کشکول سے کشکول تک


\"539354_10151131396814520_266476933_n\"پچھلے دنوں مجھے ایک دوست کی والدہ کی وفات پر تعزیت کے سلسلہ میں سرگودھا جانا ہوا ،گھر والوں کے مہمان کہیں دور سے آنے کی وجہ سے جنازہ لیٹ تھا اور ایسے میں باتوں باتوں ہم دوستوں کے ساتھ ذرا ہٹ کر باہر نکلے تو چائے پینے کا موڈ بن گیا،لہذا ہم ذرا ٹہلتے ٹہلتے باہر نکلے اور ایسے ہی ایک بازار میں کسی سے پوچھا کہ یہاں چائے مل سکتی ہے؟ ایک چھوٹی سی دوکان پر ایک شخص جلیبیاں نکال رہا تھا اس سے پوچھا بھائی صاحب ! کیا یہاں کہیں چائے دستیاب ہو سکتی ہے ؟ اس نے کہا آپ تشریف رکھیں چائے ابھی آجاتی ہے جناب۔ ہم تینوں دوست چائے کا انتطار کرنے لگے اور آپس میں جنازے پر ہونے والی رسموں پر گپ شپ کرنے لگے تا کہ اتنی دیر میں چائے آجائے گی اور ہم بھی ذرا طبیعت میں تازگی لے آئیں گے۔ ہمارے باتیں کرتے ہوئے ایک بھیک مانگنے والی عورت آئی،اپنی حالت سے کافی مجبور لگ رہے تھی ابھی میں اس کی مدد کرنے کو سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے ایک حیران کر دینے والا جملہ بولا جس پر میں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ یہ کیا ہے کیونکہ مجھے ایسے لگتا ہے کہ اگر کوئی بھیک مانگتا ہے تو اپنی عزت و انا کو مار کر ہی بھیگ مانگتا ہے اور جو لوگ پیشہ ور گداگر ہوتے ہیں ان کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ان کے آگے کوئی غریب آجائے یا امیر ان کی صدا اپنے خاص اندازمیں بلند رہتی ہے لیکن یہ کیا ہے ؟کیوں میں سوچ رہا تھا کہ اس کو برا سمجھوں یا مجبور بالکل اس وقت میں ایک کشمش میں تھا۔ کیا یہ ہمارے معاشرے کی مجموعی سوچ کی نمائندگی نہیں کرتی ۔اس نے بھیگ مانگتے ہوئے کہا،”بھائی صاحب میں کوئی منگن والی نہیں ، اسی چنگڑ ہونے واں کوئی بھیگ منگن والے نہیں“ وہ اپنی وضع قطع سے بالکل بھیگ مانگنے والی ہی لگ رہی تھی لیکن خود کو چنگڑ کہہ کے وہ پتا نہیں کیا ثابت کرنا چاہتی تھی۔اس کی یہ بات میرے ذہن میں ہتھوڑے کے طرح بج رہی تھی کہ سب سے مجبور تو ہمارے ملک کا وہ لوئر مڈل کلاس یا سفید پوش طبقہ ہے جو بہت زیاد ہ بھوکا اور مجبور ہونے کے باوجود کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا،ہمیشہ سب اچھے کا تاثر دینے کی کوشش میں رہتا تھا ہے جبکہ یہ عورت ایک طرف بھیگ مانگ رہی تھی دوسرے ہی لمحے اپنے آپ کو خودی کے خول سے بھی باہر نہیں آرہی،یہ اس کی مجبوری کی کون سی شکل ہوگی۔

اس کا یہ جملہ سن کر نواز شریف کا وہ جملہ یاد آگیا کہ جب ایٹمی دھماکے کرنے کے فوراً بعد نواز شریف نے ٹی وی پر آکرارشاد فرمایاتھا کہ ہم ایک خود دار قوم ہیں ہم نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کشکول کوٹھُڈا مار دیا ہے ہم گھا س کھا لیں گے لیکن کسی کے آگے بھیگ نہیں مانگےں گے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم خود دار قوم ہیںلیکن خود دار قومیں امداد پر اپنے ملک نہیں چلاتیں یا قرض لیکر کے گھر نہیںچلاتیں۔ پس اگر ایسے ہے تو محض ایک خود فریبی سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایک وزیر اعظم سے لے کر مانگنے والی پتا نہیں کب ہم سب خواب غفلت سے بیدار ہوں گے اور اس سچ کو تسلیم کریں گے کہ جوہم بولتے ہیں اصل حقیقت اس سے بر عکس ہے۔ میں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ یہ ہمارے معاشرے کو کیا ہوگیا ہے ،آخر ہم کس سمت کو جا رہیے ہیں ،کب خود فریبی سے باہر نکلیں گے ،ہم سب چور ہیں اپنی طاقت اور استعداد کے مطابق چوری کرتے ہیں،جو جتنا بڑا صاحب اختیار ہے وہ اتنا چور ہے ، ایک ریڑی والے سے لے کر اوپر تک سب اس گھاٹ سے پیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پچھلے دنوں جناب وزیراعظم صاحب نے نیب کے ادارے کی خوب خبر لی،بڑی دیر بعد میاں صاحب کو میڈیا پر اتنے جلال میں دیکھا بعد میں معلوم ہوا کہ جناب کے ایک خاص دوست جوملک کی بہت بڑی کاروباری شخصیت ہیں، زیر نیب آئے گئے ہیں جس کی وجہ سے دل ِنازک کو جو دھچکا لگا ہے اس وجہ سے ذرا مزاج برہم ہے ،میں کوئی اکنامکس کا ماہر تو نہیں لیکن میری معمولی فہم کے مطابق اب تک ملک ادھار کی بیساکھیوں کے سہارے ہی چل رہا ہے، وجہ پھر وہی ہے کہ سب چور ہیںاور جو نہیں اس کا داﺅ نہیں لگایا موقع نہیں ملتا، اس مانگنے والی عورت کی طرح ،مانگتے تو سب مجبوری سے ہیں ورنہ وہ سب چنگڑ ہی ہیں،اب یہ مانگ کر یا قرض پر چلنے والا ملک اگر یہ چاہیے کہ اپنے ہم وطنوں کی دنیا میں عزت اور احترام دلواسکے تو یہ بات تو سمجھ سے بالا تر ہیں ۔ ہم سب اپنی پسند کا جھوٹ اور اپنی ضرورت کا سچ بولتے ہیں،ایسا سچ بولنے سے گریزاں رہتے ہیں جس میں ہماری مالی قربانی شامل ہو، اگرپکڑے جائیں توفوراً ایمان کا اقرار کرتے ہوئے اپنی وکالت کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ شاید جیسے فرشتے بھی آکر اخلاقیا ت کی کلاس لیتے ہوں۔ ٹی وی پر آکر اس طرح فیکٹس اینڈ فگر گھما پھرا کر بیان کرتے ہیں کہ عوام بیچارے وہ منگو ٹانگے والے کی طرح مٹھائیاں تقسیم کرتے نہیں تھکتے ہیں کہ اب ہم آزاد ہوگئے ہیں پتہ تو چند ماہ بعد یا اگلی آنے والی حکومتیں بتاتی ہیں کہ پچھلوں نے کیا کیا گل کھلائے ہیں،ہر آنے والی حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے ہم آئندہ قرض نہیں لیں گے اور پچھلی حکومت نے بہت برا کیا ہے ،لیکن جب و ہی حکومت اپنی ٹرم پوری کرکے رخصت ہوتی ہے تو اپنے پیچھے مسائل کے انبار لگا کر جاتی ہے ،پس قرض کا ایک پھندا ہے جس کا اختتام کب ہوگا پتا نہیں ۔یہ سلسلہ کشکول ہے کہ ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments