جون ایلیا، منیر نیازی، امانت علی اور زاہد ڈار


یار کئی لوگ ایسے لگتے ہیں جیسے انہیں میں نے کہیں دیکھا ہو، اب اسی برس کی عمر میں پتہ نہیں کتنے ہی لوگوں کو دیکھا ہو گا۔ وہ دیکھو وہ جو سامنے بندہ ہے، اب وہ کبھی نہ کبھی کہیں دیکھا ہے، پر کہاں، یہ اگر یاد آ جائے تو پھر کیا بات ہے۔ بہت سے لوگ مجھے دیکھتے ہیں اور حیران ہو جاتے ہیں کہ یار تم ابھی تک زندہ ہو ہم سے تو جو بھی ٹی ہاؤس والے گروپ کا پوچھتا ہے ہم کہتے ہیں سارے مر کھپ گئے۔ میں کہتا ہوں ہاں جیسا بھی ہوں تمہارے سامنے ہوں۔

ڈار صاحب ریڈنگز کے باہر بیٹھے ہوئے سگریٹ پی رہے تھے۔ پارکنگ سے فارغ ہو کر ان کے ساتھ ہی جگہ مل لی، سگریٹ سلگائی اور باتیں شروع ہو گئیں۔

ریڈنگز پر جب میں پہلی مرتبہ آیا تو میں نے ایک ایک شیلف دیکھا، اتنی ڈھیر ساری کتابیں تھیں، میں نے ان میں سے کوئی ایک دو سستی سی نکالیں اور جب کاؤنٹر پر گیا کہ بل دے دوں تو پیچھے سے ڈاکٹر صاحب (ریڈنگز کے مالک) آ گئے۔ لڑکوں کو منع کیا کہ بھئی زاہد ڈار سے پیسے نہیں لینے، یہ جب بھی آئیں جو کچھ بھی لیں، ان کی اپنی دکان ہے۔ بس تب سے پھر میں یہاں آ جاتا تھا۔ یہ دیکھیں، موبی ڈک، یہ میرا فیورٹ ناول ہے اور ایک اور تھا، ہاں یہ رہا، ڈان کے خوتے، یہ اسپینیش ناول تھا، کیا زبردست کتاب تھی۔ ایک اور ناول تھا، وہ رشین تھا، اوبلوموو، اس پر تو انتظار حسین نے کہیں لکھ بھی دیا تھا میرے بارے میں، زاہد ڈار اور اوبلوموو، شاید اس کی پہلی کتاب جو ایسے خاکوں یا کالموں کی تھی، اس میں لکھا ہو گا۔

اب کتابوں سے گزرتے ہوئے اندر کیفے جا رہے تھے۔

پہلے زاہد ڈار کیفے میں ہی بیٹھے بیٹھے سگریٹ پی لیتے تھے، انہیں سپیشل اجازت تھی۔ پھر انہوں نے جب دیکھا کہ یار چھ سگریٹ اور میرے احترام کے چکر میں جل جاتے ہیں تو انہوں نے خود ہی باہر جا کر پینا شروع کر دیا۔ اسی بہانے تھوڑا چلنا پھرنا ہو جاتا اور واپسی پر کتابوں کو بھی نظر بھر دیکھ لیتے۔ اب وہ اندر آ کر بیٹھ چکے تھے۔

اموڈیم کا چھ گولیوں والا پتہ سامنے دھرا تھا، کہنے لگے، یار میرا پیٹ کبھی ٹھیک ہی نہیں ہوتا، یہ کیسی دوائی ہے؟ کہا بس ایک گولی لے لیجیے، بہتر ہو جائے گا۔ بولے، یار میں تو کتنے عرصے سے یہ کھا رہا ہوں میرے اوپر تو کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد چھ کی چھ گولیاں ڈار صاحب کھا چکے تھے! اموڈیم اور ان کا عشق برسوں پرانا ہے، جتنی مرضی کھا لیں ان کا کچھ نہیں بگڑتا۔

پوچھا انتظار صاحب کس شاعر یا ادیب کی تعریف کرتے تھے، کہنے لگے یار شاعر تو ان کا ایک ہی پسندیدہ تھا، ناصر کاظمی، ویسے وہ محمد حسن عسکری کی بہت عزت کرتے تھے، وہ تو واقعی بہت بڑے آدمی تھے، میرے خیال میں تو ان کے پائے کی تنقید مغرب میں بھی کم ہی کسی نے کی ہو گی۔ کیا نقاد، کیا افسانہ لکھنا، کیسے عمدہ ترجمے کرتے تھے، مادام بواری جیسا ترجمہ دوبارہ اردو میں کہاں ہوا ہو گا، شروع میں وہ فرانس کے ادیبوں سے بہت متاثر تھے، پھر پاکستان بننے کے بعد وطن پرستی اور مذہب نے انہیں اپنی جانب کھینچ لیا۔ کہاں تو وہ بات بات میں سارتر اور جوائس کے حوالے دیتے تھے، کہاں ایک مرتبہ سلیم احمد نے پوچھا کہ عسکری صاحب، کچھ بتائیے میں کیا پڑھا کروں، کہنے لگے نماز پڑھا کرو۔ اب سلیم احمد پکے مسلمان آدمی تھے لیکن اس جواب سے وہ بھی ایک دم چپ ہو گئے۔ پھر انہوں نے مولانا اشرف علی تھانوی کا ترجمہ بھی انگریزی میں کیا، داڑھی نہیں رکھی تھی (ایک سوال کا جواب) لیکن مکمل طور پر اپنے ہی پرانی باتوں کو رد کرتے تھے۔ بڑے پائے کے نثر نگار تھے۔

استاد فتح علی خان کی وفات کا بتایا تو بہت حیران ہوئے، افسوس کیا، بولے، یار مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا، اسے میں نے ہمیشہ امانت کے پیچھے بھاگتے دیکھا تھا۔ وہ بہت فکر کرتا تھا اس کی۔ اس کے بھی کام ہی ایسے تھے، نسبت روڈ والے گھر سے نکلتے ہی وہ جا کر ادھا خریدتا تھا اور سیدھے پاک ٹی ہاؤس آ جاتا تھا۔ اسے پتہ نہیں کیوں شوق ہو گیا تھا کہ شاعروں ادیبوں کے ساتھ بیٹھ کر پئیے، تو میری والی میز پر آ جاتا تھا۔ لیکن ہم لوگوں کے پاس بھی وہ تھوڑی دیر ہی بیٹھتا تھا، زیادہ وقت ادھر فیروز سنز کے سامنے کوئی شوروم تھا گاڑیوں کا، تو وہاں جا کر ان کے ساتھ پیتا تھا۔ وہ امیر لوگ تھے، ظاہری بات ہے ایسے شوق وہیں پورے ہو سکتے ہیں، ہم تو شروع سے ہی فقیر تھے۔

وہ جب آتا تھا تو میں کبھی کبھی اسے لے کر منیر نیازی کے پاس چلا جاتا تھا۔ منیر نیازی بہت شوقین تھا پینے کا، اس کے پاس جو بھی اچھی قسم کی بوتل لے کر جاتا تھا تو وہ کہتا، یار یہ بہت اعلیٰ انسان ہے، اور جو ایویں خالی ہاتھ چلا جاتا اسے کہتا، یہ تو بالکل فارغ ہے۔ باہر سے جو شاعر ادیب آتے اور انہیں منیر نیازی سے ملنا ہوتا تو وہ پاک ٹی ہاؤس میں آ کر میری میز پر پہنچ جاتے، میں انہیں بتا دیتا کہ اس سے ملنا ہے تو اچھی شراب لے کر جاؤ، وہ بہت خوش ہو گا۔ ایک بار اس نے مجھے کئی لوگوں کے سامنے کہا کہ زاہد ڈار، تم میرے بعد لاہور کے سب سے بڑے شاعر ہو گے۔ میں نے قتیل شفائی کو بتایا تو وہ بہت ناراض ہوا۔ ایویں تم ہو گے بڑے شاعر، یہ کیا بات ہوئی، بہت دیر تک بولتا رہا۔

امانت اور منیر نیازی پینے بیٹھتے تو ان کی لڑائی ہو جاتی تھی۔ امانت کو جب چڑھ جاتی تو وہ گلاس سامنے رکھ کر بیٹھ جاتا اور کہتا، دیکھو اب میں تان لگاؤں گا اور گلاس ٹوٹ جائے گا۔ پھر وہ ایک تان اٹھاتا، دوسری، تیسری، جب وہ اچھا خاصا پکا گانا گا لیتا تو منیر اسے ٹوک دیتا، توں بس کر دے ہن (تو بس کر دے اب)، وہ جھلا جاتا، کہتا تھوڑا سا اور گانے دو، یہ ٹوٹ جائے گا، منیر کہتا، ایہنے تے ٹٹنا نئیں، میرا کی قصور اے (اس نے تو ٹوٹنا نہیں، میرا کیا قصور ہے) اسی چکر میں دونوں لڑ پڑتے تھے۔ گلاس نے تو ٹوٹنا ہی نہیں ہوتا تھا اور نہ وہ کبھی ٹوٹا۔ (ویسے انتظار صاحب نے لکھا تھا کہ پی ٹی وی پر ناصر کاظمی کے لکھے بولوں میں راگ میگھ ملہار جب امانت علی خان نے گایا تو باہر بوندا باندی شروع ہو گئی، ناصر کاظمی اسے اپنے شعر کی تاثیر قرار دیتے رہے اور امانت علی اپنے گانے کی۔ اسی طرح انہوں نے امانت علی کے گانے سے شیشے میں بال پڑنے کا بھی ذکر کیا تھا۔) عجیب لوگ تھے یار اس زمانے کے، کیسے کیسے بڑے شاعر تھے، منیر نیازی میں انا بہت زیادہ تھی۔

انا کا ذکر چھڑا تو جون ایلیا کے بارے میں ڈار صاحب سے پوچھا، کہ ان کی انا کا عالم کیا تھا۔ کہنے لگے، یار وہ تھوڑے عرصے کے لیے لاہور آیا تھا۔ کراچی میں ایک مشاعرہ تھا، وہاں ایم کیو ایم سے کوئی بڑا لیڈر آنے والا تھا۔ اس کو آنے میں دیر ہو گئی۔ جون ایلیا نے شور مچا دیا کہ میں زیادہ انتظار نہیں کر سکتا، انہوں نے اس بے چارے کو بڑا مارا۔ تو بس یہ ناراض ہو کر لاہور آ گیا۔ ایک دن میری میز پر آ کر بیٹھا اور کہنے لگا اب میں یہاں سے نہیں جاؤں گا۔ میں نے اسے سمجھایا کہ وہاں کراچی میں تو مفت کی مل جاتی تھی تمہیں، ادھر کیسے ملے گی۔ بس وہ کہتا تھا اب یہیں رہوں گا۔ اسے جب نشہ ہوتا تو وہ دیواروں پر چڑھنے کی کوشش کرتا، درختوں پر چڑھ جاتا وہاں سے چھلانگ لگا دیتا۔ بہت سی باتیں کرتا تھا۔ بیوی سے علحدگی ہو چکی تھی تو اس کو بھی یاد کرتا تھا۔ انا تو بہت ہی تھی، خود پسند تھا وہ بھی منیر نیازی کی طرح۔ وہ بہت تھوڑا عرصہ یہاں رہا، پھر واپس چلا گیا۔ کمال شاعر تھا یار، اور اس کی تو نثر بھی کیا بہترین تھی۔ اس کی پہلی کتاب، شاید کا دیباچہ ہی ایسا شاندار لکھا تھا اس نے، بہت زبردست لکھتا تھا۔ لوگ پتہ نہیں کیا کہتے ہیں، مجھے تو بہت پسند تھا۔

تو زاہد ڈار ایسے ہی ہیں۔ بہت مرتبہ کہا کہ اگر آپ چاہیں تو فیس بک کے ذریعے قوم سے لائیو خطاب کرنے کا موقع بن سکتا ہے لیکن وہ مانتے ہی نہیں۔ کہتے ہیں اس سے بہتر ہو گا کہ میں خود گڑھا کھود کر اس میں گر جاؤں۔ کوئی روایتی انٹرویو کسی قسم کی ریکارڈنگ کچھ بھی نہیں کرواتے۔ اس کا حل یہ نکالا کہ جس دن ملاقات ہوئی، واپسی پر تمام راستہ یہ سب واقعات اونچی اونچی آواز میں اپنے آپ کو سنائے۔ سوچ سوچ کر سارے قصے دہرائے اور گھر آ کر جلدی جلدی لکھ لیا۔ ایک تحریر پہلے بھی انہیں کی زبانی لکھی تھی، تب ایک دوست کو فون ملا کر ایک گھنٹہ اس کا سر کھایا تھا۔ لیکن یہ طریقہ اچھا ہے، آخر جب ریکارڈنگ نہیں ہو سکتی تھی تو یار لوگ کیا کرتے ہوں گے؟ اور یہ جو تصویر ہے جس میں وہ کاغذات تھامے کھڑے ہیں، یہ بھی اسی دن بنائی تھی اور انہیں پسند بھی آ گئی۔ زہے عز و شرف!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain