آؤ، منٹو کو برداشت کریں


واقعات کی کوئی کمی نہیں ہے، شہر میں آئے دن کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔ اگر اس کے برخلاف کوئی امکان بھی ہو تو شہر کے مہربان متبادل انتظام کر دیتے ہیں__ جس کا متبادل بیانیے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سندھ حکومت نے بن قاسم پارک ایک نجی ادارے کے سپرد کرنے کا اعلان کر دیا، پھر اس کائونٹ آف مانٹی کرسٹو جیسی شخصیت نے تھالی میں رکھا ہوا تحفہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ آپ سوچتے رہئیے کہ پارک کا حکومت کے پاس رہنا زیادہ بُرا ہے یا اس نجی ادارے کے پاس چلے جانا۔ پریس کلب کے باہر سے کراچی یونیورسٹی کے دو پروفیسرز کو گرفتار کر لیا گیا جو ایک پروفیسر کی گرفتاری کے خلاف احتجاج درج کرانے کا ارادہ کررہے تھے۔ اور کچھ نہیں تو ایک دن ایک سیاسی جماعت نے خدائی فوج دار بن کر شاہراہ فیصل پر دھرنا دے دیا اور اس انتہائی مصروف سڑک سے گزرنے والے تمام لوگ بھیانک ٹریفک جام میں پھنس کر حیران رہ گئے کہ یہ کیا احتجاج تھا، کہاں سے آیا اور کدھر گیا وہ؟

ان سارے ہنگاموں میں یہ واقعہ دب گیا کیونکہ کسی نے شور نہیں مچایا۔ مگر یہ بھی کراچی کی حالیہ ثقافتی تاریخ کا واقعہ ہے کہ نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس جیسے عرفِ عام میں ناپا (NAPA) کہا جاتا ہے، حالاں کہ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ کس نے ناپا اور کتنا ناپا؟ کوئی بتائے نہ بتائے، ناپا نے چودہ روزہ تھیٹر اینڈ میوزک فیسٹی ول کا انعقاد کر ڈالا۔ روز ایک نیا کھیل، ایسا کھیل جو اس شہر کے لوگوں نے دیکھا نہ سنا۔ اس جشن میں لگ بھگ چوبیس پرفارمینسز ہوئیں جن میں اٹھارہ ڈرامے شامل تھے۔ ڈراموں کا تعلق پانچ مختلف ملکوں سے تھا مگر سب سے بڑھ کر اپنے ملک کے فنکار ایک سے ایک نئے روپ میں جلوہ افروز ہورہے تھے۔

کاش اتنی فرصت ہوتی کہ سارے ڈرامے دیکھ ڈالے ہوتے۔ مگر پھر بھی جتنے دیکھ سکا ابھی ان پر میری خوش گوار حیرت باقی ہے۔ بڑے
پیمانے پر اور شہر کی مصروف شاہراہوں پر برپا کیے جانے والے ڈراموں کی شعبدہ گری اپنی جگہ، مجھے تو محدود سطح کے اور مختصر تھئیٹر کے یہ فن پارے زیادہ معنی خیز معلوم ہوئے، زندگی کی معنویت سے لبریز ۔

اس رنگ رنگ جشن میں کئی ملکوں سے فن کار آئے ہوئے تھے لیکن پہلی بار ایسا ہوا کہ فلسطین سے تعلق رکھنے والا ایک گروپ پاکستان آیا۔ ان کا کھیل ظاہر ہے کہ ان کی اپنی صورت حال کے بارے میں تھا، لیکن کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ صورت حال آفاقی نہیں؟ اس کھیل میں اشاروں، کنایوں سے کام لیا گیا تھا اور کچھ حصّہ چُپ سوانگ کی طرح تھا۔ بعض ٹکڑے اتنے مضحکہ خیز تھے کہ تکلیف دہ معلوم ہونے لگے۔ ایسے ہی ایک حصّے کے دوران پیچھے سے آواز آئی اور میں نے مُڑ کر دیکھا کہ ٹیلی وژن کی معروف اداکارہ زور زور سے ہنس رہی تھیں، یہ ہنسی ان کا ردعمل تھی۔ اسی طرح اگلے دو ڈرامے جو میں نے دیکھے ان میں بھی لوگ موقع بے موقع بہت ہنس رہے تھے۔ خاص طور پر ایسے سین میں جو زہرخند یا مہمل کا نمونہ پیش کررہے تھے۔ ایک کھیل کے دوران میرے برابر بیٹھے ہوئے مشہور صحافی نے پیچھے سے ہنسنے اور سرگوشی کرنے والوں کو گُھرک دیا۔ ان کو تو چپ کروا دیا لیکن میں سوچنے لگا کیا کراچی والے دوسروں کی اذیت پر ہنسنا پسند کرنے لگے ہیں؟ گویا آگے آتی تھی حال دل پر ہنسی، اب ہر اک بات پر آتی ہے!

یوں تو اس پورے جشن میں ایک سے بڑھ کر ایک موسیقی کے پروگرام اور ڈرامے پیش کیے گئے جن کے بارے میں بہت کچھ لکھنے کی گنجائش ہے لیکن میں دو ڈراموں کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہوں گا جو ناپا کے مختصر سے آڈیٹوریم میں بھی نہیں کھیلے گئے بلکہ ان کو جگہ ملی تو زیرِزمین، یعنی وہ بیسمنٹ میں دکھائے گئے۔ ڈراموں کی ایک پوری اور متوازی لہر، اس تہہ خانے میں جاری تھی اور اس میں وہ ڈرامے رکھے گئے جو نوجوان قلم کاروں کی فکر کا نتیجہ تھے اور انتظامیہ کے نزدیک ان میں تھوڑی بہت گنجائش تھی۔ تہہ خانے میں باقاعدہ اسٹیج تھا اور نہ سیٹ، حاضرین کی کرسیاں سامنے تھیں بلکہ بہت س لوگ سامنے فرش پر بیٹھ گئے تھے۔ اس وجہ سے ان ڈراموں میں ایک فوری پن (immediacy) اور بے تکلفی سی تھی۔ جیسے ڈرامہ دیکھنے والوں کو ڈرامے کے اندر داخل ہونے کا موقع مل گیا ہو۔ اس ڈرامے کی تکلیف دہ صورت حال کے انداز۔ اب آپ یہ فیصلہ کیجیے کہ ڈرامہ اس کمرے کے اندر ہے یا باہر؟ اور آپ خود کہاں ہیں؟

یہ دونوں ڈرامے تجرباتی ہونے کی وجہ سے تہہ خانے میں رکھے گئے ہوں گے لیکن دونوں کا تجربہ بہت کامیاب گیا۔ اسٹیج کرافٹ میں کامیابی کی وجہ سے دونوں ڈرامے اپنی اپنی جگہ کامیاب ٹہرے۔ یہ ڈرامہ کس جگہ ہورہا ہے اور کتنے بجے، اس بارے میں غلط اندازہ لگانے کی وجہ سے میں دیر سے پہنچا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ’’اختیار‘‘ نام کا یہ ڈرامہ میں نے پورے سوا گھنٹے کھڑے ہو کر دیکھا اور تھک جانے کے باوجود میں اس کو چھوڑ کر باہر نہیں نکل سکا۔ ’’اختیار‘‘ کے ہدایت کار تھے زین احمد اور اسے لکھا تھا میثم نقوی نے جن کو اس سے پہلے میں داستان گوئی کے حوالے سے جانتا تھا۔ ایک نوجوان جوڑا جن کے ہاں بچّہ نہیں ہورہا، ان کی اندرونی کشمکش سے کہانی چلتی ہے اور ایک پورے گروہ کی اجتماعی نفسیات کی تصویر بن جاتی ہے کہ کس طرح وہ محاصرے کی سی حالت کا شکار ہورہے ہیں اور اپنی اقدار کو قائم رکھنے میں ایک طرح کی ملّائیت کا شکار بھی بننے لگتے ہیں۔ یہ تو خیر موضوع کا بیان ہوگیا مگر اصل کامیابی تو یہ ہے کہ صورت حال کے اندر پنہاں ڈرامائیت ابھرتی کیسے ہے۔ سادہ سا اسکرپٹ اور جان دار اداکاری اس کے بہت اہم عناصر تھے۔ پھر یہ کہ سڑک پر جاری اجتماعی دھرنا، مجلس اور سوزخوانی، حضرت علی اصغرؓ کے گہوارے کی روایت کو اتنی خوبی کے ساتھ ڈرامائی عمل کا حصّہ بنا دیا گیا تھا کہ یہ احساس نہیں ہوا کہ ایسی باتیں ہمارے ہاں اسٹیج پر پیش نہیں کی جاتی تہیں۔ مگر اس ڈرامے میں یہ فطری اور عین مناسب معلوم ہورہی تھیں۔ ڈرامہ اپنے انجام کو پہنچ کر آپ کو صدمے سے دوچار کردیتا ہے۔ اور آپ سنبھلنے بھی نہیں پاتے کہ ہدایت کار سامنے آکر سوال کرنے لگتا ہے کہ اس ڈرامے کو دیکھ کر کیا آپ دوسرے فرقے کے لوگوں کے لیے رواداری اور برداشت محسوس کریں گے؟ اتنے پیچیدہ اور عمدہ ڈرامے کے بعد یہ سوال ہلکے اور سامنے کی بات معلوم ہوئے۔ اس ڈرامے کے واحد مکالمے جو کم زور تھے۔

ایک گھر میں رات گئے ٹیلی فون بجنے لگتا ہے اور جب فون اٹھایا جائے تو دوسری طرف سے کوئی نہیں بولتا۔ یہ فون بار بار آتا ہے اور کوئی نہیں بولتا۔ بولنے اور خاموشی کے درمیان مکالموں سے شروع ہونے والے اس کھیل کا نام ’’چُپ‘‘ بالکل ٹھیک لگا۔ اس ڈرامے کی ایک خوب صورتی خاموشی کے وہ وقفے بھی تھے جو بولتے بولتے کرداروں کے درمیان آجاتے تھے اور پھر ذرا دیر بعد غائب ہو جاتے۔ اپنی بات کہنے، سننے کے لیے وہ کردار دوبارہ جدوجہد کرنے لگتے۔ یہ ڈراما ابلاغ کی شکست کے بارے میں بھی ہوسکتا تھا، اگر اس کا سیاسی و سماجی سیاق اتنا معنی خیز نہ ہوتا۔ یہ کسی تجریدی یا علامتی صورت کا بیان نہیں، ایسے گھر کی کہانی جسے ہم پہچان سکتے ہیں اور دل ہی دل میں شُکر گزار ہو سکتے ہیں کہ یہ ہمارا گھر نہیں ہے۔ یا پھر شاید یہی ہمارا گھر ہے، ہمیں خبر نہیں ملی ہے۔

اس ڈرامے کے ہدایت کار سُنیل شنکر تھے اور اسے محمد فواد خان نے لکھا تھا جو اس سے پہلے کراچی میں داستان گوئی کے احیاء کی کامیاب کوشش کرچکے ہیں۔ فواد اب تک پڑھنت کے ماہر جانے جاتے تھے، اب انھوں نے لکھت میں اپنا لوہا منوا لیا ہے۔ ان کے مکالمے بہت آہستگی سے سامنے آتے ہیں، اس لیے متاثر کرتے ہیں، فواد نے اپنا کردار کامیابی کے ساتھ نبھایا مگر مجھے بختاور مظہر نے بہت متاثر کیا۔ برسوں پہلے میں نے انھیں ’’سلطان کا فیصلہ‘‘ میں شاہانہ وقار والی ملکہ کے روپ میں دیکھا تھا، اب وہ اس ماں کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ جس کا بیٹا گھر نہیں آیا۔ وہ بہت کچھ کہتی ہے اور اس سے زیادہ کہتے کہتے رہ جاتی ہے۔ اس کردار کی ساری تکلیف اور کشمکش جیسے بختاور مظہر نے اپنے چہرے کے تاثرات میں سمیٹ لی تھی۔

فواد کے کھیل میں شور شرابا تھا اور نہ احتجاج کی لے بلند ہوئی۔ اس کے باوجود اس میں سب کچھ کہہ دیا گیا۔ ان قوتوں کا نام لیے بغیر حوالہ بھی دے دیا گیا جن کی مرضی سے سب کچھ ہوتا ہے۔ مُلک میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ گھر کی کشمکش میں نظر آتا ہے۔ کردار اکہرے اور سطحی نہیں ہیں۔ ان میں تضاد ہے اور ان کے محرکات ذرا دیر میں کُھلتے ہیں۔ مگر کُھل کر سامنے نہیں آتے۔ کھیل کا کمال اس کے under-statement میں ہے۔ اتنے کم الفاظ میں اتنی گہری معنویت، یہ خوبی تو افسانوں میں ہوا کرتی تھی۔ کیا یہ ڈرامہ دوبارہ دیکھنے کو مل سکتا ہے؟ ایک بار دیکھ کر دل نہیں بھرا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).