عمران خان کس کے ساتھ ہیں؟


وہ لوگ جو اخبارات کے میگزین سیکشن میں کام کرتے ہیں اور ان کو ہر سال کے شروع میں گزرے برس میں مختلف میدانوں سے متعلق اہم باتوں کا خلاصہ بیان کرنا ہوتا ہے۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ عمران خان کا یہ بیان محفوظ کر لیں کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جمہوریت کے ساتھ کھڑے ہیں کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ سال بھر میں اس سے اہم بیان پاکستان کیا، دنیا بھر میں کوئی سیاسی لیڈر نہیں دے سکے گا۔ کیا عمران خان کو نہیں معلوم کہ کسی بھی جمہوری معاشرے میں فوج کا سربراہ جمہوریت کے ساتھ ہی کھڑا ہوتا ہے اور اسی میں اس کے پیشے اور عہدے کا وقار ہوتا ہے اور جو یہ راہ اختیار نہیں کرتے وہ اپنی اور اس ادارے کی عزت میں بٹہ لگاتے ہیں جس نے انھیں پیشہ ورانہ زندگی کی معراج پر پہنچایا ہوتا ہے۔

2014 میں عمران خان جب اپنے سیاسی کزن طاہرالقادری کے ساتھ مل کر دھرنا دے رہے تھے تو ان کی اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف صاحب سے ملاقات ہوئی تھی جس کے لیے روانہ ہوتے وقت ان کے چہرے پر اتنی خوشی تھی کہ 1992 کا ورلڈ کپ میں فتح کے بعد بھی نہ تھی۔ اگر آپ کو ہماری بات میں مبالغہ لگے تو انٹرنیٹ سے وہ تصویر نکال کر دیکھ لیں۔ دھرنے کے دوران عمران خان امپائر کے انگلی اٹھانے کا یقین دلاتے رہے لیکن وہ انگلی نہ اٹھ سکی تاہم اس کے نتیجے میں جمہوریت بیٹھ گئی بلکہ کہنا چاہیے لیٹ گئی اور پھر جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ تک جمہوریت بال کھولے دیوار کے سائے میں سوئی رہی۔

جب جنرل راحیل شریف کو پورے ملک میں مسیحا کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا اور ہر طرف شکریہ راحیل شریف کا آوازہ بلند ہو رہا تھا اور انھیں ملک بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پکار پکار کر بعض اینکروں کے گلے رندھ گئے تھے, عمران خان اپنا وزن عسکری پلڑے میں ڈالتے رہے اور جمہوری حکومت کی سبکی پر مزہ لیتے رہے۔ انہوں نے اس دوران یہ بھی کہا کہ اس جمہوری حکومت سے مشرف کی آمریت بہتر تھی لیکن اب مسلم ممالک کے 34 رکنی فوجی اتحاد کی سربراہی کے لیے راحیل شریف کو حکومت کی طرف سے باضابطہ اجازت ملنے پر تحریک انصاف احتجاج کر رہی ہے۔ اس کا موقف ہے کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ تحریک انصاف کا راحیل شریف کے کسی فیصلہ کی مخالفت کرنا باعث حیرت ہے اور اس پر طرہ یہ کہ تحریک انصاف اور پارلیمنٹ کی بات کرے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں، اس سے پہلے بھی عمران خان پرویز مشرف کی ٹھیک ٹھاک حمایت کے بعد جس میں شرمناک ریفرنڈم میں ساتھ دینا بھی تھا، ان کے مخالف ہو گئے تھے۔ یاد رہے اس تاریخ ساز ریفرنڈم میں طاہر القادری بھی مشرف کے ساتھ کھڑے تھے ۔ عمران خان کی سیاست سمجھ نہیں آتی۔ کبھی تو کسی چیف جسٹس سے توقعات باندھ لیتے ہیں اور کبھی کسی آرمی چیف سے، اور پھر جب دیکھتے ہیں کہ ان صاحبان کے لیے ان کی غیر آئینی امنگوں کا ساتھ دینا ممکن نہیں تو ان سے روٹھ جاتے ہیں۔  آخر کب تک عمران خان تھرڈ امپائر کی طرف دیکھتے رہیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).