کیا اردو تبدیل ہو رہی ہے ؟


ہمارے بی بی سی کے پرانے ساتھی اور جانے پہچانے پروگرام پروڈیوسر عارف وقار جب کبھی سورج نکلنے سے پہلے فون کر دیں تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ ہو نہ ہو زبان و بیان کا کوئی نیا پھڈا شروع ہونے والا ہے ۔ ’اقبال کے شعر میں نانِ جویں مونث ہے یا مذکر؟‘ ’رِضوی زیر سے نہیں زبر سے ہونا چاہئیے مگر شوکت حسین رَضوی کہنا کیا کانوں کو عجیب سا نہیں لگتا؟ ‘ ’جزو کی جگہ کُل ، سبب کی بجائے مسبب ، ظرف سے مراد مظروف ، اب یہ بتاؤ کہ مجازِ مرسل کی چوتھی قسم کون سی ہے ؟ ‘ عارف صاحب کا دو روز پہلے کا سوال ایک ایسے لفظ کے بارے میں ہے جسے پنجابی پس منظر سے الگ کر کے دیکھیں تو مہذب ماحول میں سننے اور بولنے کے قابل نہیں رہتا ۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے کالم پہ نظرِ ثانی کرنے والے ایڈیٹر ایک مرتبہ مجھے بھی اِس پیرایہ ء اظہار سے دور رہنے کی تلقین کر چکے ہیں ۔ آپ پوچھنا چاہیں گے کہ وہ کونسا لفظ ہے مگر فی الوقت یہ نکتہ میری توجہ کا مر کز نہیں ، نہ ہی واقعات کا وہ تسلسل جس میں بظاہر ایک بے ضرر سی بات کہنے سننے میں کچھ کی کچھ بن گئی ۔ اصل اہمیت ایک اور نکتہ کی ہے جس کی نشاندہی تازہ واقعہ کا حوالہ دے کر عارف وقار نے اپنے مخصوص انداز میں کی ۔ کہنے لگے ’ پاکستان بننے سے پہلے لاہور کے کارکن صحافی اور ادیب الفاظ و معانی کے مسائل پر عبد المجید سالک یا غلام رسول مہر سے رجوع کیا کرتے تھے یا مولانا ظفر علی خاں اور چراغ حسن حسرت سے رہنمائی لی جاتی ۔ اب زمانہ اتنا بدل گیا ہے کہ قواعد و اسلوب کا کوئی تنازعہ اٹھے یا الفاظ و تراکیب کے استعمال میں کسی ابہام یا پیچیدگی کا سامنا ہو تو لوگ میرے یا تمہارے دوالے ہو جاتے ہیں اور جواب نہ ملے تو پھر لے دے کر اپنے شعیب بن عزیز ۔ اسے کہتے ہیں قحط الرجال‘ ۔

یہ سنتے ہی میری آنکھوں کے سامنے ہمارے واہ والے اسکول کا وہ کلاس روم گھوم گیا جہاں اُستادوں کے استاد مولانا بشیر احمد صمصام اردو پڑھاتے ہوئے ایک گونہ تمکنت سے فرمایا کرتے تھے کہ صمصام دو دھاری تلوار ہوتی ہے ۔ پھر لفظ ’تو‘ کو ذرا طول دے کر کہتے ’یہ تلوار اِدھر چلے تو کاٹے ، اُدھر چلے تو کاٹے‘ ۔ کلاس میں تلفظ کی حرکت و سکون کا خاص خیال رکھا جاتا ۔ لڑکے باری باری کتاب کا ایک ایک پیرا گراف پڑھ کر سناتے تو صمصام صاحب کی مشفقانہ جھڑکیاں ایک سماں باندھ دیتیں ’ اِیوان نہیں ، اَیوان ۔ اِہم نہیں ، اَہم ‘۔ ایک دن کسی نے بادشاہ کو بادچھا کہہ دیا ، آواز گونجی ’ابے سِکھ ہے! ‘ ۔ اشعار کی زیر و زبر کا معاملہ تو اور بھی ٹیڑھا تھا ۔ دو ایک طالبعلموں کی پٹائی ہو جاتی ، لیکن فوراً ہی اپنا ہاتھ سہلاتے ہوئے کہتے ’ کمبخت ہاتھ دُکھنے لگے ہیں ، کل سے چھڑی لایا کرو‘ ۔ اللہ کے فضل سے چھڑی کبھی نہ آئی ۔ مزا اُس روز آیا جب ذرا دیر سے آنے والے ایک لڑکے نے دروازے میں رک کر عام دستور کے مطابق پوچھا ’مے آئی کم اِن ، سر؟‘ ۔ مولانا صمصام کا ابتدائی ردِ عمل ایسا تھا جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو ۔ لڑکے نے ذرا اونچی آواز میں دوبارہ اندر آنے کی اجازت مانگی ۔ جواب ملا ’کاہے کا گھنٹہ ہے؟‘ ’جی ، آپ کا پیریڈ ہے‘ ۔ ’کاہے کا گھنٹہ ہے ؟ اِس کا مطلب ہے کہ کس مضمون کا پیریڈ ہے ۔ جب کہیں کس کا گھنٹہ ہے ، تب مراد ہے کہ کِن صاحب کا پیریڈ ہے‘ ۔ طالب علم نے اثبات میں سر ہلایا جیسے سمجھ گیا ہو ۔ ’ اگر یہ اردو کا گھنٹہ ہے تو اردو میں اجازت کیوں نہیں مانگتے جی؟‘ صمصام صاحب نے ’جی‘ سوالیہ انداز میں چمک کر کہا تھا ۔ ’کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟‘ ’اور سر کا ترجمہ کہاں گیا ؟‘ ابکے پوچھنے والے نے کہا ’جناب ، کیا میں اندر آ سکتا ہوں؟‘ ’ہاں ، آؤ ‘ ۔ استادِ محترم نے نہایت اطمینان سے کہا تھا ۔

گرمیوں کی چھٹیوں میں اسکول میگزین ’مینارِ نو‘ کی تدوین شروع ہوئی تو یہی کلاس روم ایک چھوٹے سے دفتر میں تبدیل ہو گیا۔ میں نویں جماعت میں تحریری ٹیسٹ کے ذریعے انگریزی سیکشن کا اسٹوڈنٹ ایڈیٹر مقرر ہوا تھا ، مگر انگلش کی ادارت ایک اور استاد مرزا افتخار علی نے اکیلے ہی کی جو الہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے ایل ایل بی تھے اور پروفیسر رگھو پتی سہائے کے شاگرد ، جنہیں ایک زمانہ فراق گورکھپوری کے ادبی نام سے جانتا ہے ۔ مولانا بشیر احمد صمصام نے مجھے نہ صرف انٹر اسکولز مباحثوں کی تیاری کرائی بلکہ میگزین کی اردو پروف ریڈنگ کے لئے بھی اپنے ساتھ بٹھالیا تھا ۔ صمصام صاحب مسودہ پڑھتے جاتے اور میں پیلی کتابت شدہ کاپیوں پر اُن کی نگرانی میں مخصوص پنسل سے غلطیاں ٹھیک کرتا رہتا ۔ چائے کے وقفہ میں یہ یاد دہانی ضرور کرا دیتے ’ابھی سیکھ لو ، بخدا کالج میں کوئی نہیں سکھائے گا‘ ۔ اب آپ سے کیا پردہ کہ پاکستان میں حصول تعلیم کے دوران چھوٹے بڑے آدھ درجن کالج تو بدلے ، لیکن ہر جگہ استادِ گرامی کی مذکورہ پیشین گوئی حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی ۔ یہی نہیں بلکہ پیشہ ور صحافت کے سفر میں انہی کے سکھائے ہوئے طور طریقوں سے ابتدائی رہنمائی بھی ملی۔ اسی لئے تو بی بی سی لندن کی سینئر ساتھی سارہ نقوی نے جب ایک مرتبہ رازداری کے لہجے میں پوچھا کہ بیٹا ، تم تو انگریزی ونگریزی پڑھتے رہے ہو ، یہ اردو کے اشعار کیسے یاد ہو گئے تو مَیں نے اِترا کر کہا تھا ’آپا ، میں نے بہت اچھے استادوں سے پڑھا ہے‘ ۔ آپا خوش ہو گئیں ، مگر اُن کی خوشی کے پیچھے میری حقیقی یا مفروضاتی لیاقت کی بجائے اِس احساس کو دخل تھا کہ یہ بڑوں کی عزت کرتا ہے اور ان کے احسانات کا معترف ہے ۔ اب یوں لگتا ہے کہ آپا سے یہیں اجتہادی غلطی ہوئی ۔ لیکن کیوں اور کیسے ؟

اِس کا کچھ الزام تو حکیم الامت علامہ اقبال کے سر جائے گا جن کی شاعری کو اِس بندہء عاجز نے بساط کے مطابق مگر اپنی مرضی کے سیاق و سباق کے اندر رہتے ہوئے پڑھا اور یہ بات ذہن و دل میں بیٹھ گئی کہ ’ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود کہ ہر لحظہ ہے تازہ شانِ وجود‘ ۔ کہنے کا مقصد یہ ہوا کہ چند اٹل حقائق کو چھوڑ کر جنہیں ہم اپنے کلیدی عقائد کا محور سمجھتے ہیں ، افکار و اقدار کی ساری دنیا لحظہ بہ لحظہ جاری رہنے والے ایک مسلسل ارتقا کے عمل سے دوچار ہے ۔ ایک ایسا بدیہی عمل جس کی سچائی کو فطرت اور سماج دونوں کارگہوں کے درمیان پائی جانے والی مشابہت میں بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ تو کیا ابلاغ کی دنیا میں ترسیلِ معانی کے لئے برتی جانے والی آوازیں ، لفظیات اور روزمرہ زبان کی صرف و نحو تبدیلی کے اِس دائرے سے باہر ہیں؟ آپ کہیں گے ’یار ، بس کر اور کسی نئے چکر میں نہ ڈال‘ ۔

خدا جانتا ہے کہ کسی کو چکر میں ڈالنا میرا مقصد نہیں ۔ میں تو اُس کامپلیکس پر قابو پانے کی بات کرنا چاہتا تھا جو پہلی بار یہ اناؤنسمنٹ کرتے ہوئے محسوس ہوا ’انیس ، پچیس ، اکتیس اور اکتالیس میٹر شارٹ ویو ، میڈیم ویو میں دو سو بارہ میٹر چودہ سو تیرہ کلو ہارٹز پر ، یہ بی بی سی لندن ہے‘ ۔ کامپلیکس یہ تھا کہ میری آواز مائکروفون کے لئے پتلی ہے ، دوسرے مادری زبان اردو نہ ہونے کے باعث ’ہے‘ کو ’اے‘ اور ’نہیں‘ کو ’نئیں‘ کہتا ہوں ۔ پتلے پن کی غلط فہمی تو آل انڈیا ریڈیو سے ڈیپوٹیشن پہ آئے ہوئے مجیب صدیقی کے اِس فیصلے نے دور کر دی کہ بہت بھاری آواز ریڈیو پر بھدی لگتی ہے ۔ رہا ’نہیں ‘ اور ’نئیں‘ کا معاملہ تو سید راشد اشرف نے یہ کہہ کر ایک اصول سمجھا دیا کہ یہ تلفظ کا نہیں ، لہجہ کا معاملہ ہے جو عین انسانی وصف ہے اور آپ کی علاقائی ، نسلی یا صنفی شناخت سے جڑا ہوتا ہے ۔ اِس پہ پریشانی کیسی ؟

تب میں نے سوچا کہ فرسٹ لینگویج کا دائرہ اثر ایک بات ہے اور رابطہ کی زبان ہونے کے ناطے سے اُس کا کردار ایک مختلف چیز ۔ اسی لئے تو اسکاٹش ، آئرش ، ویلش انگریزی ، نیز یارک شائر ، مڈلینڈز اور لندن کے کوکنی لہجے کے ہوتے ہوئے آکسفرڈ انگلش کا معیار وہ بولی تھی جو جنوبی انگلستان میں مستقل آباد پیشہ ور متوسط طبقوں کے لوگ عادتاً بولتے ہیں ، مگر مستحکم ذہنی کیفیت کے دوران ( سمجھ تے گیا ہوویں گا) ۔ اب یہ معیار بھی بدل رہا ہے ۔ تو سارہ آپا سے کیا غلطی ہوئی؟ یہی کہ لسانی اور سماجی قدریں تبدیل نہیں ہوتیں ۔ تو پاکستان میں ٹی وی اسکرین پر کھیلی جا رہی کبڈی کو دیکھ کر جنگ عظیم کے لیفٹننٹ اور بی بی سی اردو کے جرنیل یاور عباس کہہ چکے ہیں کہ بھئی جدت ہو ، بے رہروی نہ ہو ۔ پر ایسا زمانہ آ گیا ہے کہ لسانی جدت اور بے رہروی کا فرق جاننے کے لئے بھی آپ کو سالک و مہر سے نہیں ، عارف وقار یا مجھ سے رجوع کرنا پڑے گا ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).