سرکاری نوکر اور دیانت داری کا عذاب



قبلہ یوسفی صاحب نے لکھا تھا کہ کاروباری لوگوں کو کرپٹ افسر سے نمٹنے کا طریقہ معلوم ہے لیکن دیانت دار افسر سے ان کی جان جاتی ہے۔ وہ معاملات کو لٹکائے رکھتا ہے۔

اس سلسلے میں روایت ہے کہ دیانت دار سرکاری افسر کوشش کرتے ہیں کہ فیصلہ کرنے کا بوجھ کسی اور پر ڈالا جائے۔ جبکہ کرپٹ افسر غلط یا صحیح کام میں risk کا حساب لگا کر بھاؤ طے کرتا ہے۔ اور کام کر دیتا ہے۔ ۔

ہمیں ایک وکیل نے بتایا کہ وہ ایک دفعہ کسی کاروباری شخصیت کی سرکار کی طرف پھنسی لمبی رقم کے سلسلے میں ایک بڑے اور دیانت دار افسر سے ملے۔ اور اس سے پوچھا کہ اس کا کام غلط ہے؟ کہا بالکل ٹھیک ہے۔ پھر کرتے کیوں نہیں؟ اس نے کہا کام اتنا بڑا ہے کہ اگر کر دیا تو لوگ شک کریں گے۔ حاسدین میڈیا سے نیب تک طوفان اٹھا دیں گے۔ آپ مہربانی کر کے رٹ کردیں۔ عدالت حکم کر دے گی تو ہماری ذمہ داری ختم۔

ہمارے ایک دوست سرکاری افسر نے ہمیں بتایا کہ اکثر سینئر سرکاری افسر شوگر، بلڈ پریشر یا دل کے مریض ہوچکے ہیں۔ وجہ پوچھنے پر فرمایا کہ سیکریٹری، وزیر اور باس تینوں ایک ہی معاملے میں تین متضاد نتائج چاہتے ہیں۔ اب بندہ کس کی مانے۔ جبکہ سب آپ کا تیا پانچہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ مزید بتایا کہ کوئی کیس جلدی نکال دیں تو کوئی نہ کوئی طنزیہ یا تحکمانہ لہجے میں ضرور پوچھے گا کہ اتنی جلدی کیا تھی کیا پیسے آگئے تھے؟ اگر لٹکا دیں تو پوچھیں گے کہ اتنے دنوں سے کیس کیوں لٹکایا ہوا ہے پیسوں کا انتظار کر رہے ہو؟

ایک سرکاری کارپوریشن کے ملازم نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے کئی فیصلے موجود ہیں کہ آپ سینئر کا غیر قانونی حکم ماننے کے پابند نہیں۔ کوئی اگر اس بات کو سیریس لے کر عمل کر بیٹھے اور اس کا ادارہ اگر اس کو بالکل ناجائز نکال دے تو آپ رل جاتے ہیں۔ یہ طے ہونے میں کہ محتسب، سول کورٹ، ہائی کورٹ یا سروس ٹربیونل میں سے آپ کا کیس کس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔ آپ کی ریٹائرمنٹ کی عمر ہو جاتی ہے۔

ایک اور وکیل صاحب نے بتایا کہ ایک بڑے کاروباری ادارے کا کام لٹکا ہوا تھا۔ سینئر افسر مجاز سے پوچھا چکر کیا ہے؟ بولا مسئلہ کوئی نہیں لیکن اب چونکہ ہر کیس کو میڈیا اچھال دیتا ہے پھر میڈیا، نیب، پارلیمنٹ، عدالت اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سب کی پیشیاں بھگتنی پڑتی ہیں۔ اور ہر ایک کو الف سے ے تک مسئلہ سمجھانا پڑتا ہے۔ اس لیے افسروں میں کام لٹکانے کا رجحان پہلے سے بھی بڑھ گیا ہے۔ معاملے پر ہر پہلو سے غور کیا جاتا ہے۔ اور ممکن ہوتو معاملے کو لٹکانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پھر بتایا کہ اب فریڈم آف انفارمیشن کے قانون کے تحت ہر شہری سرکاری اداروں سے معلومات طلب کر سکتا ہے۔ اس کے تحت شہری ایسی اطلاعات بھی مانگ لیتے ہیں جن سے ان کا تعلق نہیں ہوتا یا ادارے کی ویب سائٹ پر پہلے ہی موجود ہوتی ہے یا معلومات کے نام پر قانونی مشورہ مانگا جارہا ہوتا ہے۔ جس پر خود ہمارا علم محدود ہوتا ہے تو ان کو کیا بتائیں۔

ایک اور دوست نے بتایا کہ ایک المشہور شخصیت نے ریٹائرمنٹ پر اپنے پی اے کو فون کر کے کہا کہ شام کو ایک بندہ ایک بریف کیس لائے گا وہ رکھ لینا۔ اس کی ہچکچاہٹ پر فرمایا کہ مجھے معلوم ہے تم نے کچھ غلط نہیں کیا۔ لیکن جب سرکار مجھے پکڑے گی تو میرے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے ممکن ہے تمھیں بھی ضمانت کروانی پڑے پیسے رکھ لو۔ کام آئیں گے۔

ایک دفعہ ہمارے ایک نابینا دوست سرگودھا سے لاہور تشریف لائے۔ سرکار نے کنٹریکٹ پر لکچرر کی نوکریاں نکالی تھیں۔ چونکہ کافی عرصے بعد نوکریاں نکلی تھیں۔ اس لیے سب کو عمر میں ریلیکسیشن دی گئی۔ لیکن شرط یہ تھی کہ لاہور سکریٹریٹ میں آکر ہر امیدوار درخواست دے۔ ہمارا سرگودھے کا دوست یہی درخواست دینے آیا تھا۔ ہم اس کے ساتھ تھے کیونکہ اس کا اکیلے موو کرنا مشکل تھا۔ جب سیکریٹیریٹ پہنچے تو معلوم ہوا درخواست کے ساتھ ایم اے کی سند کی تصدیق شدہ کاپی بھی لگانی ہے۔ موبائل ابھی عام نہیں ہوئے تھے۔ ہم نے سیکشن افسر کی منت سماجت کی کوشش کی۔ اس نے کہا میں کیوں رسک لوں۔ عرض کیا نوکری تو سند پر ہی ملے گی۔ عمر کی ریلیکسیشن پر نہیں ملے گی۔ پھر ہم نے وزیر اور سیکرٹری کو ملنے کی کوشش کی ناکام رہے۔ سند کسی کے دفتر سے لاہور کے کسی دفتر فیکس کروائی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب خاکسار اور اس کا دوست رکشے کو امرا کی سواری سمجھتے تھے۔ اور سفر لاہور کی ویگنوں میں مرغا بن کے کرنا پڑتا تھا۔ فیکس وصول کر کے ایک لیکچرر دوست سے جاکر تصدیق کروائی۔ غالباً ہفتے کا دن تھا۔ بتایا گیا آرڈر سوموار کو ملے گا۔ اب سوموار سرگودھا کے کالجوں میں درخواست دینے کا آخری دن تھا۔ ہم نے منت سماجت ایک اور ناکام دور شروع کیا۔ آخر ایک چپڑاسی کو پچاس روپے دیے اس نے آدھے گھنٹے بعد لیٹر پکڑا دیا۔ دوست کی رائے تھی کہ ہم دونوں الو کے شاگرد ہیں۔ اگر آپ کا ابا چیف سیکرٹری لگا ہوا ہو تو بھی جو کام سو پچاس میں ہوسکتا ہو۔ وہ اس کو بھی نہیں کہنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).