سوشل میڈیا میں لبرلوں کو اسلامسٹوں پر برتری کیوں حاصل ہے؟


سوشل میڈیا پر بمشکل چند فیصد افراد ہی ہوں گے جو ایک دوسرے کو براہ راست جانتے ہیں۔ عام طور پر لوگ آپ کے خیالات سے متاثر ہو کر آپ کے حلقہ احباب میں شامل ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور بلاگنگ ویب سائٹس پر ایک ٹرینڈ مسلسل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ لبرل خیالات کے حامل افراد اور بلاگنگ ویب سائٹس کی مقبولیت اسلامسٹس کی ویب سائٹس سے کہیں زیادہ ہے۔

’ہم سب‘ آزادی اظہار کے حق کی قائل ویب سائٹ ہے جس کی انتظامیہ لبرل افراد پر مشتمل ہے اور اسی وجہ سے وہ ہر مکتب فکر کو شائع کرتے ہیں۔ لیکن ’ہم سب‘ کے لکھاریوں کی غالب اکثریت لبرل اور معتدل نظریات کی حامل ہے اور رواداری کا پرچار کرتی ہے۔

پچھلے ایک سال کے اعداد و شمار کے مطابق ’ہم سب‘ کے پڑھنے والوں میں 47 فیصد افراد کی عمر 25 سے 34 سال کے درمیان ہے۔ 27 فیصد کی عمر 35 سے 44 برس کی بریکٹ میں ہے۔ اور 9 فیصد کی عمر 18 سے 24 برس کے درمیان ہے۔ یعنی ’ہم سب‘ کی کل ریڈرشپ کا 83 فیصد جوان افراد پر مشتمل ہے۔ نوجوان طبقے میں یہ مقبولیت ’ہم سب‘ کی فکری پختگی اور اندازِ کلام کی مرہون منت ہے۔

ہماری نئی نسل کا ٹرینڈ چشم کشا ہے کہ پچیس برس کی عمر کے بعد جیسے ہی نوجوانی کا جوش ختم ہوتا ہے اور دماغ دلیل اور عملیت پسندی کی سنجیدہ سوچ کی طرف مائل ہوتا ہے تو ہماری نئی نسل سنجیدہ لبرل سوچ کی طرف آتی ہے۔

ہماری رائے میں لبرلز کے اس نئے عروج اور اسلامسٹس کے زوال کی چند وجوہات ہیں جو کہ آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ ایک لبرل ہونے کی وجہ سے ہم اپنی رائے کی حتمیت پر اصرار نہیں کرتے ہیں اور اس میں غلطی کا امکان مانتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس مضمون میں لبرل اور اسلامسٹ کی اصطلاح جہاں جہاں استعمال کی گئی ہے، وہاں ان دو طبقات کے عام طور پر دیکھے جانے والے مجموعی رجحان کی بات کی گئی ہے اور دونوں مکاتب فکر کے انتہاپسند جنونیوں کی بات نہیں کی گئی ہے۔

ایک لبرل سوچ کا حامل اپنی سوچ کو غلط ماننے سے نہیں کتراتا ہے۔ اس کا یہ ماننا ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان جیسا دماغ ہی رکھتا ہے اور اس کے موقف کے غلط ہونے کا بھی اتنا ہی امکان موجود ہے جتنا کہ فریق مخالف کے غلط ہونے کا ہے۔ اپنی سوچ کو وہ دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے، وہ اس کو ڈنڈے کے زور پر دوسرے کے اوپر مسلط نہیں کرتا ہے۔ جبکہ اسلامسٹس کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی سوچ کی حیثیت الہامی ہے۔ وہ خود کو خدا کا زمین پر واحد نمائندہ قرار دینے پر مصر ہوتے ہیں۔ اپنی تفہیم دین کو وہ دوسروں کی تفہیم دین پر اس انداز میں لاگو کرنے کی کوشش کرتے ہیں جیسے دین کی یہ سمجھ خدا نے ان کو براہ راست دی ہے۔ اسی وجہ سے ان کے رویے میں یہ بے جا تکبر عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ صرف وہی مسلمان ہیں اور ان کے فکری مخالف اسلام کو نہیں مانتے ہیں۔ ایس بنیاد پر وہ ہر لبرل، سیکولر اور کمیونسٹ کو دائرہ اسلام سے خارج کرتے دکھائی دیتے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ کمیونسٹوں میں مولانا حسرت موہانی جیسا دیندار بھی شامل ہے اور لبرل اور سیکولرز میں علامہ اقبال اور قائداعظم بھی۔

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ لبرل حضرات خود سے اختلاف کرنے والوں کا سامنا شائستہ الفاظ کے ساتھ کرتے ہیں جبکہ اسلامسٹ بہت جلد خود سے اختلاف کرنے والوں کی تکفیر پر آنے کے بعد ان سے گالم گلوچ پر مبنی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اخلاق کا یہ نمونہ دیکھنے کے بعد فریق مخالف تو اسلامسٹس کی مخالفت میں پکا ہوتا ہی ہے، لیکن بحث پڑھنے والوں پر لبرلز کے اعلی اخلاق اور اسلامسٹوں کے خراب رویے کا تاثر بھی قائم ہو جاتا ہے۔ ایک غیر جانبدار شخص کس کے ساتھ کھڑا ہو گا، اس کے ساتھ جو شائستگی سے اپنی بات کر رہا ہے یا جو دشنام طرازی کر رہا ہے؟

ایک لبرل کی سوچ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنا عقیدہ رکھنے کی پوری آزادی حاصل ہے۔ وہ شخص جو عقیدہ چاہے اختیار کرے، اس پر جتنی شدت سے چاہے عمل پیرا ہو، وہ ایسا کرنے میں آزاد ہے جب تک کہ وہ اپنے رویے کی بنا پر دوسروں کی زندگی میں مداخلت نہیں کرتا ہے۔ ایک شخص خواہ کلین شیو ہو یا لمبی داڑھی رکھے، خواہ وہ سوچ میں صوفی جیسا وسیع المشرب ہو یا ایک سلفی کی مانند تنگ سوچ رکھے، ایک لبرل اس کی پرواہ نہیں کرتا ہے جب تک کہ یہ سوچ اس شخص کی ذاتی زندگی پر منطبق ہو۔ جبکہ ایک اسلامسٹ کی سوچ عام طور پر یہ ہوتی ہے کہ خود اپنا کردار چاہے کیسا ہی کیوں نہ ہو، دوسرے شخص کی زندگی میں مداخلت کر کے اس کے عقائد اور طرز زندگی کو اپنی سوچ کے مطابق ڈھالنے پر اسے مجبور کیا جائے اور اس کی فہم دین خود سے مختلف ہونے پر اسے دائرہ ایمان سے ہی خارج کر دیا جائے۔ فہم دین میں یہ اختلاف عام طرز زندگی میں حجاب کے مسئلے سے شروع ہو کر طرزِ حکمرانی تک جاتا ہے۔

سنہ 1973 کے دستور کو ہی دیکھ لیں۔ اس وقت تو سرخ اور سوشلسٹ پارٹیاں بھی زندہ تھیں اور لیفٹ کی قیادت ان کے پاس تھی۔ اسلامسٹ بھی طاقت میں تھے۔ مگر دستور بناتے وقت لیفٹ نے پیپلز پارٹی کی لبرل سوشلسٹ حکومت ہوتے ہوئے بھی رواداری کا بھرپور مظاہرہ کیا اور اسلامسٹوں سے مل کر آئین مملکت بنایا حالانکہ وہ چاہتے تو لیفٹ کی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر کے اسلامسٹس کو بلڈوز کر سکتے تھے۔ جبکہ جنرل ضیا الحق کی حکومت میں جب اسلامسٹوں کو عروج ملا تو انہوں نے لیفٹ کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن کیا۔ یعنی لبرل سب طبقات کو ساتھ لے کر چلنے والے ہوتے ہیں جبکہ اسلامسٹ طاقت پاتے ہی اپنی من مانی کرتے ہیں۔

اسلامسٹ یہ بات تسلیم کرنے سے قاصر ہیں کہ ایک لبرل اور سیکولر شخص بھی مسلمان ہو سکتا ہے اور ان لبرل اور سیکولر مسلمانوں کی تفہیم دین کے مطابق یہ عین ممکن ہے کہ سیاسی بندوبست کو ذاتی عقیدے سے الگ رکھا جائے۔ جب اسلامسٹوں کو یہ دلیل دی جاتی ہے کہ ہندوستان کے دیوبندی علما بھی تو سیکولرازم کی حمایت کرتے ہیں تو ان کا موقف یہ ہوتا ہے کہ وہاں مسلمان اقلیت میں ہیں اور اس وجہ سے سیکولر ازم کی بات کرتے ہیں ورنہ سیکولرازم شرک ہے۔ یعنی اس لاجواب دلیل کے مطابق تو جغرافیہ یا آبادی کا تناسب بدلنے سے دین کے بنیادی عقائد بھی بدل جاتے ہیں۔ پھر یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ دیوبندی علما کے سواد اعظم نے جمعیت علمائے ہند کے بینر تلے کھڑے ہو کر سیکولر ازم کا پرچار کرنے والی انڈین نیشنل کانگریس کا ساتھ دیتے ہوئے قیام پاکستان کی مخالفت کیوں کی تھی جبکہ اس سے دین کے بنیادی عقیدے پر حرف آتا تھا۔ اسلامسٹس اس بات کا جواب دینے سے بھی قاصر ہیں کہ ننانوے فیصد مسلمانوں والے ملک ترکی میں ان کے ہیرو رجب طیب ایردوان اور ان کی اے کے پارٹی سیکولرازم کی پرچارک ہے تو پھر وہ سیکولر ترک مشرک کیوں نہیں قرار پاتے اور اسلامسٹوں کے ہیرو کیوں ہیں؟

فکر کے یہی ابہام، فریق مخالف کی کردار کشی، اپنی ذاتی تفہیم دین کی بنیاد پر قائم کی گئی رائے کو حتمی الہامی حکم بنا کر پیش کرنا، غیر مہذب انداز سخن اور ایسے دوسرے بہت سے معاملات ہیں جن کی وجہ سے نئی نسل اسلامسٹوں سے دور ہو رہی ہے۔

بہرحال نئی نسل کیا، 1940 سے لے کر آج تک ہم نے یہی دیکھا ہے کہ عوام نے ووٹ اسلامسٹوں کو نہیں دیا ہے بلکہ لبرل اور معتدل پارٹیاں ہی عوام کا ووٹ پانے میں کامیاب رہی ہیں۔ قیامِ پاکستان سے پہلے بھی اسلامسٹ ایک ننھی سی اقلیت تھے، اور قیام پاکستان کے بعد ہونے والے الیکشنوں میں بھی وہ ایک دو فیصد ووٹوں سے زیادہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

دوسری طرف سوشل میڈیا پاکستان میں ویسا ہی انقلاب لا رہا ہے جیسا پرنٹنگ پریس یورپ میں لایا تھا اور پھر وہاں کے عوام چرچ کی تنگ نظر تشریح دین کو ترک کر کے روشن خیال پروٹسٹنٹ ازم اور لبرل ازم کی طرف آئے تھے اور رواداری کو اپنے معاشرے کا وصف بنایا تھا۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar