ہندوستان، سیکولر ازم اور مسلمان


گجرات کے فسادات کے بعد سیکولر ازم پرنئی بحث
15.04.2002

تحریر: آصف جیلانی

گجرات کے مذہبی فسادات کے پس منظر میں وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے اس بیان سے کہ مسلمان دنیا بھر میں دہشت گردی پھیلانے کے لئے ذمہ دار ہیں، ایک مرتبہ پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آخر ہندوستان کا سیکولر ازم کتنا سیکولر ہے اور اس میں مسلمانوں کو کیا مقام حاصل ہے۔

ہندوستان کی آزادی کے بعد جب آیئن میں یہ طے کیا گیا کہ ہندوستان اپنا سیاسی اور معاشرتی نطام سکیولرزم کی بنیاد پر ڈھالے گا اور سیاست مذہب کی تابع نہیں رہے گی تو ہندوستان کے مسلمانوں کے مذہبی رہنماؤں کی طرف سے اس پر اتفاق اس لحاظ سے ایک انقلابی فیصلہ تھا کہ وہ ہر زمانے میں اس بات پر یقین رکھتے آئے ہیں کہ اسلام میں سیاست اور مذہب دو جداگانہ چیزیں نہیں ہیں۔ بہر حال ہندوستان جس طرح سے مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوا تھا اور اس موقع پر خونریز فرقہ وارانہ فسادات اور اس کے بعد کے سیاسی حالات کے پیش نطر مسلمانوں کے سامنے اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا کہ وہ خوشی سے یا بادلِ نا خواستہ ملک کی سیکولر اساس کو تسلیم کریں۔ سیکولر ازم کو خوشی خوشی تسلیم کرنے والوں میں ہندوستان کے روشن خیال اور اپنے آپ کو جدیدیت پسند کہلانے والے مسلمان تھے اور اس میں مسلمانوں کا مفاد مضمر سمجھ کر اسے بادلِ نا خواستہ تسلیم کرنے والوں میں مذہبی جماعتیں تھیں۔

لیکن ہندوستان میں سیکولر ازم کے نعرہ کی گونج میں یہ طے نہیں ہو سکا کہ سیکولر ازم اصل میں ہے کیا؟ نتیجہ یہ کہ سیکولر ازم ایک مبہم نظریہ بن کر رہ گیا جس کی تشریح ہر مذہب اور ہر فرد نے اپنے اپنے طور پر کی۔ صورتِ حال یہ ہے کہ ہندوستان کے عام مسلمانوں میں سیکولر ازم کو تو مذہب کے خلاف تصور کیا جاتا ہے لیکن جب سیکولر ریاست کا سوال آتا ہے تو ہر مسلمان سیکولر ریاست کی حمایت کر تا ہے کیوں کہ اس کے آئین کے تحت ملک کے ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اپنے مذہبی عقائد کی تبلیغ کرنے کی پوری آزادی ہے۔

نظریہِ حیات یا مصلحت

بہت سے ہندوستانیوں کی طرف سے جن میں مسلمان بھی شامل ہیں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا ہندوستان کے مسلمانوں نے سیکولر ازم کو ایک بہتر نظریہ حیات کے طور پر اپنایا ہے یا محض سیاسی مصلحت کی خاطر اسے قبول کیا ہے؟ آزادی کو نصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ گذرنے کے بعد بھی اس کا جواب دینا مشکل ہے۔

ہندوستان کے مسلمانوں کی سب سے بڑی مذہبی پارٹی جماعت اسلامی نے آزادی کے بعد ایک قرارداد میں اعلان کیا تھا ”سیکولر ازم کا مطلب اگر یہ ہے کہ ریاست اپنے شہریوں کے درمیان ان کے مذہبی عقائد کے اختلاف کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہیں برتے گی تو پھر اس پر اعتراض نہی کیا جاسکتا۔“ جماعتِ اسلامی نے بار بار اس بات کی وضاحت کی ہے کہ موجودہ صورت حال میں وہ یہی چاہتی ہے کہ ہندوستان میں سیکولر طریقہ حکومت جاری رہے لیکن اس افادی مصلحت سے آگے بڑھ کر اگر کسی کے ذھن میں سیکولر ازم کا کوئی گہرا فلسفیانہ مفہوم موجود ہے تو پھر ہم کو اس سے اختلاف ہے۔

تین آراء

لیکن مسلم علماء میں اب بھی یہ بحث جاری ہے کہ ہندوستان دارالحرب ہے یا دارلاسلام۔ سیکولر ازم کے سوال پر بنیادی طور پر ہندوستان کے مسلمان تین آراء میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جو بنیادی طور پر سیکولر ازم کے مخالف ہیں کیونکہ ان کے نزدیک سیکولر ازم ایک مذہب مخالف طرز فکر ہے۔ دوسرے وہ مسلمان ہیں جنہیں ماڈرن خیال کیا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک مذہب فرد کا ذاتی معاملہ ہے اور کوئی شخص مذہبی رجحان رکھتے ہوئے بھی سیکولر ہو سکتا ہے۔ تیسرے وہ لوگ ہیں جن کے نزدیک سیکولر ازم کے معنی صرف اتنے ہیں کہ ریاست کسی مذہب کے ساتھ جانب داری نہ برتے۔

لیکن خود ہندوستان کے روشن خیال مسلمانوں کو اس کا شدید احساس اور شکایت ہے کہ ہندوستان میں ریاست نے سیکولر آئین کے باوجود ان کے ساتھہ سیکولر اصولوں کے تقاضوں کے مطابق رواداری نہیں برتی ہے ہندوستان کے ایک ممتاز سیکولر دانشور عابد رضا بیدار کو اس بات پر شکایت ہے کہ ” ہندوستان میں سیکولر ازم کے نام پر ہندوستان کے مسلمانوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ عام دھارے میں شامل ہوں لیکن ابھی تک کسی سیاست دان کو اور نہ ہی کسی دانشور کو یہ بتانے کی توفیق ہوئی ہے کہ آخر یہ دھارا ہے کیا۔ شاید بے کہے سنے یہ طے کر لیا گیا ہے کہ اکثریتی فرقہ کے مذہبی رسم و رواج اس کی خواہشات، طرزِ حیات، محبت، نفرت غرض کہ ہر چیز کی حرف بہ حرف نقل کرنا ہی عام دھارا ہے۔ عید نہیں بلکہ ہولی عام دھارا ہے۔ نمستے کہنا عام دھارا ہے۔ گائے کی عزت کرنا عام دھارا ہے “۔

جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدار آئی ہے ملک میں مسلمان یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ہندوتوا کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسکولوں میں تاریخ کی کتابوں میں تبدیلی اور مسلم مدارس کے خلاف مہم کے ساتھہ ایسے مسائل کو ہوا دی گئی ہے جن سے فرقہ وارانہ جذبات کی آگ بھڑکی ہے۔ ہندوستان میں وہ مسلمان جنہیں سیکولر ازم پر کوئی بھرم نہیں وہ آزادی کے بعد علی گڑھ فیروز آباد احمدآباد جبل پور میرٹھ اور مرادآباد میں مسلمانوں کے خلاف فسادات، بابری مسجد کی مسماری اور اس کے بعد پورے ملک میں خونریز فرقہ وارانہ فسادات اور اب گجرات کے تازہ فسادات کو اپنے عدم اعتماد کا جواز قرار دیتے ہیں۔ ویسے بھی اس وقت ہندوستان کے سیاسی افق پر سنت مہنت شنکر اچاریہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے علماء چھائے ہوئے ہیں اور وہ سیاست دان جو سیکولر اصولوں پر یقین رکھتے ہیں انہوں نے ہندو انتہا پسندی اور مسلم بنیاد پرستی کے طوفان میں گوشہ عافیت اختیار کر رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp