نگوڑی سیاست کیا کیا دکھلائے ہے!


پہلے میرا خیال تھا کہ انتھک عمران خان شمسی توانائی سے چلتے ہیں۔مگر اب تو مجھے یقین سا ہونے لگا ہے کہ عمران خان ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی ( ونڈ پاور )سے چلتے ہیں۔ اب دیکھیے نا پچھلے ہفتے ہی انھوں نے بھری پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پیپلز پارٹی سے تب تک کسی بھی سطح پر انتخابی اتحاد یا ہم آہنگی ممکن نہیں جب تک پارٹی کی باگ ڈور آصف زرداری کے ہاتھ میں ہے۔اس کے بعد اطلاع آئی کہ چکوال تلہ گنگ کی جس صوبائی نشست پی پی تئیس پر اٹھارہ اپریل کو ضمنی انتخاب ہو رہا ہے اس پر پیپلز پارٹی کی جانب سے تحریکِ انصاف کے امیدوار کی حمایت کا فیصلہ لوکل سیٹ ایڈجسٹمنٹ فارمولے کے تحت ہو گیا ہے۔

مگر ونڈ پاور سے چلنے والے عمران خان نے تلہ گنگ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی مبینہ کرپشن ، نواز شریف اور آصف زرادری کے مابین احتساب روکنے کے لیے مک مکا اور اس مک مکا کے ثبوت کے طور پر آصف زرداری کی وطن واپسی ، ڈاکٹر عاصم حسین کی ضمانت اور سابق وفاقی وزیرِ مذہبی امور حامد سعید کاظمی کی حج کرپشن اسکینڈل کے مقدمے سے بری ہونے کی مثالیں دیں (عمران خان کو کسی نے نہیں بتایا کہ تینوں فیصلے عدالتی ہیں)۔

جب خان صاحب بھرے انتخابی جلسے میں تلہ گنگیوں کے سامنے پیپلز پارٹی کے کچے چھٹے کھول رہے تھے تو اسٹیج پر موجود دیگر پی ٹی آئی والے ہاتھ مل رہے تھے۔پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چوہدری نے خان صاحب کے کان میں کہا کہ ہم اس نشست پر پیپلز پارٹی کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کر چکے ہیں۔مگر خان صاحب نے مجمع کو بتایا کہ فواد چوہدری میرے کان میں کہہ رہا ہے کہ ہم چکوال میں پی پی کے ساتھ اتحاد میں ہیں اور اس وقت پیپلز پارٹی پر نکتہ چینی نہیں کرنا چاہیے۔مگر میں کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف بات کرتا رہوں گا۔

خان صاحب کا تو کچھ نہ گیا لیکن مسکین فواد چوہدری کو بعد ازاں میڈیا کو یہ صفائی پیش کرنا پڑی کہ پی پی سے کوئی باضابطہ انتخابی اتحاد نہیں بلکہ لوکل سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہے۔اور نچلے لیول پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے پارٹی کا اصولی موقف متاثر نہیں ہوگا۔نچلے لیول پر اصول نہیں مقامی حقائق دیکھے جاتے ہیں۔

جہاں تک آصف زرداری کا سوال ہے تو وہ ہمیشہ سے سب کو ساتھ لے کر چلنے کی عادت میں مبتلا ہیں۔اگر دوسری عالمی جنگ کے دوران ہوتے تو ہٹلر اور چرچل کو بھی ایک لڑی میں پرو چکے ہوتے۔پہلا چمتکار دو ہزار آٹھ کے بعد ہوا جب قاتل لیگ کہنے والے زرداری نے چوہدری برادران کی قاف لیگ سے سیاسی و انتخابی مصافحہ کیا اور احمد مختار جیسا جیالا منہ دیکھتا رہ گیا۔فیصل صالح حیات پیپلز پارٹی سے ٹوٹ کر مشرف کے وزیرِ داخلہ بن گئے اور آج پیپلز پارٹی میں ہیں۔

جام صادق علی نے اپنی وزارتِ اعلی کے زمانے میں بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کو ناکوں چنے چبوا دیے اور پارٹی کے وفادار ارکانِ اسمبلی کو توڑنے کے لیے ہر گھٹیا حربہ استعمال کیا۔انھی جام صاحب مرحوم کی ناک کے بال امتیاز شیخ آج پیپلز پارٹی میں ہیں۔حتیٰ کہ سندھ اسمبلی میں مسلم لیگ فنکشنل کے پارلیمانی لیڈر جام مدد علی بھی پگارا فیملی کے ساتھ پچیس برس کی رفاقت توڑ کے اب پیپلز پارٹی میں ہیں۔

جام صادق علی کے مشیرِ داخلہ عرفان اللہ مروت کے دور میں کراچی کے سی آئی اے سینٹر میں ڈی آئی جی سمیع اللہ مروت نے پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی راحیلہ ٹوانہ اور شہلا رضا پر مظالم ڈھائے۔وہی عرفان اللہ مروت آصف زرداری سے بروقت ملاقات کے بعد جلد بازی میں پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا عندیہ نہ دیتے  تو بے نظیر کی بیٹیاں بختاور اور آصفہ کھلے عام ٹویٹ کر کے عرفان اللہ مروت کے ماضی کی مذمت نہ کرتیں۔

مگر ہائے رے سیاست۔ راحیلہ ٹوانہ مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر بنیں۔ وینا حیات کیس والے عرفان اللہ مروت مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے اور پیپلز پارٹی میں ان کی آمد روکنے کے لیے بختاور اور آصفہ کی مخالفت پر سندھ اسمبلی کی موجودہ ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ،

’’ سیاست ایک بہت کھردرا پیشہ بن چکا ہے۔میں نے اپنی سیاسی و نظریاتی خواہشات کے برخلاف کئی چیزیں قبول کی ہیں۔میں بی بی کی بیٹوں کے ردِعمل کا احترام کرتی ہوں۔ دس برس پہلے میرا ردِعمل بھی یہی ہوتا۔مگر آج پارٹی انھیں (عرفان اللہ مروت ) قبول کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں‘‘۔( مظہر عباس۔دی نیوز۔اٹھائیس فروری)۔

اس پر مجھے بھارتی راجیہ سبھا کی ڈپٹی چیرپرسن اور مولانا ابوالکلام آزاد کی پوتی نجمہ ہیبت اللہ یاد آگئیں۔ وہ کانگریس میں سیکریٹری جنرل سمیت کئی اہم ذمے داریوں پر فائز رہیں اور پھر سونیا گاندھی سے ان بن ہونے کے بعد سیدھی بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل ہو کر اس کی نائب صدر بن گئیں۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے تو خون میں کانگریس ہے۔ یہ آپ نے کیسا فیصلہ کیا ؟ نجمہ ہیبت اللہ نے کہا ’’ کیا بتاؤں بھئیا۔ یہ نگوڑی سیاست بھی کیا کیا دکھلائے ہے ‘‘۔۔۔

بات ہو رہی تھی ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی سے چلنے والے سادہ لوح عمران خان اور نیولے اور سانپ کو ساتھ ساتھ بٹھانے کے فن میں طاق آصف زرداری کی اور میں بھی کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔مجھے لگتا ہے کہ عمران خان کی اپنی آئیڈیالوجی ’’ کجھ شہر دے لوگ وی ظالم سن کجھ ساہنوں مرن دا شوق وی سی‘‘ کا خلاصہ ہے۔انھیں کسی  اضافی سیاسی دشمن کی ضرورت ہی نہیں۔وہ پہلے سیاستداں ہیں جو اس معاملے میں خود کفیل ہیں۔

وحشت کا یہ عالم کہ پسِ چاکِ گریباں
لڑتے ہیں بہاروں سے الجھتے ہیں خزاں سے (جاوید صبا)

خان صاحب کے چاروں طرف حریف و حلیف اور جانثاروں کے روپ میں وہ وہ لوگ ہیں جنھیں بیک وقت علی کی فراست اور معاویہ کا دسترخوان پسند ہے۔ ایسے میں عمران خان کو آئینہ دیکھنے سے ہی فرصت نہیں ؟ اصغر خان کو جب احساس ہوا کہ نہ صرف سیاستداں بلکہ ووٹرز بھی ناقابلِ اعتبار ہیں اور ان میں دونوں سے نمٹنے یا سدھارنے کی صلاحیت نہیں تو وہ کونے میں بیٹھ گئے مگر عمران خان عمران خان ہیں۔

خون تھوکے ، کبھی چلائے ، کبھی تقریر کرے
ایسے پاگل کے لیے کیا کوئی تدبیر کرے ( احمد نوید )

البتہ عمران خان کو یہ کریڈٹ بہرحال جاتا ہے کہ بھلے وہ وزیرِ اعظم بنیں نہ بنیں مگر ان  کے سبب حکومت کو ایڑیوں کے بل کھڑے ہو کر کچھ نہ کچھ کارکردگی دکھانی پڑ رہی ہے۔ اور اگلی حکومت کو بھی عمران خان درپیش ہوں گے۔اس ملک کو فی الحال ایسے ہی توازن کی ضرورت ہے۔بشرطیکہ عمران خان اپنا توازن برقرار رکھیں ( یہ بھی قومی خدمت کی ہی شکل ہے )۔

جہاں تک آصف زرادی اسٹائل آف پالٹیکس ہے تو اس کا فارمولا بڑا سیدھا ہے۔منافع ہوتا رہا تو یہی کرتے رہیں گے نہ ہوا تو کچھ اور کریں گے۔

ارے یاد آیا آج ذوالفقار علی بھٹو کا اڑتیسواں یومِ شہادت ہے۔ جو بھی ہو رہا ہے اور جو بھی کر رہا ہے سب بھٹو کے نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔زرداری،میاں جی اور خان صاحب اسی ادھورے خلا میں پیدا ہوئے۔جو رسہ بھٹو کے گلے میں پڑا تھا پاکستان آج بھی اسی رسے پر اپنا توازن قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔دیکھیے کیا ہو۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).