عصمت فروشی کیا صرف جسم بیچنا ہوتی ہے!


ابن انشاء کی’اردو کی آخری کتاب‘ اردو ادب کی تاریخی کتاب ہے۔ یہ کتاب پہلی دفعہ جولا ئی 1971ء میں شائع ہوئی تھی اور اس وقت سے لے کر اب تک متعدد با رچھپ چکی ہے۔ جب بھی کتاب کا مطالعہ کیا جائے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کتاب موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں لکھی گئی ہے اس لیے، اس کو اردو ادب کی سدا بہار کتاب بھی کہا جا سکتا ہے۔ باب ’برکات حکومت غیر انگلشیہ‘ کی چند سطریں پیش خدمت ہیں۔ لکھتے ہیں۔ آزادی سے پہلے ہندو بنئے اور سرمایہ دار ہمیں لوٹا کرتے تھے۔ ہماری خواہش تھی کہ یہ سلسلہ ختم ہو اور ہمیں مسلمان بنئے اور سیٹھ لوٹیں۔ الحمد للہ کہ یہ آرزو پوری ہوئی۔ حقیقت یہی ہے کہ ملک و قوم کا یہ حال اغیار نے نہیں، ہمارے بااثر، سرمایہ دار اور کاروباری طبقے ہی نے کیا ہے جو ہم اس حال کو پہنچے ہوئے ہیں۔ قوم کو بے ایمانی کے ٹیکے نچلی سطح تک اس تواتر کے ساتھ لگائے ہیں کہ ہر سطح پر سب ایک دوسرے کو مل کر لوٹ رہے ہیں یا دھوکہ دے رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں دودھ والے سے کہا۔ بھائی ویسا ہی دودھ دینا جیسا پچھلی بار بنا یا تھا یا جتنا پانی ملایا تھا۔ گھر میں پسند کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی پوچھ لیا ِ۔ بھائی کتنے فیصد پانی ملاتے ہو جو دودھ اتنا اچھا ہے۔ دکان پر موجود ہر شخص کو سانپ سا سونگھ گیا کہ نہ جانے اب کیا ہونے کو ہے کیونکہ اب جواب دودھ والے نے دینا تھا۔ دودھ والے کا جواب مسکراہٹ سے شروع ہوتا ہوا، قہقہے پر جاکر ختم ہوا۔ دکان میں موجود  تمام گاہک بھی مطمئن انداز میں مسکرانے لگے کہ شکر ہے کوئی بدمزگی نہیں ہوئی۔ جب جواب کے لیے مزید اصرار کیا تو انتہائی ڈھٹائی سے جواب دیا نصف دودھ نصف پانی، واضح رہے کہ یہ حقیقی واقعہ ہے۔ سب کی طرح ہم بھی چپ چاپ گھر آگئے۔ کھانے پینے کی اشیاء ہوں یا دیگر اشیاء صرف ملاوٹ، دھوکے اور جھوٹ کے ساتھ بیچنا، کاروباری طبقے کا پہلا اصول ہے۔

کہنے کو تو ہم مسلمان ہیں۔ ٹی وی پر یا رو زمرہ زندگی میں بے حجاب خاتون کو دیکھ کر دین و ایمان خطرے میں نظر آنے لگتا ہے اور حسب توفیق خوب شور اور واویلا  مچایا جاتا ہے لیکن ملاوٹ، دھوکا اور جھوٹ بولتے وقت دین اور ایمان کی سلامتی کی کوئی فکر نہیں ہوتی بلکہ معاشرے میں وہی شخص عزت و توقیر کا مالک ہے جس نے، جتنی بے حیائی کے ساتھ ملک و قوم کو لوٹا ہے۔

ملک دو لخت ہونے کے بعد بھی تا حال ہوش کے ناخن نہیں لیے گئے ہیں۔ سازشوں، آمرانہ و غیر آئینی طریقوں سے اقتدار حاصل کرنے کی ریت و روایت مستحکم ہے۔ ملکی دولت لوٹ کر بیرون ملک لے جائی جاتی ہے۔ وطن عزیز کے خلاف ملک کے اندر اور باہر بیٹھ کر بیان بازی اور سازشیں کی جاتی ہیں، کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ فکر اس کی ہے کہ فلاں عورت ایسی ہے، ویسی ہے، بے حجاب ہے یا عصمت فروش ہے۔ عزیز ہم وطنو! جسم بیچنا ہی صرف عصمت فروشی نہیں ہوتی، جو لوگ کھانے پینے کی اشیاءمیں ملاوٹ کرکے، ملک و قوم کی دولت لوٹ کر اقتدار میں آتے ہیں یا وطن عزیز کے خلاف سازشیں اور بیان دیتے ہیں وہ سب بھی عصمت فروش کہلائے جانے کے مستحق ہیں کہ ملک و قوم کی عزت چند ٹکوں کی خاطر بیچنے پر تلے ہوئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).