مبارک ہو، آپ میڈیائی مریض بن چکے ہیں!


اگر آپ ایک جیتے جاگتے انسان ہیں کہ جس کی پانچوں حسیں اور سوچنے کی صلاحیت، جو بھلے نہ کبھی استعمال ہوئی ہو، مگر قائم ہے تو آپ کو میڈیا سے بچنا چاہئے۔ ہر اک کاروبار کی طرح، میڈیا بھی ایک پیسے اور نفع پر چلنے اور ان کی مسلسل کھوج و تلاش کرنے والا کاروبار ہے، مشن و مقصدیت پر مبنی کوئی سوشل انٹرپرائز نہیں۔ نہ پاکستان میں، اور نہ ہی دنیا میں کہیں اور، تو لہٰذا، اپنے نفع اور پیسہ کے حوالے سے میڈیا انڈسٹری کا دامن و مزاج بھی ویسا ہی ہے جیسا کہ، کارن فلیکس، سوڈا ٹِنز، ڈبل روٹی یا کنڈوم بیچنے والے کسی ادارے کا ہوگا کہ مارکیٹ کے شیئر میں، کہ جس کا اپنا نظام کافی مشکوک اور بہت ساری تہوں میں ہے، اپنے کسی دوسرے مقابل کا خود سے آگے نکلنا نہ صرف سخت نا پسند ہوگا، بلکہ ہر طرح کے طریقہ سے خود سے آگے نکلنے والے کو گھسیٹ گھساٹ کر نیچے گرانا مقصود ہوگا۔

میڈیا کی پراڈکٹ ’معلومات اور خبریں‘ ہوتی ہیں۔ پاکستانی میڈیا میں معلومات اور خبریں کچھ زیادہ نہیں ہوتیں، بلکہ یہ تقریباً ننانوے فیصد واقعاتی رپورٹنگ اور تکے بازی پر چلتا ہے کہ جس میں ٹی وی سکرینز اور اخبارات میں وہ لوگ بھی ملتے ہیں جو کبھی ایک انقلابی لیڈر کے کردار کے حوالے سے کسی خاتون کو لندن میں حاملہ قرار دیتے ہیں، تو ایسی لقمانیت بھی ملتی ہے جو پکڑے جانے والی ڈالر گرل کو بھی فیملی وے پر بتا ڈالتے ہیں۔ کوئی کان نکالے دانش بیچ رہا ہوتا ہے تو کوئی چڑیا اڑاتے ہوئے اکثریتی سطحی معاملات و معلومات پر بحث کر رہا ہوتا ہے۔ کوئی وہ قیامت لا رہا ہوتا ہے جو شاید ابھی لاکھوں سال دور ہے تو کوئی بنیادی طور پر ٹاک ہی کر رہا ہوتا ہے، صحافت نہیں۔ کوئی بلاگرز کے سارے کے سارے مضامین بے شرمی سے نقل کرکے دنیا کو پڑھا رہا ہوتا ہے، تو کوئی پلاٹ ملنے یا نہ ملنے پر سپریم کورٹ جا کر خود کو سینئر صحافی ثابت کرتا پھرتا ہے کہ مجھے بڑا پلاٹ دیا جائے۔ کوئی پلاٹ کی خبروں پر نشے میں دھت نورانیت کو سبق سکھا رہا ہوتا ہے تو کوئی طالبان اور پرتشدد عناصر کو اپنا ناراض بھائی کہہ رہا ہوتا ہے۔ کسی کی عریانیت میں پاکستان اور دنیا کے تمام مسائل کا منبع عورت کے تنگ کپڑے ہوتے ہیں، بھلے اپنی صاحبزادی مغربی ممالک میں جینزشرٹ میں پھرتی ہو، تو کوئی عمدگی کے ساتھ صالح ظافریت کر رہا ہوتا ہے۔ وہی ظافریت کہ جس نے کبھی 1999 ء میں وزیراعظم ہاوس سے ویاگرا برآمد کروا کر قائد اعظم ثانی کو جنسی بے راہ رو ثابت کیا تو آج کل ا ن کو وقت کے ابدال و قطب ثابت کر رہے ہیں۔ فہرست اور بھی طویل ہے، مگر خیال کو خیال ہی رہنا ہوتا ہے، مضمون نہیں بننا ہوتا۔

تو جناب، میڈیا کی پراڈکٹس اگر آپ کے استعمال میں رہتی ہیں، تو یقین کیجیے کہ آپ وہی بن جاتے ہیں جو میڈیا آپ کو ان پراڈکٹس کے حوالے سے بنا رہا ہوتا ہے۔ سادہ سی بات ہے، خدارا سمجھئے کہ آپ اگر روز گوشت کھائیں گے تو آپ کے وجود پر اس کا ایک خاص اثر ہوگا، روز سوڈا پیئں گے تو اس کابھی اک مخصوص اثر ہوگا، اور اگر روز میڈیا استعمال کیجیے گا تو جناب اثر تو اس کا بھی ہوگا۔ آپ اگر ڈیڑھ دن میں انقلاب لانا چاہتے ہیں، تین دن میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں، پانچ دن میں پاکستان کو نیویارک بنتے دیکھنا چاہتے ہیں، شورش و دھرنوں میں ترقی اور عروج دیکھنا چاہتے ہیں، اور جمہوری ارتقائی سفر کو ترک کرکے بقول مجاہد دوم، سردار عتیق احمد خان، ملٹری ڈیموکریسی کو پاکستان کے مسائل کا حل سمجھتے ہیں، تو جناب، میری دلی تعزیت اور ترس قبول کیجیے، کیونکہ، آپ میڈیائی مریض بن چکے ہیں۔ اور اس مرض کی دوا بھی موجود ہے، جو پھر کبھی سہی۔ فی الحال تو اپنی انسپکشن کیجیے کہ کیا آپ مریض بھی ہیں کہ نہیں، گو کہ اس مرض میں مبتلا خود کو اس مرض میں مبتلا نہیں سمجھتے۔

کسی بھی دوسرے کے منہ سے نکلنے والی بات کہ جس کے پیچھے مارکیٹ فورسز موجود ہیں، اگر آپ کی ذہن سازی کر رہی ہے تو میرے صاحبو، اپنے شخصی معیار کا معائنہ کیجیے۔ یہ کوئی اتنا اچھا نہیں۔

یہ مشن نہیں، پیسہ ہے، دوست۔ کڑکڑاتا، گرم اور طاقتور بناتا پیسہ۔ اور آپ اس پیسے کی مشین کو چلانے کا تیل۔ اس مشین کا تیل بننے سے انکار کیجیے۔ بہتری محسوس کیجیے گا۔ باقی آپکی اپنی مرضی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).