسل یا اسمبلی نے عبدالمجید ثانی کو نیا خلیفہ بنایا۔ ترکی کے مکمل آزادی کے صرف چار دن بعد منعقد ہونے والے جمعیت علماء ہند کے اجلاس میں اسی کارنامے کی بنیاد پر اتاترک کو مجدد خلافت قرار دینے کے بعد اسی اجلاس کی ایک دوسرے قرارداد میں سلطان عبدالمجید ثانی کو بطور خلیفہ تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس وقت تک ”کمال ازم“ اور ” خلافت“ کے درمیان کوئی جھگڑا تھا ہی نہیں جس کی طرف صدر اجلاس مولانا حبیب الرحمن دیوبندی نے اپنے تفصیلی خطاب میں بھی ان الفاظ سے اشارہ کیا ہے کہ ” غازی مصطفی نے جدید خلیفة المسلمین کا انتخاب کیا ہے“ اس تناظر کو مدنظر رکھنے کے بعد بہ یک وقت خلیفہ اور اتاترک کی تحسین سے تضاد کیسے پیدا ہوتا ہے؟

تاہم خلافت کی اصطلاح اور نظام دونوں کو مستقل طور پر تحلیل کرنے کے بعد کمال اتاترک سے جمعیت کی گلے شکوے ہمیں جماعت کے اجلاس ششم میں نظر آتے ہیں جو 11 تا 13 جنوری 1925 کو ابوالمحاسن محمد سجاد نقشبندی کے زیر صدارت منعقد ہواتھا۔ لیکن خلافت کی تحلیل پر ناراضگی کے اظہار کے باوجود جمعیت کی رائے یہ تھی کہ اب ترک قوم کو مططفی کمال کی قیادت میں اپنے قومی وجود کو مستحکم کرنے کے لئے رائج نظام کے دائرے میں رہ کر ہی کام کرنا چاہیے۔ جس وقت ترکی میں خلافت کو تحلیل کیا گیا تھا تو مولانا عبید اللہ سندھی ترکی میں ہی قیام پزیر تھے۔ اپنے اس دور اقامت کے تجربے کی روشنی میں وہ لکھتے ہیں کہ ” 1923 کو میں انقرہ پہنچا تخمیناً تین سال ترکی میں رہا اور وہاں میں نے تحریک اتحاد اسلامی کا تاریخی مطالعہ کیا مجھے مستقبل قریب میں اس کا کوئی مرکز نظر نہیں آیا اس لیے میں نے ترکوں کی طرح اپنی اسلامی مذہبی تحریک کو انڈین نیشنل کانگرس میں داخل کرنا ضروری سمجھا“۔

اس پس منظر کو مدنظر رکھنے کے بعد اس امر کی بآسانی نشاندہی ہوتی ہے کہ خلافت کی تحلیل سے پہلے کمال اتاترک بہ یک وقت خلافت اور ترکی کے حریت و آزادی کے نقیب تھے جبکہ خلافت کو تحلیل کرنے کے بعد ان کی مذہبی شان اور شناخت اگرچہ باقی نہیں رہی تاہم ترکی کے جنگ آزادی کے سپہ سالار اور جدید ترکی کے بانی کی حیثیت سے ان کی شخصیت کی اہمیت کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ مارچ 1939 میں جمعیت علماء کے اجلاس میں انہیں جن شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے اس میں ایک بھی ایسے الفاظ استعمال نہیں ہوئے ہیں جس سے ان کی مذہبی تناظر میں تحسین کی گئی ہو۔ اس کے باوجود جناب خورشید ندیم صاحب کو اس موقف میں جمعیت کے کسی پرانے موقف کے ساتھ جو تضاد نظر آرہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے خاکسار کے خیال میں یہ ” تضاد“ کا مسئلہ نہیں بلکہ خود جناب خورشید صاحب کی ” نظر“ کا مسئلہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).