جن نکالنا اور جان نکالنا۔۔۔۔ سب حسن نظر کا قصہ ہے


چھوٹے بیٹے کی شادی پہ بڑے بیٹے کی میت اٹھانی پڑے یہ عقیدہ نہیں، جہالت کا تحفہ ہے مگر جو اس پہ یقین رکھتے ہیں ان کے لئے یہی عقیدہ ہے۔ جی وہ ہمارے مرشد کے خلیفہ ہیں، جلالی طبیعت کے مالک ہیں، پہلے تھپڑوں سے کام چل جاتا تھا، چار پانچ دن سے زیادہ جلالیت آئی ہوئی تھی ۔۔۔ سرگودھا 95 شمالی درگاہ کے ایک مرید کا ہسپتال کے بستر پر لیٹے دیا گیا بیان کچھ لوگوں کو جہالت نظر آئے گا مگر اس میں عقیدت کی واضح جھلک موجود ہے۔ شاید عقیدت ایسی ہی ہوتی ہے کہ غلط بھی صحیح دِکھنے لگتا ہے۔ جو بات عقل کسی طور قبول نہ کرے وہ مریضہ سامنے لیٹی ہو، پیٹ پہ تعویذ باندھا ہو کہ حمل نہیں ہو رہا تھا پیر صاحب نے دم کیا اور تعویذ باندھا ہوا ہے انہوں نے الٹراساؤنڈ کرانے سے منع کیا تھا اس لمحے الٹراساؤنڈ کا پروب اس کے پیٹ پہ رکھتے ہوئے اپنی گالیوں کا ذخیرہ کم پڑتا دکھائی دیتا ہے ، مدہم لہجے میں بھی سمجھانا چاہیں تو وہ اپنی عقیدت کی پٹی اتارنا نہیں چاہتے کہ یہ عقیدت اتنی ہی خوشنما ہوتی ہے۔

محبوب کے ساتھ زندگی گزارنے کے خواہشمند جانے کیوں کہیں یہ لکھا پڑھ لیں کہ “محبوب قدموں میں” تو خود کو روکنا مشکل ہو جاتا ہے اور نتیجہ کچھ بےکار کے وظائف و چلوں کی صورت سامنے آتا ہے، بچہ بیمار ہو جائے تو جب تک نظر نہ اتاری جائے یا دم نہ کرایا جائے وہ ٹھیک نہیں ہوتا، ٹھیک تو وہ بچہ اِن سب حرکتوں سے بھی نہیں ہوتا اور پھر دو چار روز بعد ڈاکٹر کی طرف جانا ہی پڑتا ہے کہ ہوئی تاخیر تو باعثِ تاخیر صرف گھریلو ٹوٹکے نہیں یہ اعتقاد بھی ہے۔ آپ رپورٹ دیکھ کر ایک لمحہ کو ٹھہریں اور پھر خاتون کو ‘ایزوسپرمیا’ کا مطلب سمجھانے کی بےکار کوشش کریں اور کچھ عرصے بعد وہ مریضہ حاملہ ہو تو یہ معجزہ جس پیر نے دکھایا ہوتا ہے اس سے کون ملنا نہیں چاہے گا؟

نوکری کی تلاش میں بھٹکنے سے رشتے کے انتظار میں بیٹھے مایوس لوگوں تک ہر کسی کے ہر مسئلے کا حل ان کے پاس موجود ہے، معاشرتی دباؤ اور معاشی طور پر کمزور لوگ بھی ایسے ٹھکانوں پر پہنچ کر خوشی سے پیسے خرچ کرتے ہیں، یہی پانچ ہزار ٹیسٹ اور دوا پر لگے تو ڈاکٹر لوٹتے ہیں مگر یہی پانچ ہزار کسی آستانے یا ایسے کسی ٹھکانے پہ خرچ ہو جائیں تو اِس کو لوٹ مار نہیں کہتے ، لُٹنے والا بخوشی لٹ رہا ہے اور لوٹنے والا اسے تسلی دے رہا ہے کہ ایک روز تمہارا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ کوئی توہم پرستی کہتا ہے، کوئی ضعیف العتقادی ، کوئی جہالت کہتا ہے مگر کہنے والوں کا کیا ہے وہ کچھ بھی کہتے رہتے ہیں اُن کی باتوں سےمسئلے حل نہیں ہوتے۔ اور خیر کی بات یہ ہے کہ مسئلے ایسی جگہوں پہ جانے سے بھی حل نہیں ہوتے۔

ذیابیطس کے مریض کو چینی پہ دم کر دیں گے کہ یہ استعمال کریں اس سے دو ہفتے میں بیماری کا خاتمہ ہو جائے گا،مرض تو وہیں رہتا ہے مریض خاتمے کے قریب پہنچ جاتا ہے۔ کوئی موٹا ہے تو کدو کرا لیں اس عمل میں بھی نقصان کدو اور پیسوں کا ہوتا ہے موٹاپا قائم رہتا ہے۔ یہاں لوگ بس بات کہنا چاہتے ہیں ، بات سننے والا کوئی نہیں ہے، جو یہ بےکار کام کر سکے وہی مسیحا تصور کیا جائے گا۔ ذاتی رنجشوں اور رشتوں کی الجھنوں کا نتیجہ تعویذ گنڈے کی صورت نکلتا ہے، اس پہ یقین رکھیں اور اپنے رشتےداروں کا سکون تباہ کرنے کی خاطر ایسے دو نمبر لوگوں کے ہاتھوں لٹتے رہیں کوئی آپ کو روکے تو اسے طعنہ مار دیں کہ چار کتابیں پڑھ لینے سے عقل نہیں آتی۔ اور یقین کریں جب آپ بہت سے ڈگری یافتہ، جی ہاں تعلیم یافتہ نہیں، ڈگری یافتہ لوگوں کو ایسے ٹھکانوں اور آستانوں کا رخ کیئے دیکھیں تو آپ کو بھی یقین آ جائے گا واقعی چار کتابیں پڑھ لینے سے عقل نہیں آتی۔ یہ لوگ اپنی ضرورتوں اور آسائشوں میں تفریق نہیں کر سکتے، معاشی حالات سے پریشان رہتے ہیں مگر ان نوسربازوں کے ہاتھوں میں ہزاروں روپے تھما سکتے ہیں کہ ان کی وجہ سے حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ وہ جھوٹ بیچنا جانتے ہیں اور لوگ جھوٹ خریدنا چاہتے ہیں ، جو شے دلفریب ہو وہاں سے کوئی عقل والا چاہے جتنا مرضی روک لے جب تک کوئی دھوکا کھانا چاہتا ہے وہ تسلی سے کھاتا ہے اور رکتا ہے تو کچھ بھگت کے ہی اپنے قدم روکتا ہے ورنہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، لیکن کیا بھگتنے والا قدم روکتا ہے؟ ‘پہلے تھپڑوں سے کام چل جاتا تھا چار پانچ روز سے زیادہ جلالیت آئی ہوئی تھی’ یہ بیان کہتا ہے کہ ہر بھگتنے والا قدم نہیں روکتا۔ وہ اپنے جھوٹ میں خوش ہے، ہمارا سچ نہیں سنے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).