ذہنی امراض اور نفسیاتی مسائل:  وجوہات اور علاج


ایک وہ زمانہ تھا جب انسان یہ سمجھتے تھے کہ وہ جنوں‘ بھوتوں‘ پریوں اور آسیب کے سائے کی وجہ سے پاگل ہو جاتے ہیں۔

ایک وہ دور تھا جب انسان یہ یقین رکھتے تھے کہ جب وہ خدائوں کی نافرمانی کرتے ہیں تو ان پر عذاب آتا ہے اور وہ دیوانے ہو جاتے ہیں۔

ایک وہ عہد تھا جب لوگ خدائوں کو خوش کرنے کے لیے دعائیں مانگتے تھے اور جانوروں کی قربانیاں دیتے تھے تا کہ ان کے گناہ معاف ہو جائیں اور وہ صحتمند ہو سکیں۔

بقراط HIPPOCRATES وہ پہلے یونانی طبیب اور فلاسفر تھے جنہوں نے 500 قبل مسیح میں یہ کہا کہ انسان کی جسمانی اور ذہنی صحت کا تعلق مافوق الفطرت وجوہات SUPERNATURAL CAUSES کی بجائے فطری اسباب NATURAL CAUSES سے ہے۔ اسی لیے بقراط طب کے بانی FATHER OF MEDICINE سمجھے جاتے ہیں۔

بقراط نےعلمِ طب کی جو بنیادیں رکھیں ان پر جالینوس GALEN اور بو علی سینا AVICENNA نے عالیشان عمارتیں تعمیر کیں۔ بو علی سینا کی کتاب CANON OF MEDICINE کئی صدیوں تک دنیا کی بہت سی یونیورسٹیوں میں درسی کتاب کے طور پر پڑھائی جاتی رہی۔

بیسویں صدی میں سائنس‘ طب اور نفسیات نے اتنی ترقی کی ہے کہ اب ہم ذہنی امراض اور نفسیاتی مسائل کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں اور ان کا سائنسی بنیادون پر علاج کرتے ہیں۔ سائنسی طرزِ فکر سے ہم ذہنی مسائل کو کئی خانوں میں تقسیم CLASSIFY  کرتے ہیں تا کہ ان کی تشخیص اور علاج میں آسانی ہو۔ میں اس مضمون میں ذہنی بیماریوں‘نفسیاتی مسائل اور ان کے علاج کا اختصار سے تعارف کروائوں گا۔

PSYCHOTIC DISORDERS

 ایسی ذہنی بیماریاں عرفِ عام میں پاگل پن کہلاتی ہیں۔ ان کی مثالیں شائزوفرینیاSCHIZOPHRENIA اور بائی پولر ڈس آرڈر BIPOLAR DISORDER ہیں۔ ایسی بیماریوں کے شکار مریض غیبی آوازیں HALLUCINATIONS سننا شروع کر دیتے ہیں اور انہیں مختلف قسم کے توہماتDELUSIONS گھیر لیتے ہیں جو انہیں بہت پریشان رکھتے ہیں۔

NEUROTIC DISORDERS

ایسی نفسیاتی بیماریوں کے مریض ڈیرپریشنDEPRESSION اور اینزائٹی ANXIETY کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ڈیپریشن کے مریض اداس رہتے ہیں اور بعض دفعہ خود کشی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اینزائٹی کے مریض دن بھر پریشان اور رات بھر بے خوابی INSOMNIA کا شکار رہتے ہیں۔

PERSONALITY DISORDERS

ایسے ذہنی مریضوں کی شخصیت میں کجی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ زندگی کے بارے میں غیر دانشمندانہ فیصلے کرتے ہیں۔ وہ ایسے تضادات کا شکار ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ ایسے مریضوں میں سے بعض منشیات کا استعمال شروع کر دیتے ہیں جن سے وہ قانونی مسائل کا بھی شکار ہو جاتے ہیں۔

RELATIONSHIP PROBLEMS

ایسے مریض صحتمند رشتے قائم نہیں کر سکتے اس لیے وہ ازدواجی‘ خاندانی اور سماجی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔

جدید سائنس نے ہمیں بایو سائیکو سوشل موڈل BIO-PSYCHO-SOCIAL MODEL کا تحفہ دیا ہے ۔یہ موڈل ہمیں بتاتا ہے کہ ذہنی امراض اور نفسیاتی مسائل کی وجوہات کو ہم تین حصوں میں بانٹ سکتے ہیں۔

BIOLOGICAL FACTORS

ذہنی بیماریوں میں حیاتیاتی اور موروثی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ اگر ماں باپ ذہنی بیماری کا شکار ہوں تو ان کے بعض بچے بھی اس کا شکار ہو سکتے ہیں۔ شائزوفرینیا اور بائی پولر دس آرڈر جیسی ذہنی بیماریاں‘ بعض جسمانی بیماریوں کی طرح‘ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہو سکتی ہیں۔

PSYCHOLOGICAL FACTORS

اگر بچوں کی اپنے خاندان اور سکول میں صحتمند طریقے سے تربیت نہ ہو تو ان کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے‘ ان کی خود اعتمادی میں کمی آتی ہے اور وہ شخصیت میں کمزوری کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔

SOCIAL FACTORS

وہ لوگ جو غیر صحتمند معاشروں میں رہتے ہیں جہاں انہیں تعصب اور جہالت‘ نفرت اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ ایسے ماحول سے نفسیاتی طور پر متاثر ہوتے ہیں اور سماجی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔

چونکہ ذہنی مریضوں میں حیاتیاتی‘ نفسیاتی اور سماجی وجوہات مل کر نفسیاتی مسائل پیدا کرتے ہیں اس لیے ان کا علاج بھی ان ہی خطوط پر کیا جاتا ہے۔ مریضوں کے علاج میں ان ہی عوامل پر توجہ دی جاتی ہے۔

 MEDICATIONSادویہ

جو مریض شائزوفرینیا اور بائی پولر ڈس آرڈر جیسی ذہنی امراض کا شکار ہوں انہیں سائیکاٹرسٹPSYCHIATRIST ایسی ادویہ تجویز کرتے ہیں جو غیبی آوازوں اور توہمات کو کنٹرول کرتی ہیں۔ ایسی ادویہ ANTI-PSYCHOTICS کہلاتی ہیں۔ ڈیپریشن کو کنٹرول کرنے والی ادویہANTI-DEPRESSANTS اور این زائٹی کو کنٹرول کرنے والی ادویہ ANTI-ANXIETY MEDICATIONS کہلاتی ہیں۔

انفرادی تھیریپیINDIVIDUAL THERAPY

بعض نفسیاتی مسائل کا شکار سائیکولوجسٹ PSYCHOLOGIST سے رجوع کرتے ہیں جو ان کا گفتگو سے علاج TALKING THERAPY کرتے ہیں۔ ایسے علاج سے مریض اپنے نفسیاتی مسائل کو بہتر طریقے سے سمجھتے ہیں اور صحتمند زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ازدواجی‘ خاندانی اور گروپ تھیریپیMARITAL, FAMILY, GROUP THERAPY

جن لوگوں کو انسانی رشتوں کے مسائل ہوتے ہیں وہ کسی سوشل ورکرSOCIAL WORKER  یا سائیکو تھیریپسٹ PSYCHOTHERAPIST  سے مشورہ کرتے ہین اور ازدواجی‘ فیملی اور گروپ تھیریپی سے استفادہ کرتے ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ مریضوں کی ضروریات بھی بدل سکتی ہیں اور ان کا علاج بھی۔ دانشمند ماہرینِ نفسیات مریض کے مسائل کے مطابق علاج تجویز کرتے ہیں۔

اکیسویں صدی میں جوں جوں سائنس‘ طب اور نفسیات ترقی کر رہے ہیں توں توں ہم جسمانی بیماریوں کی طرح ذہنی بیماریوں کی بھی بہتر تشخیص اور بہتر علاج کر سکتے ہیں۔ ساری دنیا میں ایسے بہت سے مریض جو ایک صدی پہلے اپنی بیشتر زندگی کسی پاگل خانے MENTAL HOSPITAL میں گزارتے تھے اب اپنے خاندانوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزارتے ہیں۔

بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی جہاں دنیا کے اکثر ممالک میں ذہنی مریض جدید علاج سے استفادہ کرتے ہیں بعض ممالک میں لوگ اپنے مریضوں کو ڈاکٹر اور ماہرِ نفسیات کے پاس لے جانے کی بجائے پیروں فقیروں کے پاس لے جاتے ہیں جو ان کا گنڈا تعویز سے علاج کرتے ہیں۔ بعض ممالک میں تو ذہنی مریض آج بھی علاج کروانے کی بجائے گلیوں بازاروں میں بے مقصد گھومتے پھرتے رہتے ہیں اور لوگ انہیں پتھر مارتے ہیں۔

ذہنی امراض اور نفسیاتی مسائل کے کامیاب علاج انسانوں کے لیے سائنس‘ طب اور نفسیات کے قیمتی تحفے ہیں۔ مارینِ نفسیات کے علاج سے ہر قوم‘ مذہب اور ملک کے انسان استفادہ کر کے ایک صحتمند‘ کامیاب اور پر سکون زندگی گزار سکتے ہیں۔

میں اس حوالے سے ایک خوش قسمت انسان ہوں کہ مجھے پچھلے چالیس برس میں سینکڑوں مریضوں اور ان کے خاندانوں کی خدمت اور علاج کا موقع ملا۔ میرے مریض میرے استاد بھی ہیں کیونکہ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ انہوں نے مجھے ایک ہمدرد انسان اور بہتر نفسیاتی معالج بننے کی تحریک دی۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail