بھٹو صاحب کے ساتھ امر ہونے والی شاعری


راتیں تو خیر سیاہ ہوتی ہی ہیں لیکن راتوں کی سیاہی کوختم کرنے کیلئے امید کی کوئی کرن، کوئی شمع یا کوئی جگنو کہیں نہ کہیں موجود ضرورہوتا ہے جو تاریکی کا طلسم توڑتا ہے۔ مگر وہ رات عام راتوں جیسی نہیں تھی۔ وہ رات کچھ زیادہ ہی سیاہ تھی اور اس سیاہی کے بطن سے روشنی اور امید کی نئی کرنیں بھی طلوع ہورہی تھیں۔ جولائی1977 میں جمہوریت کا قتل کرنے والے جنرل ضیاءالحق کو معلوم نہیں تھا کہ 4 اپریل 1979 کی شب وہ جس نام کو مٹانے جا رہا ہے وہ نام رہتی دنیا تک تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ سچائی کبھی قتل نہیں ہوتی۔ سچائی کو ختم کرنے والے خود ختم ہو جاتے ہیں لیکن سچائی ہمیشہ سلامت رہتی ہے۔ اس رات جبر کے کڑے پہروں میں پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کو تختۂ دار پر لٹکانے والے نہیں جانتے تھے کہ وہ جسے ختم کرنے جا رہے ہیں وہ لوگوں کے دلوں پر ہمیشہ راج کرتا رہے گا۔ وہ خوشبوکی طرح پورے منظر نامے کواپنے حصار میں لے لے گا۔

ذوالفقارعلی بھٹو کو 4 اپریل1979 کی رات دوبجے پھانسی دی گئی ۔ ایک فوجی طیارے میں ان کے جسدِ خاکی کو جیکب آباد اورپھر وہاں سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے گڑھی خدابخش پہنچا دیا گیا۔ ہ رطرف خوف وہراس کا پہرہ تھا۔ ہزاروں افراد زندانوں میں ڈال دیئے گئے تھے۔ چیئرمین بھٹو کی اہلیہ اوربیٹی زیرِحراست تھیں۔ ایک بے بسی کی کیفیت نے پورے ملک کو حصار میں لے رکھا تھا۔ نوڈیرو میں چند لوگوں کو نماز جنازہ میں شرکت کی اجازت ملی۔ ایک چھوٹی چارپائی پر ان کا جسد خاکی کچھ اس انداز میں رکھا گیا تھا کہ پاؤں چارپائی سے باہر تھے۔ تدفین کے بعد گیارہ بجے دن ریڈیو پاکستان سے پہلی یک سطری خبر نشرہوئی اور بتایا گیا کہ عوام کے محبوب قائد کو پھانسی دینے کے بعد سپردخاک کر دیا گیا ہے۔ فوجی آمر نے اس عظیم رہنما کو جسمانی طورپر ختم کردیا جو استعماری طاقتوں کی آنکھوں میں بری طرح کھٹکنے لگا تھا۔

بھٹو کی شہادت پاکستان کی تاریخ کا وہ المناک واقعہ تھا جس نے ہر صاحبِ دل کو اشکبار کردیا۔ یہ واقعہ پاکستان کی تاریخ پر کس طرح اثرانداز ہوگا اس کا اس وقت تو کسی کواندازہ نہ تھا اور ڈکٹیٹر سمیت بہت سے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ دوچارسال بعد یہ نام ماضی کا حصہ بن جائےگا۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھٹو ایک نظریہ حیات بن گیا۔ بھٹو زندگی کی علامت بن گیا۔ بھٹو ازم تبدیلی کا سب سے بڑا نعرہ بن گیا۔ آج ایک ایسی نسل جوان ہوچکی ہے جس نے بھٹو صاحب کو صرف تصویروں میں دیکھا اور ویڈیوز میں سنا ہے لیکن بھٹو ازم اس نسل کا بھی منشور ہے۔ جان کے نذرانے کے ساتھ بھٹو صاحب نے مزاحمت کے جس سفر کا آغازکیا تھا اسے محترمہ بے نظیر بھٹو نے انجام تک پہنچایا۔ لیکن یہ سفر تو یوں لگتا ہے کہ نسل درنسل جاری رہے گا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی شہادت نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو متاثر کیا وہیں یہ شہادت شاعروں اور قلم کاروں پربھی اثرانداز ہوئی۔

اہل قلم ہمیشہ سے دوقبیلوں میں بٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک قبیلہ وہ ہے جو مزاحمت کا درس دیتا ہے اور لفظ کی حرمت پر یقین رکھتا ہے ۔ یہی وہ قبیلہ ہے جس کی آواز دور تک ہی نہیں دیر تک بھی سنائی دیتی ہے۔ دوسرا قبیلہ مفاد پرستوں، کاسہ لیسوں اور درباریوں کا ہوتا ہے ۔ یہ لوگ ہر دور میں شاہ کے قصیدے لکھتے ہیں۔ نذرانے اور اعزازات وصول کرتے ہیں۔ یہ سب لوگ وقتی مفادات تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن ان کے لفظوں میں تاثیر باقی نہیں رہتی۔ بھٹو صاحب کی شہادت سے پہلے بھی آمر وقت نے مفاد پرست قلمکاروں سے روابط بڑھا لئے تھے اور ان پر نوازشات کی بھرمار کردی تھی۔ لیکن بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کے بعد تو اس بکاؤ مال کے دام لگانا انتہائی ضروری ہو گیا تھا۔ اور دام کیا تھے صرف ہوائی جہاز کے ٹکٹ ، اعلیٰ ہوٹلوں میں قیام اور دربارتک رسائی۔ سو اس مقصد کےلئے جنرل ضیاء نے اکادمی ادبیات پاکستان کے زیراہتمام 11 اپریل کو اسلام آباد میں پہلی اہل قلم کانفرنس طلب کرلی۔ بھٹو صاحب کی شہادت کے صرف چھ روز بعد ہونے والی اس کانفرنس میں بہت سے قلمکاروں نے شرکت سے انکارکردیا۔ لیکن ایک گروہ ڈکٹیٹر کے ہاتھ مضبوط کرنے کیلئے وہاں موجود تھا۔ جنہوں نے انکار کیا وہ عتاب کے بھی حقدار ٹھہرے۔ بہت سے صحافیوں اور قلمکاروں کو حق گوئی کی پاداش میں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ان پر اوران کے عزیز و اقارب پر زندگی تنگ کردی گئی۔ لیکن بھٹو صاحب نے جان کا نذرانہ پیش کرکے جس کٹھن راہ کا انتخاب کیا تھا اس پر چلنے والوں کے پائے استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی۔ یہ وہی دور تھا جب حبیب جالب ’’بندے کو خدا، ظلمت کو ضیاء کیا لکھنا ‘‘ کا نعرۂ مستانہ بلند کررہے تھے اوردوسری جانب فیض احمد فیض کہہ رہے تھے ’’ ہم دیکھیں گے / لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے/ وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے/ ہم دیکھیں گے۔‘‘

آج آزاد میڈیا کے دور میں جوان ہونیوالی نسل ان پابندیوں کا اندازہ ہی نہیں کرسکتی جن کا ضیاء آمریت کے دوران قلمکاروں کو سامنا تھا۔ سرکاری اخبارات اور ریڈیو ، ٹی وی ’’مرد مومن‘‘ کے حق میں راگ الاپنے میں مصروف تھے۔ باقی اخبارات سنسر شپ کی زد میں تھے۔ فوجی افسران پریس میں جانے سے پہلے اخبارات کی کاپیوں کی پڑتال کرتے تھے ۔ ایک ایک سطر کو بغور پڑھا جاتا تھا اور حکم عدولی کرنے (یعنی سچ لکھنے) والے اخبارات و جرائد کے ڈیکلیریشن منسوخ کردیتے جاتے تھے۔ علامہ اقبال کے بعض اشعار پر بھی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس دور ابتلا میں بھٹو صاحب کا قتل شاعروں اور ادیبوں کیلئے تخلیقی تحرک کا باعث بنا۔ جومزاحمتی ادب اس دور میں سامنے آیا اس کی مثال اس سے پہلے کبھی ملتی تھی اور نہ اس کے بعد دیکھنے میں آئی۔ جوش ملیح آبادی ان دنوں اسلام آباد میں ہی مقیم تھے وہی اسلام آباد جس کا ذکر جوہر میر نے نصرت بھٹو کومخاطب کرکے کچھ اس انداز میں کیا تھا ’’اسلام آباد کے کوفے سے میں سندھ مدینے آئی ہوں‘‘ اسی اسلام آباد میں جوش ملیح آبادی ضیا ء آمریت کے عتاب کا شکارتھے اس دوران ان کا ایک شعر بہت مشہور ہوا:

الہٰی ان سماعت مردہ مادر زاد بہروں میں

مجھے شرمندۂ گفتار رکھا جائیگا کب تک

اسی بے بسی کے ماحول میں بھٹو صاحب کی شہادت نے ایک تازیانے کا کام کیا۔ خاموشی ٹوٹی اور لہو نوک قلم سے رواں ہونے لگا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی شہادت نے اردوشاعری کو نئی لفظیات عطا کیں۔ نئے استعارے ، تلمیحات اور تشبیہات شاعری کاحصہ بنیں ۔ 4 اپریل 1979 سے پہلے ہمیں اردوشاعری میں دارورسن کا تذکرہ ملتا تو تھا مگریہ اس تواتر اور اتنے بہت سے مفاہیم کے ساتھ نہیں تھا۔ کربلا کے تمام استعارے جواس سے پہلے صرف سلام اورمرثیے تک محدودتھے 4 اپریل 1979 کے بعد بھٹو صاحب کی نسبت سے بھی شاعری کا حصہ بن گئے۔ اسی طرح عیسٰی کی جوتلمیح پہلے صرف حضرت عیسٰی سے منسوب تھی بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد ہونیوالی شاعری میں بھٹو صاحب سے منسوب ہوکررہ گئی۔ جلاد، صیاد، کال کوٹھڑی، صلیب ، داروررسن، رسی، پھندہ، تختہ، قاتل، منصف، ترازو، عدل ، گواہ، منصور اور اناالحق جیسے لفظ بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد ہی اردوشاعری کاحصہ بنے اور صرف ہماری شاعری کا حصہ ہی نہیں بنے، ان لفظوں کو بھٹو صاحب کے حوالے سے نئی معنویت بھی مل گئی۔ بھٹو صاحب کو عہد حاضر کا عیسٰی قراردیا گیا تو یزید کا لفظ اس شخص کےلئے مخصوص ہوکر رہ گیا جس کا نام نہ بھی لکھوں تو سمجھ آجاتا ہے۔

کھل گئے پھرلبِ منصور انالحق کیلئے

پھر چلے آئے ہیں وحشی رسن ودار کے ساتھ

(ظہیر کاشمیری)

مردوں کو زندہ کرے اس پر بپھرتے آئے ہیں

ہردور میں عیسٰی کو ہم مصلوب کرتے آئے ہیں

(قتیل شفائی)

ہراک نشیبِ شہر میں آباد اس کی یاد

ہر بے چراغ گھر میں سکونت اسی کی ہے

(پرویز چشتی)

دہرائی پھر یزیدوں نے تاریخ کربلا

خونِ ناحق کا یہ نیا باب دیکھنا

(فارغ بخاری)

اس جبر کے دور میں سلیم شاہد نے لاہور سے ایک کتاب ’’خوشبو کی شہادت‘‘ شائع کی۔ یہ کتاب اس شاعری پر مشتمل تھی جو 4 اپریل 1979 کے بعد کی گئی ۔’’خوشبو کی شہادت‘‘ میں بہت سے ایسے شاعروں کا کلام بھی موجود تھا جو سرکاری ملازم تھے۔ ان میں احمد فراز، کشورناہید، شہرت بخاری اورجاوید شاہین کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس دور اذیت میں سرکاری ملازمت کے دوران حاکم وقت کے خلاف آواز بلند کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا لیکن ان شعراء نے ہر قسم کی مصلحت کو بالائے طاق ر کھ کر اس ظلم اور بربریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ پھراس جرم میں ان میں سے کسی کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا تو کوئی جلاوطنی کی زندگی اختیارکرنے پر مجبور ہوگیا۔

ہوائے دہر سوچتی ہے کہ کس بھنور میں آگئی

وہ اک دیا بجھا توسینکڑوں دیئے جلاگیا

(احمد فراز)

سینۂ ابن علی میں جو کبھی اتری تھی

آج نیزے کی اسی نوک پہ کس کا سر ہے

(جاوید شاہین)

ہیں ہاتھ تو اپنے ہی پر تیغ ہے اوروں کی

تسلیم و رضا والو گردن نہ جھکا رکھنا

(شہرت بخاری)

اسے خبر تھی کہ تاریخ اس میں زندہ ہے

کہ اس کا نام ستاروں میں کب سے لکھا تھا

(کشورناہید)

نوڈیرو میں گونج لہو کی سن لو اپنے کانوں سے

خون ناحق چھپ نہیں سکتا مذہب کے دستانوں سے

(فارغ بخاری)

اس دور میں کہی گئی بہت سی غزلیں اور نظمیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں ۔ بھٹو صاحب جس طرح خود تاریخ میں امر ہوئے اسی طرح ان سے منسوب شاعری بھی امر ہوگئی۔

تجھ کومرنا تھا تجھے موت تو آ جانی تھی

دکھ تو یہ ہے ترا قاتل ترا درباری تھا

(صفدرسلیم سیال)

آؤ جس عیسیٰ کو ہم نے سولی پر لٹکایا

اس کے لہولہان بدن پر بین کریں

اوراشک بہائیں

فرض میں پورے اتر چکے

اب قرض چکائیں

(احمد فراز)

بھٹو صاحب کے قتل کا فریضہ تو اوروں نے انجام دیا تھا لیکن ان کے افکار و نظریات اور ان کی سوچ کو آگے بڑھانے کا قرض شاعروں ، ادیبوں کو چکانا تھا اور وہ یہ قرض آج تک چکارہے ہیں۔

(بشکریہ: گرد و پیش)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).