لبرل ازم کی تاریخ ( یونانی دور)


 \"zeeshanلبرل خیالات کو تاریخ میں اس بنیاد پر ڈھونڈنا کہ اس کا جنم کہاں اور کس کے ذریعہ سے ہوا، ایک مشکل کام ہے۔ عہد ما قبل مسیح کے تاریخی حقائق سے ہم کم ہی واقف ہیں۔ ان میں سے ان حقائق کا حصہ بھی انتہائی قلیل ہے جو سیاسی سماجی اور معاشی فلسفہ سے متعلق ہیں ، اس کی ایک بنیادی وجہ آزاد معاشروں کا کم مدتی دورانیہ بھی ہے۔ اس لئے اپنی سہولت کی غرض سے خاکسار اپنا تاریخی سفر یونانی فلسفہ اور وہاں کے سماجی سیاسی اور معاشی حقائق سے کرنا چاہے گا۔

قدیم یونان اور روم میں شہر آزاد کسانوں دستکاروں، اور تاجروں کا مرکز تھے جو اپنی ثقافت، حکومتی بندوبست ، سول سوسائٹی ، اور آزادی اظہار رائے کے معاملہ میں بڑی حد تک لبرل تھے۔ جیسے جیسے ان شہروں کی معیشت اور آبادی بڑھتی گئی ان میں تجارت اور کاروبار کے سبب معاشی عدم مساوات میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ یوں دو طبقات نے نمایاں طور پر جنم لیا : امرا اور غربا۔ اس معاشی عدم توازن کو ختم کرنے کے لئے سیاسی و قانونی اصلاحات کی گئیں۔

یہاں ایک بنیادی نقطہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یونان اپنی ہم عصر تہذیبوں انڈیا چین مصر اورعراق سے مختلف ہے۔ یہ دوسری تہذیبیں دریاؤں کے کنارے آباد تھیں جن کا ذریعہ معاش بنیادی طور پر زراعت تھا ، یوں انہیں ایک مضبوط حکومت کی ضرورت تھی جو نظام آب پاشی کو منظم رکھ سکے۔ مثال کے طور پر مصر میں دریائے نیل کے نہری نظام کو مؤثر رکھنا اور سیلاب کی صورت میں رعایا کی خبر گیری رکھنا مصری حکومت کی ذمہ داری سمجھی جاتی تھی۔ چین میں حکمرانوں کو زراعت کے نظام کو منظم رکھنے اور سیلاب سے بچاؤ سمیت آب پاشی کے لئے ڈیم بنانے پڑتے تھے۔ یوں مضبوط سلطنت ان کے عوام کی ضرورت بھی تھی اور مجبوری بھی۔ بادشاہ پانی پر قابض تھے اور نتیجے میں عوام کی معیشت پران کا تسلط تھا۔ (۱)چنانچہ ان معاشروں میں تاجر اور دستکار اتنے دولت مند نہیں بن سکے کہ شہنشاہ کو للکار سکیں۔

مگر یونان میں مرکزی حکومت کی زراعت یا معیشت کے دوسرے شعبوں میں اتنی ضرورت نہ تھی اس لئے ان معاشروں پر حکومت کی گرفت بھی کمزور تھی۔ جب تجارت اور معیشت زوروں پر تھی تو یہ تاجر اور دستکار اتنے آزاد اور مضبوط تھے کہ وہ مقامی بادشاہ کو چیلنج کر سکتے تھے۔ یوں اس معاشی عدم مساوات میں بادشاہ نے عوام کی امرا کے مقابلہ میں زیادہ طرف داری کی۔ Hesiod کی کتاب جو غالباً آٹھویں صدی قبل مسیح میں لکھی گئی ، اس میں اس یونانی آزاد معیشت کا یوں نقشہ پیش کیا گیا ہے۔

\’\’ہر وہ عام کسان جو محنت، دانائی، بے غرضی، اور بچت پر یقین رکھتا ہے دولت مند ہو سکتا ہے\’\’ (2)

اس شہری معیشت نے خوشحال سول سوسائیٹی کو جنم دیا۔ جوں جوں تجارت میں اضافہ ہوتا گیا تاجر کاریگروں اور کسانوں سے امیر تر ہوتے گئے اور مقامی سیاسی اشرافیہ کمزور پڑتی گئی۔ یوں قانون سازی سے معاشی عدم مساوات کے بہانے تجارت و کاروباری سرگرمیوں کو محدود کرنے کی کوششیں کی گئی۔ اس سلسلے میں دو رجحانات سامنے آگئے۔

1) سپارٹا کی پولیٹیکل اکانومی (3)

2) ایتھنز کی پولیٹیکل اکانومی

1۔ سپارٹا نے نئے سیاسی و معاشی بندوبست کے تحت ساری زمین لوگوں میں برابر تقسیم کر دی۔ ہر شخص کو اتنی زمیں دی گئی جو اس کی خوراک کی ضرورت پوری کرے مگر ضرورت سے زائد پیداوار نہ ہو۔ جب زمیں کے علاوہ باقی جائیدادوں کو تقسیم کرنے کی بات آئی تو لوگوں نے اس سے انکار کر دیا۔ تجارت اور مارکیٹ کو نا پسند کیا گیا ، سونے چاندی کی بجائے لوہے کو کرنسی قرار دیا گیا جس کہ نتیجہ یہ نکلا کہ تاجر جب کوئی چیز بھی سپارٹا بیچنے کے لئے آتے تو انہیں کرنسی میں اتنا لوہا ملتا کہ نہ اٹھا سکتے تھے اور نہ اپنے دیس میں جا کر اسے پیداواری کام میں لا سکتے تھے یوں انہوں نے سپارٹا کی مارکیٹ ہی چھوڑ دی۔ اس طرح سپارٹا میں تجارت اور پیداواری سرگرمیاں دم توڑ گئیں۔

اس معاشرہ میں نجی زندگی کا کوئی تصور نہ تھا۔ سب مل کر کھانا کھاتے۔ بچے پیدائش کے بعد والدین سے جدا کر دیے جاتے جو پولس (polis) میں پلتے بڑھتے۔ تمام شہریوں کے لئے فوجی تربیت لازم تھی۔ غیر ملکیوں کو سپارٹا سے باہر رکھا جاتا اور وہ اپنے نظریات و خیالات سپارٹا کے لوگوں کو نہ بتا سکتے کہ ان کے دیس میں سپارٹا کی نسبت کیسا کلچر ہے۔ یہ ایک بند معاشرہ تھا جو معاشی عدم مساوات کو ختم کرنا چاہتا تھا۔ مگر اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ (4)

2۔ دوسری طرف ایتھنز میں سولون (Solon) نے قانون سازی سے معاشی عدم مساوات کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ اس نے لوگوں پر تمام قرض (جو انہوں نے تاجروں و دستکاروں کو دینے تھے) بالکل ختم کر دیے اور سزائیں بھی ختم کر دیں۔ عام لوگوں کی اسمبلی قائم کی گئی جو قانون سازی کا اختیار رکھتی تھی۔ اس نے تین قانون ساز ادارے قائم کئے: اسمبلی جس میں عام افراد رکن تھے ، کونسل اور سینٹ جن میں امرا کی نمائندگی تھی۔ اس نے اسمبلی کے اختیاریات بڑھا دیئے ، ملٹری کمانڈر اور قانون ساز (پالیسی میکر ) شخصیات کے انتخاب کا مکمل اختیار دے دیا۔ اس نے کوشش کی کہ ان تینوں اداروں میں طاقت کا صحیح توازن قائم کیا جائے تا کہ طبقات کے درمیان کشمکش پیدا نہ ہو سکے۔ اسی طرح بعد میں عدلیہ کے ججوں کا انتخاب بھی اسمبلی کے اختیارات میں دے دیا گیا۔ عدالتوں کو اختیار دیا گیا کہ وہ قانون ساز اداروں سے منظور شدہ قوانین کی تشریح کر سکتی ہیں۔ سولون Solon کے بعد اس کے جانشینوں نے بھی اصلاحات کا عمل جاری رکھا۔ جن میں Pisistratus نے زرعی زمینوں کی ازسرنو تقسیم کی۔

یاد رہے کہ ایتھنز میں آج کے دور کی طرح کی جمہوریت نہ تھی۔ ایتھنز کی کل آبادی تین لاکھ بیس ہزار افراد پر مشتمل تھی جن میں ایک لاکھ بیس ہزار مقامی باشندے تھے جن کے محض مردوں کو سیاسی آزادی یعنی حق رائے دہندگی حاصل تھی۔ عورتوں کو سیاسی اور سماجی سرگرمیوں سے دور رکھا جاتا۔ ایک لاکھ غلام تھے۔ 92 ہزار غیر یونانی باشندے تھے جو کاروباری سرگرمیوں نیز دوسرے معاملات کے سبب وہاں عارضی یا مستقل مقیم تھے۔ غلاموں اور غیرملکی باشندوں کو سیاسی آزادی ہرگز حاصل نہ تھی (5)

یہ ڈائریکٹ جمہوریت تھی جس میں شہری براہ راست اظہار خیال کر سکتے تھے اور اسمبلی میں قانون سازی کے عمل میں شریک ہو سکتے تھے۔ یہاں نجی زندگیوں کا احترام قائم تھا جن کی ہر صورت پاسداری کی جاتی۔ آزادی کو بہت بڑی قدر سمجھا جاتا تھا۔ آزادی اظہار رائے کا رواج تھا. لوگ اپنے مذہبی و غیر مذہبی خیالات کے اظہار میں بے باک تھے۔ ایتھنز سب سے قدیم لبرل شہر تھا جہاں حکومت کو نجی سرگرمیوں سے دور رکھا جاتا۔ اس عہد کے یونان کا نقشہ thucidides اس طرح بیان کرتا ہے۔

ہمارا آئین جمہوریت ہے جس میں ایک مخصوص اقلیت کی نہیں بلکہ تمام شہریوں کی حکومت ہے۔ جب تنازعات زیر بحث آتے ہیں تو تمام لوگ قانون کی نظر میں برابر ہیں۔ جب انصاف کا معاملہ آتا ہے تو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کس کا تعلق کس طبقہ سے ہے۔ کوئی بھی فرد غربت کے باعث سیاسی گمنامی میں نہیں رہ سکتا اگر وہ اپنے آپ کو دل سے ریاست کا ناگزیر رکن سمجھتا رہے۔ ہماری سیاسی زندگی آزاد اور کھلی ہے اسی طرح ہماری روز مرہ کی سرگرمیاں ہیں۔ ہم اپنی نجی زندگی میں آزاد اور روادار ہیں اور اجتماعی معاملات میں ہم سب قانون کی نظر میں برابر اور اس کے پابند ہیں۔ (6)

آپ کو اس بیان میں جمہوریت، مواقع کی مساوات، قانون کی حکمرانی، اور نجی زندگی کا احترام یہ سب تصورات مل سکتے ہیں جو اپنی اصل میں لبرل ہیں۔

\"0\"مگر یہ صورتحال زیادہ عرصہ قائم نہ رکھ سکی۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ سیاسی اشرافیہ تاجروں و دستکاروں کو نیچا دکھانے کی خاطر معاشی سرگرمیوں پر قانونی پابندیاں بڑھاتی گئی یوں معیشت بحران کی زد میں آگئی۔ جوں جوں بحران بڑھتا گیا بے روزگاری اور معاشی بے چینی میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس وقت ایتھنز پر 30 امرا ایسے تھے جن کی حکومت تھی۔ آخر کار فوج نے عوامی حمایت کا فائدہ اٹھایا اور ان 30 افراد کی حکومت کا خاتمہ کر کے عوامی یعنی اسمبلی کی مطلق جمہوریت قائم کر دی۔ (7) اس اسمبلی نے اول آزادی اظہار رائے پر یوں پاپندی عائد کی کہ سقراط اپنی حریت فکر کے سبب مجرم ٹھہرا اور ایک مقبول (Populous) جمہوریت نے اسے سزائے موت سنائی۔

مغربی فلسفیانہ تاریخ میں یہ ایسا واقعہ ہے جو مغرب بھلائے نہ بھول پایا کہ سقراط کو جمہوریت نے صرف عوامی دباؤ میں آ کر قتل کیا تھا۔ یہی وہ سبب ہے کہ مغرب اپنے سیاسی نظریات میں سقراط کی شہادت کے دن سے اب تک یہ بات بار بار دہراتا آرہا ہے کہ اکثریت مل کر بھی ایک فرد سے اس کی شخصی آزادی نہیں چھین سکتی ،نہ جمہوری طریقے سے اور نہ ہی آئینی طریقے سے۔ آزادی اظہار رائے کے بغیر جمہوریت بھی اکثریت کی آمریت ہے۔ یہ سبق بعد میں تنوع پسند اور انفرادیت پسند لبرل تصورات کی بنیاد بنا۔

یہ وہ وقت تھا جب سقراط کے زیر اثر سیاسی نظام کے لبرل آئیڈیاز پیدا ہونے ہی لگے تھے کہ مقبول (Populous) جمہوریت کے سبب ان میں ٹھہراؤ آ گیا کیونکہ اظہار رائے پر پاپندی تھی۔ سقراط کا جرم یہ تھا کہ وو سورج کو خدا نہیں مانتا تھا جو کہ اکثریت کا مذہب تھا۔ اکثریت کے مذہب کے جبر کا انکار بعد میں سیکولر تصورات کی صورت میں سامنے آیا۔

(جاری ہے )

حوالہ جات :

  1. مثال کے طور پر مصر میں اس وقت دو سو سے زیادہ ٹیکس تھے۔ جو اپنی مختلف شکلوں میں بادشاہ اور پادریوں کو دینا ضروری تھے۔ معیشت کا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جو ٹیکسز سے ماورا ہو۔
  2. Harmonds worth, Middlesex, England: Penguin Books, 1973) p. 59
  3. From Plutarch’s Lives, Edward C. Lindeman, ed, (New York, New American Library: Mentor Books, 1950)
  4. ibid
  5. Alfred Zimmern, The Greek Commonwealth: Politics and Economics in Fifth۔ Century Athens (Oxford: Clarendon Press, 1931)
  6. Thucidides, The Peloponnesian War, II, 37, trans. Rex

Warner (NY, Penguin Books, 1954)

  1. Xenophon, History of Greece, II
ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments